تنظیم اور سیاسی میدان کے کھیل (چھٹی قسط) ۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

Bhatkallys

Published in - Other

03:30PM Tue 15 Nov, 2016
میں نے اس مضمون کی سابقہ قسطوں میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ سیاسی محاذ پر تنظیم کا موجودہ بحران بڑی حد تک سیاسی زمینی حقائق سے چشم پوشی،پارٹی پالیٹکس اور شخصیات کی سیاسی انانیت کے ٹکراؤ کا نتیجہ ہے۔ ورنہ یہ معاملہ اس قدر پیچیدہ اور ہتک آمیز شکست کا باعث نہ ہوتا۔ اوراگر ہم اس انتخابی نتیجہ اور اس سے پیدا ہونے والے بحران کو ہلکے میں لیں گے اور جذباتی فیصلے کریں گے تو اس سے مزید نقصان ہی ہونے کے اندیشے اپنی جگہ موجود ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اس کی شروعات ہونے کے اشارے بھی ملنے لگے ہیں۔ کاش دانشمندی سے کام لیتے !: مثال کے طور پر یہی دیکھیں کہ موجودہ جالی پٹن پنچایت کا قضیہ سر ابھارتے ہی عوامی سطح پر جو ہنگامہ خیز صورت حال کھڑی کی گئی اور شورش و انتشار کی راہ اپنائی گئی اس سے لگتا ہے کہ تنظیم کے ارباب حل و عقد بھی دباؤ میں آگئے۔ پھر حالانکہ غور وخوض اور باہمی مشورے سے کچھ فوری فیصلے کیے گئے ، مگر اس کا فائدہ تنظیم کے مقصد کو پورا کرنے میں ہوتا نظر نہیں آتا، الٹے مجھے لگتا ہے کہ اس سے اپوزیشن کیمپ کو مزید مستحکم ہونے کا موقع ہاتھ آیا ہے۔ کیونکہ جالی پٹن پنچایت علاقے کی جن جماعتوںیا مساجد کی کمیٹیوں کو جیتنے والے باغی امیدوار کے تعلق سے جس قسم کارویہ اختیار کرنے کی جو مبینہ تحریری ہدایات جاری کی گئی ہیں وہ ایک طرح سے سیاسی اور سماجی مصلحت کے منافی نظر آتی ہیں۔ اس بارے میں دو رائے ہرگز نہیں ہے کہ اجتماعی موقف کی خلاف ورزی کا سخت نوٹس لینا چاہیے اور تادیبی کارروائی ہونی ہی چاہیے۔ مگر میرا اشارہ اختیار کیے گئے طریقۂ کارکی طرف ہے۔یہی کام مشاورتی اجلاس کے ذریعے زبانی ہدایات کے ساتھ بھی انجام دیا جاسکتا تھا۔اور سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے والا طریقہ اپنایا جاسکتاتھا۔ یہ ضروری اس لئے بھی تھا ،کیونکہ: ؂

کیا جانے کب سلف کی یہ پگڑی اچھال دے اولادِ نا خلف سے نہیں کچھ بعید بھی

کیا یہ عملی بات ہوسکتی ہے؟: اسی طرح ان تحریری ہدایات پرسنجیدگی سے غور کریں تو پہلا سوال ذہن میں یہی اٹھتا ہے کہ کیا یہ رویہ عملی طور پر ممکنات میں سے ہے؟خاص کر تنظیم کے موقف کی حمایت کرنے والے جالی پٹن پنچایت اراکین کے لئے کیا اس طرح کی تجاویزیاہدایات پر عمل کرنا ممکن ہوگا؟اور اگر بالفرض جماعتوں اور تنظیم کے حمایتی اراکین نے اس پر عمل کر بھی لیا تو اس سے مخالف کیمپ کا کیا نقصان ہوگا؟اور پھرتنظیم حمایتی کیمپ کے مزید دو ایک اراکین نے اگر ان ہدایات کی خلاف ورزی کی تو کیا تادیبی کارروائی کا سلسلہ مزید لوگوں کے دامن تک پہنچ جائے گا؟ میری ناقص رائے میں سچائی تو یہی ہے کہ اس سے تنظیم مخالف کیمپ کو فائدہ اور تنظیم حمایتی کیمپ کو کچھ حد تک نقصان ہی ہوسکتا ہے۔ہمارے اتحاد اور اتفاق کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے تاک میں بیٹھے ہوئے ہمارے دشمن اس موقع سے ناجائز فائدہ اٹھا ئیں گے اور آئندہ ہمیں مزید زک پہنچانے کے منصوبے بنائیں گے جس کے لئے انہیں حمایت اورتقویت فراہم کرنے والوں کا گراف بھی یقیناًبڑھ جائے گا۔ سیاسی مفادات مقدم ہوتے ہیں: مثلاً اگرجالی علاقے کے افراد باغیانہ جیت حاصل کرنے والے صدر کو اہمیت نہ دیں یاتنظیم کے بعض حمایتی اراکین اگر صدر کے ساتھ عدم تعاون کا رویہ اختیار کریں گے تومیں نہیں سمجھتا کہ اس سے صدر کی پوزیشن کمزور ہوگی۔ کیونکہ اس کے ساتھ پہلے ہی سے کچھ ہمارے اپنے باغی اراکین موجود ہیں۔ اور پنچایت میں ہمارے اپنے دشمن اور مخالف گروپ کے اراکین بھی موجود ہیں۔ ایسے میں دشمن کے دشمن ایک ہوجائیں گے اور دوست کے دوست کم ہوتے جائیں گے۔اور دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ اس کا سلسلہ شروع ہوگیاہے۔اس لئے کہ ذاتی سیاسی مفادات پٹن پنچایت اراکین کے بھی تو ہوتے ہیں ۔ ایسے میں اراکین کا اقتدار کی طرف جھکاؤ فطری امر ہے جسے ہم جوش اور جذبات میں نظر انداز کر جاتے ہیں۔ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنا چاہیے کہ آج کی دنیا میں خالص اور بے لوث خدمتگار بن کر سیاسی میدان میں کوئی بھی نہیں اترتاہے۔ چاہے وہ لاکھ اس کے دعوے کرے، مگر اس کے اپنے مفادات ہی اس کے لئے مقدم ہوتے ہیں۔

بھرتا نہیں ہے ظرفِ ہوس ، واقعہ یہ ہے انساں کی خواہشات کا کوئی سِرا نہیں

سماجی تفریق کا کارڈ: ایک خدشہ یہ بھی اپنی جگہ ہے کہ سیاسی کشمکش کے اس ماحول میں ہمارے اپنے اندر ہی سماجی تفریق کاکارڈ کھیلنے والوں کی بھی لاٹری نکل سکتی ہے۔ ہم یہ مان کر چلیں گے ہمارے ہاں ایک زمانے سے برادریوں کی بنیاد پر سماجی تفریق موجود نہیں تھی ۔ مگر طبقاتی پہچان اور معیار کی بنیاد پر اونچ نیچ کے جذبات ہمارے ہاں بھی کسی نہ کسی حد میں موجود رہے ضرور ہیں مگر یہ اجتماعیت کے لئے کبھی خطرہ نہیں رہے۔جبکہ دیگر مقامات اور شہروں میں برادریوں اور طبقاتی تفریق کی جو لعنت پھیلی ہوئی ہے اس سے ہمارا شہر پاک رہا ہے۔ حالانکہ اسے ختم کرناضروری ہے مگر انسان کی اپنی فطرت اس کے آڑے آتی ہے اور یہ مسئلہ کہیں بھی اور کبھی بھی حل ہوتا نظر نہیں آتا۔اس ہلکی سی خلش کوبڑی خلیج بنانے کی نیت سے کچھ برسوں قبل بعض افراد نے اسے سماجی تفریق اور تعصب کا نام دے کریہاں پر پہلے سے موجوداجتماعیت کے خلاف دوسرا طبقاتی محاذ بنا ڈالا تھا۔ جس کے خلاف اس وقت راقم الحروف نے پلٹ وار کرتے ہوئے مقامی اجتماعیت کو باقی رکھنے کے لئے جان توڑاور منظم کوشش کی تھی۔ مگر ہائے رے سیاسی مجبوریاں!: لیکن چند برسوں بعد سیاسی موقف کے حوالے سے ایسا موڑ بھی آیا کہ ایک زمانے سے چلی آرہی ہماری سماجی ،مذہبی اور سیاسی اجتماعیت کو سبوتاژ کرنے والے قائدین کو جداگانہ اجتماعی اکائی کے طور پر خود تنظیم کے ٹیبل پر بلاکر مفاہمت اور مصالحت کی بات چیت کے دور چلانے پڑے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔میں بس یہ جتانا چاہتا ہوں کہ جب سیاسی مجبوریاں ہمیں اس مقام تک لے جاسکتی ہیں تو پھر کسی ہنگامی صورتحال پر فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں دس بار سوچنا ہوگاکہ اس کے دور رس نتائج کیا ہونگے؟ تادیبی کارروائی کے جو بھی فیصلے کیے جائیں گے کیا انہیں لاگو کرنا عملاً ممکن ہوگا؟کیا آئندہ چل کر پھر کسی سیاسی مجبوری کے تحت ہمیں تنظیم کے وقار اور مرتبے کو پس پشت رکھ کر ایسے باغی کیمپ کے ساتھ پھر مفاہمت اور مصالحت کے لئے آمنے سامنے بیٹھنے کے امکانات تو پیدا نہیں ہونگے؟ جوکاکو اور یحییٰ کا دور نہیں رہا: میں نے مذکورہ بالا پہلوکو اس لئے اجاگرکیا کہ ہم میں سے بہت سارے سوچنے سمجھنے والے لوگ بھی بدقسمتی سے ابھی اس دور کے نشے میں ہیں جب ہمارے پاس جناب جوکاکو شمس الدین مرحوم اور جناب ایس ایم یحییٰ جیسی مخلص اور کرشمہ سازسیاسی شخصیات تھیں۔لیکن ہمارے آج کے دور کا پہلا المیہ یہی ہے کہ ان جیسی باکردار اور قدآورسیاسی شخصیات ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں جو ذاتی مقاصد سے بالاتر ہوکر دانشمندی کے ساتھ قوم وملت کی سیاسی قیادت کرنے کا جذبہ، تجربہ اورلیا قت رکھتی ہوں۔اور وسرا المیہ یہ ہے کہ عوامی سطح پر سیاسی شعور اور سماجی اضطراب ، مفادپرستی اور بدعنوانی کا جو دور اب چل پڑا ہے یہ صورتحال جوکاکو اور یحییٰ صاحبان کے دور سے یکسر مختلف اور متضاد ہے۔اب نہ برادرانہ وطن کا ہمارے ساتھ خیر سگالی کا وہ رویہ اور سلوک رہا ہے اور نہ ہماری اپنی ملت کی دیگر برادریوں کے اندرملّی مفاد کے پیش نظر آپسی مفاہمت اور ایثار کے لئے قدم سے قدم ملاکر سیسہ پلائی دیوار بن جانے کاوہ ولولہ باقی رہا ہے جو اس زمانے میں نظر آتاتھا۔لہٰذاموجودہ بدلتے دور کو دیکھ کربڑے دکھ کے ساتھ سوچنا پڑتا ہے کہ:

بربادئ گلشن کی خاطر بس ایک ہی اُلّو کافی تھا ہر شاخ پہُ الّو بیٹھے ہیں ، انجامِ گلستاں کیا ہوگا

(۔۔ہمارا آئندہ لائحہ عمل کیا ہو۔۔۔جاری ہے۔۔۔اگلی قسط ملاحظہ کریں)  

haneefshabab@gmail.com

ضروری وضاحت:اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔