سچی باتیں ۔۔۔ موت کی فکر۔۔۔ تحریر:مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

09:24PM Thu 4 Jun, 2020

 1925-05-22

موت کی فکر

آپ نے کبھی اندازہ کیاہے ، کہ آپ کے وقت عزیز کا کتنا حصہ خدا کی یاد اور اس کی مخلوق کی خدمت میں صرف ہوتاہے، اور کتنا اپنے نفس کی ناز برداریوں میں؟ آپ نے کبھی حساب لگایاہے کہ آپ کی کمائی کا کتنا حصہ خدا کی راہ میں اس کے دوسرے بندوں کے کام آتاہے، اور کتنا اپنے نفس کی خاطرداریوں میں اُٹھ جاتاہے؟ آپ نے اپنے دل کو ٹٹول کر کبھی یہ دیکھاہے ، کہ اس پر سب سے زیادہ ہیبت کس چیز کی طاری رہتی ہے؟ آیا خدا کی؟ خدا کے احکام کی؟ رسولؐ کے پیامات کی؟ اور یا پھر سرکارکی؟ برادری کی؟ دنیا والوں کی؟ آپ نے اپنے نفس کا جائزہ لے کر کبھی اس کا کھوج لگایاہے ، کہ آپ کو سب سے زیادہ مزہ کس چیز میں آتاہے؟ آیا قرآن سننے میں؟ نماز پڑھنے میں؟ اور خدمت خلق کرنے میں؟ یا پھر اچھے کھانے اور اچھے لباس میں؟ یا دوستوں کے جمگھٹے میں؟ اور اپنی تعریف سننے میں؟ کیا آپ کے خیال میں وقت کے ایک ایک لحظہ کی آمدنی کے ایک ایک پیسہ کی، جسم کی ایک ایک حرکت کی، زندگی کی ایک ایک سانس کی بابت سوال نہ ہوگا؟ یا اس باز پُرس سے بچ جانے کی کوئی صورت آپ نے سوچ لی ہے؟

قبل اس کے کہ یہ حساب داخل کرنا پڑے، ایک مرتبہ آپ خود اپنی جگہ پر دوست آشناؤں کے مجمع سے الگ، تنہائی میں بیٹھ کر، اپنی ساری عمر پر ایک نظر کرجائیے، اور ذرا سوچئے، کہ عمر عزیز کا کتنا حصہ اب تک خدا کی مرضی کے موافق بسر ہوسکاہے، اپنی زندگی میں کس درجہ تک خدائی قوانین کا اہتمام کرسکے ہیں؟ خالق ومخلوق کے حقوق کس حد تک ادا ہوسکے ہیں؟ نماز کی پابندی کس حد تک قائم رہی ہے؟ روزہ، زکوٰۃ اور حج کے فرائض کہاں تک ادا ہوئے ہیں؟ اللہ کا خوف دل میں رہاہے؟ رسولؐ  کی محبت سے گوشۂ قلب منورہے؟ ایمان کی لذت وحلاوت سے طبیعت آشنا ہے؟ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی وخلوص کا احساس رہا کیاہے؟ والدین کی خدمت گزاری کی توفیق ملی ہے؟ میراث میں لڑکیوں ، بہنوں، اور پھوپھیوں کو ان کے شرعی حقوق دئیے ہیں؟ غیروں کی غلامی سے نکل کر خداکی غلامی میں آنے کی پوری کوشش کی ہے؟ بچوں کی تعلیم وتربیت میں ان کے حُسن عم وخیر عاقبت کا خیال زیادہ رہا کیاہے، یا اُن کی آمدنی وملازمت کا؟ اپنے خاندان اور اپنے گھرانے میں صدہا رسمیں جو خلافِ شریعت برپا دیکھیں، اُن کے مٹانے میں اپنی والی پوری کوشش کردیکھی؟ فضول خرچی وبدزبانی پر قابو رکھا؟

کیا یہ سوالات آپ کے نزدیک، لغو، بے نتیجہ، وناقابل التفات ہیں؟ آپ کے ہاں چوروں نے کبھی نقب نہیں لگائی، پھر بھی آپ اپنی چیزوں کی حفاظت کی کتنی فکر رکھتے ہیں؟ آپ کے کبھی سانے نے نہیں کاٹا؟ پھر بھی آپ برسات کے موسم میں اپنی کس قدر احتیاط رکھتے ہیں! پھر کیا مَوت کے یقینی واقعہ کی بابت فکر رکھنا چور اور سانپ کے بعید احتمالات سے بھی گئی گزری چیز ہے؟ کیا ’’یہاں‘‘ کے مقابلہ میں ’’وہاں‘‘ کے خیال کو پیش نظر رکھنا ایسی ہی بے عقلی وبے دانشی ہے؟ کیا محمد رسول اللہؐ اور دوسرے رہبرانِ برحق کی سمجھ (نعوذ باللہ) ہمارے سمجھداروں سے بھی کمتر تھی؟ کیا امام حسینؓ جنھوں نے اپنے ’’آج‘‘ کو اپنے ’’کل‘‘ پر قربان کردیا، خواہ مخواہ اپنی جان ضائع کربیٹھے