ردولی اورخیرآباد۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:33PM Mon 23 Nov, 2020

اگست ۱۹۷۰ء میں مولانا دریابادیؒ  کا یہ نشریہ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے ”ہماری تہذیب کی زیارت گاہیں“ کے سلسلے میں نشر کیا گیا۔ ’ردولی ضلع فیض آباد اور’خیرآباد‘ ضلع               سیتاپور دونوں اہم اورمردم خیز قصبے ہیں ان کی تہذیبی عظمت اورشہرت شمالی ہند خاص کر خطّۂ اودھ میں مسلم ہے،  مولانا مرحوم نے ان قصبوں کی تہذیبی، ادبی اور معاشرتی خصوصیات کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے ملکوں کا حال تو خدا جانے لیکن ہمارے  اپنے  ملک  اورخصوصاً  ہمارے  صوبہ  یا ریاست  کے قصبوں نے  وہ  کار گذاری  دکھائی ہے ہماری تہذیبی  زندگی کے قیام میں،  بقا میں، ترقی میں،  توسیع میں کہ اچھے  اچھے شہروں کو نیچا دکھا دیا ہے،  اور  مات  پر مات  انھیں دے دی ہے۔ قصبہ نام ہے اس آبادی  کا یا بستی  کا جو شہر سے تو چھوٹی  ہو اور گاﺅں دیہات  سے بڑی،  اور اس  میں ضرورت  اورآسائش کی کم سے کم ضروری  چیزیں  تو مل ہی  جائیں۔  ڈاک خانہ ہو،  اور ریلوے اسٹیشن  نہ سہی تو بس اسٹیشن  ہی سہی۔ چھوٹا سا اسپتال ہو،  تھانہ یا چوکی ہو۔  ایک جونیر ہائرسکنڈری اسکول ہو، غلّہ کا گودام ہو، کپڑوں کی گانٹھیں ہوں، حلوائی کی دکانیں ہوں، تالاب تلیّاں ہوں، مسجدیں ہوں اور مندر ہوں۔  دوچار لونا کھائی ہوئی عمارتیں پرانی لکھوری اینٹوں کی ہوں اورحکیم جی کا مطب ہو، پنساری کی دکان ہو، دوچار چائے خانے ہوں، دس بیس گھروں میں ریڈیو ٹرانسسٹرہوں، اور ہاں کچھ چرچا شعرو شاعری کاضرور ہو۔ غرض ایک طرف اگر دیہات کی بو باس ہو تو دوسری طرف شہریت کی چٹک مٹک بھی ہو، لیجیے قصبہ کاسانچہ بلکہ پورا ڈھانچہ تیار ہو گیا۔  دیوبند اور امروہہ، ہاپوڑ اور نگینہ، بلگرام اورکاکوری، سندیلہ اور ملیح آباد اور بیسیوں دوسرے قصبوں کے کارنامے کوئی گنانے اور سنانے پر آئے تو منٹوں کا کیا سوال ہے گھنٹوں اور پہروں کے بعد بھی سانس ٹوٹنے  نہ پائے۔  بہ قول شخصے :

ع            سفینہ چاہیے اس بحرِبے کراں کے لیے

خیر یہ سارے قصے تو چھوڑیے، اس وقت ایک سرسری نظر اودھ کے دو قصبوں پر کرتے چلیے، ردولی  اور خیرآباد۔  دونوں نام آور،  قدآور  اور بڑے کلّے ٹھلّے کے۔

اودھ کی پرانی راجدھانی فیض آباد سے اگر آپ لکھنؤ کو چلیں تو دو ہی چار اسٹیشنوں کے بعد سواد ردولی سے آپ کی آنکھیں روشن ہونے لگیں گی۔  پہلے ہی قدم پر آم کے باغوں سے زمین گل گلزار اور پھر آگے بڑھیے تو لڈو  اورخرموں کی خوشبوﺅں سے ہوا  شیریں  و پُر بہار،  اورمسجدوں کے گنبدوں  اور میناروں سے فضا پر انوار۔

ان حکیم صاحب سے ملیے کہ طبیب حاذق ہیں،  اوربقراط  و جالینوس کی عظمت کے وارث و یادگار۔ جسم  و جان کے جن حصوں کی بھی چاہیے صحت اورقوت حاصل کیجیے۔  اشتہار بازوں کے زمرہ میں بوڑھے سے جوان اور جوان سے پہلوان  بن جائیے، اور ان رئیس کی حویلی تک قدم رنجہ فرمائیے کہ مکان  اگر قابل دید ہے تو مکین قابل  داد ۔ مروت میں ممتاز، مہمان نوازی میں شہرہ آفاق! اور اگر کام کچھ لین دین کا درکارہو تو ذرا سراﺅ کی ٹولی سے گذر کیجیے، کتنے سیٹھ اور ساہو کار،  ہزاری لال، لکھی چند  اورکروڑی مل پڑے مل جائیں گے۔

پھر اگر کبھی مخدوم صاحب کے عرس کے زمانہ میں آئیے توہجوم کی وہ ریل پیل پائیے کہ درگاہ تک پہنچنا مشکل ہوجائے۔ مشائخ ہیں کہ دوردورسے دہلی پانی  پت تک سے کھنچے چلے آرہے ہیں، قوالوں کی ٹولیاں  ہیں کہ آ،ہے، وا کی تانیں اونچے سروں میں لگا رہی ہیں ،اور قدردانوں عقیدت مندوں کی جیبیں خالی کراکے اپنے دامن بھررہی ہیں۔

عرس کی شرعی حیثیت سے یہاں بحث نہیں البتہ تہذیب  وثقافت کے اعتبار سے اس کااہم مقام ہے بلکہ یہ کہیے ملک کی ملی جلی تہذیب نام ہی اس قسم کے تمدن کا ہے ۔کلچرآج کل کہتے اسی کوہیں، کسی کوکچھ دیا کسی سے کچھ لیا ،اورایک خوش ذائقہ خوش گوار خوشبودار آمیزہ سب کے لیے تیارکردیا، بنیاد مذہب پرڈالی لیکن رعایت پوری طرح مقامی رسم ورواج کی اورجغرافی موسم وآب ہواکی رکھ لی۔

قصبہ میں ایک مسجدہے ،چودھری ارشادحسین مرحوم کی ،مدینہ منورہ کی مسجدِ نبوی کی ادنیٰ شبیہہ، اورایک امام باڑہ ہے انھیں کا آصف الدولہ کے شہرہ آفاق امام باڑہ کاچھوٹا سامثنیٰ،  اورایک دوسری مسجد بھی ہے چودھری خلیل الرحمن مرحوم کی تعمیرکرائی ہوئی اس کے لیے خواجہ عزیز لکھنوی اپنی شاعرانہ زبان میں کہہ گئے ہیں:

ع            کعبہ در ہند بنا کرد خلیل

امام باڑے اورمسجدیں اوربھی ہیں اورمندربھی ۔کیاتعداد میں اورکیاخوش نمائی میں کچھ کم نہیں، شیعہ سنی فرقوںمیں اتنا ربط ضبط، اتنااتحاد اورمیل جول بھی کہیں شاذ ہی دیکھنے میں آیاہے۔ خاندان کے خاندان ایک دوسرے سے شادی اوربرادری کے رشتوں میں جڑے ہوئے۔ چاریاری اورپنجتنی تسبیح کے ایک ہی دھاگے میں پروئے ہوئے۔

قصبہ میں انٹرکالج ایک نہیں تین تین قائم، اوران میں مسلمان اورہندووطن کے رشتے سے ایک دوسرے کے ہم دوش۔ ایک کالج کے وائس پرنسپل ایک آریہ صاحب اسلامیات میں اتنے دخیل ہوئے کہ قرآن مجید کاہندی ترجمہ کرنے کی ٹھان لی،افسوس ہے کہ کام کی تکمیل سے پہلے خود ہی دنیاسے گزرگئے۔

اردومشاعرے ہماری تہذیب کی جان ہیں اورردولی کی تہذیب کے تو خاص جوہرونشان، اس کثرت سے ہوتے کہ ردولی پرگمان لکھنؤ کا ہونے لگا۔ کھانے پینے کی چیزوں میں بالائی لکھنؤ کے بعداودھ کے کسی قصبہ میں اگرملے گی تویہیں ردولی میں۔

قصبہ تعلقہ داروں اوررئیسوں کے ساتھ ساتھ ادیبوں ،شاعروں، عالموں، فاضلوںکی کھیپ تیارکرکے پیش کرچکاہے ،ان کی فہرست سنانے پر اگرکوئی آئے تو اپنا ہی قافیہ تنگ ہوجائے، اورناطقہ حیرت سے اپناسرکھجاکررہ جائے۔ ایک صاحب طرز ادیب اور مرصع نگارکانام توسن ہی لیجیے۔ دنیاسے رخصت ہوئے ابھی چندہی سال ہوئے ہیں۔ یہ تھے چودھری محمدعلی۔ بات کرتے توشاخ گل کی طرح لچکتے اوربولتے توبلبل ہزارداستان کی طرح چہکتے۔

مخدوم صاحبؒردولی کازمانہ نویں صدی کے ثلث اول کاہے۔ اورردولی کی شہرت کا آفتاب انھیں کے دم سے نصف النہارپر ہے۔ باقی اوربھی بزرگ گذرے ہیں مثلاً شیخ صلاح، اوران کے بھی چھوٹے بڑے عرس یہاں ہوتے رہتے ہیں۔ اب ردولی پرفاتحہ خیر پڑھ کر یہاں سے چلیے۔

مغرب کاسفرپچاس میل سے اوپرکاکرکے لکھنؤ پہونچ جائیے، اب لکھنؤ سے ٹکٹ چھوٹی لائن کالیجیے، سفرکارخ شمال مغرب کی جانب کرلیجیے، اورپچاس میل سے کچھ کم کا سفرکرکے ضلع سیتاپور کے نامی گرامی قصبہ خیرآباد پہونچ جائیے۔ خیرآباد  اب ضلع کیامعنیٰ تحصیل نہیں۔ دورآصف الدولہ سے لے کر اخیرنوابی عہدتک یہاں ناظم رہاکرتاتھا اوریہ ناظم وہی ہے جسے اب کمشنر کہتے ہیں۔ وہاں کے ناظموں میں مشہور ترین حکیم مہدی اورلالہ کندن لال ہوئے ہیں۔

خیرآباد کی شہرت کااصل دورسلطنت مغلیہ کااخیر زمانہ ہے۔ عربی کامستند لغت دس طویل وعریض دبیز جلدوں والا اورمصرمیں چھپاہوا تاج العروس ہے۔ اس میں لفظ ”خیر“ کو نکال کرذراملاحظہ فرمائیے تواس میں ذکرخیر خیرآباد کاپائیے گا اوروہ بھی اس شان اورعنوان سے کہ ”مدینة کبیرة فی الھند“یعنی ہندوستان کاایک عظیم شہر۔ اورسچ یہ ہے کہ جس مقام کی آبادی ہی”خیر“ سے ہواس کے مرتبہ وافضلیت کی تھاہ کوئی کہاں سے پائے۔

خیرآباد بھی ردولی کی طرح عرسوں کامرکز ہے۔ تین عرس تومدت سے چلے آرہے ہیں اوربہت قدیمی ہیں۔ ایک بڑے مخدوم صاحب شیخ سعد قدوائی کا، دوسرے ان کے خلیفہ چھوٹے مخدوم شیخ اللہ دیاکا۔ یہ دونوں دسویں صدی ہجری کے بزرگ ہیں ،اورتیسرے حافظ محمدعلی چشتی کا۔ تینوں عرس خوب دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔ اورقوال اپنے کمال فن کی دادخوب پاتے ہیں۔ چوتھا عرس مقبول میاں کا ابھی چند سال سے قائم ہواہے۔ اور سنا ہے مرجعیت ومقبولیت کے لحاظ سے ان سب سے نمبرلے گیاہے۔خلقت ہے کہ ٹوٹی پڑتی ہے اورکرامات کی مدح سرائی میں لگی رہتی ہے۔

خیرآباد کی آبادی ہندومسلمانوں کی ملی جلی ہے، اورتعدادمسلمانوں کی کچھ بڑھی ہوئی ہے، میاںسرائے،  شیخ سرائے وغیرہ کئی محلے مسلمانوں کے ہیں۔ مندروں کی کثرت اور ندرت مسجدوں سے کچھ کم نہیں۔ سرکاری گزیٹرکابیان ہے کہ تیس مندر ہندوﺅں کے ہیں اور چالیس عبادت گاہیں جن میں مسجدوں کے علاوہ امام باڑے اور درگاہیں بھی شامل ہیں۔ محرّم ردولی کی طرح یہاں بھی زورں پرہوتاہے،اورایک خاص چیزیہاں کی باون ڈنڈے کا تعزیہ ہے ۔قصبہ کے محلوں کی مناسبت سے یہ ۱۰محرم کی شام کواٹھتاہے اور۲۴ گھنٹہ کی گشت کے بعد ۱۱کی شام کودفن ہوتاہے۔ ہجوم بے پناہ ہوتاہے اورکہاجاتاہے کہ کلکتہ تک سے لوگ اس میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔

ہندوﺅں کے مندرملک میں عام طورپر شیوجی کے نام کے ہوتے ہیں یہاں ایک ایسامندرہے جووشنوجی کے نام کاہے ،اورکتنے لوگ اس نادرہ روزگارمندرکے درشن کے لیے آتے ہیں۔

آم کے باغات یہاںبھی گھنیرے اورشاداب، طبیبوں کے مطب یہاں بھی اسی طرح آباد، اورطبیبوں میں ایک سے ایک بڑھ کر اپنے فن کااستاد۔میرے لڑکپن تک ایک عظیم الشان میلاشروع جنوری میں لگتاتھا ،اورمہاوٹ کے پانی میں عجب بہاردکھاتا تھا ۔ گھوڑوں کی بِکّری اورخریداری خوب زوردکھاتی اورچابک سواروں کی بن آتی ۔ضلع بھرکے تعلقہ داراوررئیس جمع ہو جاتے، ان میں سب سے ممتاز راجہ صاحب محمودآباد ہوتے۔ ان کا کیمپ خودایک نمائش گاہ بن جاتا،ملک بھرکے گھوڑ دوڑیے جمع ہوجاتے ،گھوڑے کداتے، ٹٹیاں خندقیں پھنداتے اورانعام واکرام سے لدے ہوئے واپس جاتے۔ مختلف کھیلوں کے کھلاڑیوں کے پرے جمتے اوردنگل میں پہلوانوں کی زورآزمائی اورداﺅپیچ کے کیسے کیسے کرتب دیکھنے میں آتے ۔میلے کے لق ودق میدان میں ایک پوراشہرآبادنظرآتاہے۔ چائے والوں کی گرم بازاری ہوتی، دم بہ دم صدالگاتے ۔حلوائی بیچارے مہاوٹ کی زدمیں آکرآہ سردبھرکرجم جاتے۔ شوقین جوڑے موسلادھار پانی میں باہرنکلنے سے بازنہ آتے۔ راستے گلی میں پھسلتے گرتے اور لت پت ہوہوسوبازاریوں کے ایک بازاری بن بناخودایک تماشا بن جاتے ۔

مشاعرے توگویا خیرآباد کی تہذیبی زندگی کی جان تھے۔ سوشاعروں کے ایک شاعر اکیلے ریاض خیرآبادی مرحوم تھے، کیاباغ وبہار طبیعت پائی تھی ۔انگریزی کے بعض ضخیم ناول اردومیں اپنائے، دوجیبی رسالوں فتنہ اورعطرفتنہ اور اپنے سہ روزہ  اخبار ’ریاض الاخبار‘ میں نثری شاعری کے جوہردکھائے ۔ وسیم کاگلچیں ایک عجیب پر بہار گلدستہ تھا  وسیم  ومضطر ، بسمل اورکوثر وغیرہ کی یادوں کواب کہاںتک تازہ کیجیے ۔ پریس کی نعمت انیسویں صدی میں اتنی عام کہاں ہوئی تھی لیکن ریاض الاخبار  کا پریس آج سے کوئی ۹۰سال قبل۱۸۸۹ءمیں خیرآباد میں نصب ہوگیاتھا،اورمدتوں قائم رہا۔

ہمارے قصبوں میں سادگی اورقناعت رواداری اوریگانگت کی حکومت تھی، اور بازار میں سکّے حیا وغیرت کے چلتے تھے۔ ذوق میں لطافت ونفاست کی دولت بھی بھرپور تھی۔ بڑی بات یہ ہے کہ اپنے مذہب پرپوری طرح قائم رہ کربھی طبیعت تعصب سے ناآشنارہتی ۔ ہندومسلمان آپس میں رشتے قائم کرکے ایک دوسرے کو چچا  اور  دادا، بھیا  اور باباکے نام سے پکارتے، اوردوسروں کی بہوبیٹیوں کواپنی ہی بہوبیٹیاں سمجھتے ۔صحیح سیکولرازم وہی تھی جوان قصبوں میں راج کررہی تھی۔  ردولی اورخیرآباد دونوں مثالی نمونے تھے اسی قصباتی تہذیب وتمدن کے :۔

ع            اب انھیں ڈھونڈھ چراغ رخ زیبالے کر

(منقول: نشریات ماجدی، ترتیب جدید مع تخریج و تحشیہ، مرتبہ زبیر احمد صدیقی،۲۰۱۶ء)

٭٭٭