Tum Aay Bhi... Ahmed Hatib Siddiqui
صوبہ گلگت – بلتستان کے شہر اسکردو سے سوال کیا ہے جناب فدا سلمانی نے کہ ’’حرف ’تو‘ حرفِ ربط ہے کہ حرفِ علّت ہے؟‘‘
بھائی! اس وقت تو یہ ہمارے لیے حرفِ ذلّت ہے، کیوں کہ اس ’تو‘ کے اتنے استعمالات ہیں جن کی تفصیلات اس کالم میں نہیں سما سکتیں۔ اس کے معانی بھی متنوع ہیں۔ مگر یہ حرفِ ربط یا حرفِ علّت نہیں ہے۔ اہلِ لغت اسے ’حرفِ جزا‘ بولتے ہیں۔ اللہ اُنھیں جزائے خیر دے، یہ بھی بتادیا ہے کہ کیوں بولتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہاں صرف اُس ’تو‘ کا ذکر کیا جارہا ہے جو ’لو‘ اور’دو‘ کے وزن پر بولا جاتا ہے۔
’جزا‘ کا مطلب بدلہ یا صلہ ہے۔ نیکی یا بدی کا عوض۔ ہمارے ہاں نیکی کے بدلے کو جزا اور بُرائی کے بدلے کو سزا کہنے کا رواج ہے۔ ’جزاک اللہ‘ کا مطلب عموماً یہ لیا جاتا ہے کہ ’اللہ تجھے نیکی کا صلہ دے‘۔ حالاں کہ عربی میں ’جزا‘ کا لفظ انعام اور سزا دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ اُردو میں بھی قیامت کے دن کو ’روزِ جزا‘ [بدلے کا دن] کہا جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اُس روز انعام بھی ملے گا اور سزا بھی۔ ’جزا‘ کے اِن دونوں معانی کو مدنظر رکھ کر علما ہمیں ہدایت کرتے ہیں کہ صرف ’جزاک اللہ‘ نہ کہو۔ یوں کہو ’جزاک اللہ خیر‘ ، اللہ تمھیں اس کا اچھا بدلہ، اچھا صلہ دے۔ یا ’جزاک اللہ خیراً کثیرا‘کہو، کہ اللہ تمھیں بدلے یا صلے میں بہت سی نیکیاں دے۔ جو لوگ ان نیکیوں میں مزید اضافہ چاہتے ہیں وہ کہتے ہیں: ’جزاک اللہ فی الدّارین خیرا‘ یعنی اللہ تمھیں دونوں جہاں میں اچھا صلہ دے۔ اس دُعا پرایک دلچسپ قطعہ یاد آگیا۔ ’تو‘ کا استعمال اس قطعے میں بھی ہوا ہے۔ گو کہ مولانا ظفر علی خان نے یہ قطعہ بچوں کے لیے کہا تھا، مگر آپ بھی سن لیجے۔ ہرچند کہ موجودہ خرانٹ شکل دیکھ کر یقین نہیں آتا، پھر بھی گمان ہے کہ کبھی نہ کبھی آپ بھی ایک معصوم سے بچّے رہے ہوں گے، کیا خبر اب بھی ہوں:
کہا میں نے لگی ہے پیاس مجھ کو
تو پانی جلد لے آئی سُمیرا
پیا پانی، بجھی جو پیاس، بولا
جزاکِ اللّٰہُ فی الدّارین خیرا
آخری مصرعے کو غور سے دیکھیے۔ آپ کو ’کاف‘ کے نیچے زیر نظر آئے گا کیوں کہ عربی میں مؤنث کے لیے ’ک‘ پر زیر ہی کی علامت آتی ہے۔ ’ک‘ پر زبر لگادیں تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ دُعا کسی مذکر کو دی جارہی ہے۔
الغرض ’جزا‘ کے معنی ہوئے عوض، بدلہ یا صلہ۔ حرف ’تو‘کسی کام کی جزا یا نتیجہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان جزاؤں میں سے ایک ہے ’جزائے شرط‘۔ اگر کوئی بات کسی بات سے مشروط کردی جائے یعنی وہ بات وہ شرط پوری ہوجانے کا نتیجہ ہو تو اُس بات کو ’جزائے شرط‘ کہتے ہیں۔ مثلاً ایک سیاست کار دوسرے ’نا بہ کار‘سے کہتا ہے کہ ’’اگر تم میرے منہ آئے تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا‘‘۔
اس پردوسراجھٹ بول پڑتا ہے کہ’’وہ تو شاید اب بھی کوئی نہ ہوگا‘‘۔
لیجے، دھمکی سننے والے نے دھمکی دینے والے کی شرط پوری کردی۔ یعنی اُس کے ’منہ آگیا‘۔ اب نتیجے یا ’جزا‘ کا انتظار کیجیے اور اِن دونوں موذیوں کی کھٹ پٹ سے بچنے کی کوشش جھٹ پٹ کیجیے۔ پہلے فقرے میں چوں کہ دھمکی دینے والا اپنے ’منہ آنے‘ کا نتیجہ (یا اس کی جزا) بیان کررہا ہے، چناں چہ اس جملے میں ’اگر‘ حرفِ شرط ہے اور ’تو‘ حرفِ جزا۔ جوابی فقرے میں ’وہ‘ کے بعد استعمال ہونے والا ’تو‘ حرفِ تاکید ہے۔ یعنی اپنی بات کو پکی بات ثابت کرنے کے لیے ’تو‘ استعمال کیا گیا ہے ’یقینی طور پر یا یقیناً‘کے معنوں میں۔ کبھی کسی ایک کام کے نتیجے میں دوسرا کام سرزد ہوگیا تو یہ بتانے کو بھی حرف ’تو‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ دیکھیے جوش ؔ صاحب نے کتنے جوش و خروش سے بتایا کہ
دولھا بنے تو حدِّ مسرت سے بڑھ گئے
گھوڑے کو لات مار کے سُولی پہ چڑھ گئے
سخت افسوس ہوا۔ جوشؔ صاحب یہ کام ایک بے زبان جانور کو لات مارے بغیر ہی کرلیتے تو خوشی کی بات ہوتی۔ غالبؔ فقیروں کا بھیس بھر کرگلی گلی پھرے تب بھی ’دل لگی‘ سے باز نہ آئے، یہی بات بتانے کو اس شعر کے دوسرے مصرعے میں انھوں نے حرف ’تو‘ استعمال کیا :
چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشقِ اہلِ کرم ہوئے
لغت کے لحاظ سے پہلی جزا ’جزائے شرط‘ تھی۔ اب دوسری جزا لے لیجے۔دوسری جزا کو ’جزائے تحسین‘ کہتے ہیں۔مثلاً’’تم تو چھپے رُستم نکلے‘‘ یا ’’اُن صاحب کی تو کیا بات ہے‘‘۔تحسین کی آڑ میں طنز کرنے کو بھی ’تو‘ استعمال ہوتا ہے۔ برادربزرگ انور شعورؔ کہتے ہیں:
نمٹ کے دنیا سے دل کی جانب تم آئے بھی اب تو خوب آئے
جب اس نگر کے محل دو محلے تمام مسمار ہو گئے ہیں
’جب اور تب‘ دونوں کا مفہوم ساتھ ادا کرنے کے لیے بھی ’تو‘ کافی ہے: ’’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا…‘‘کبھی کبھی ’حاصلِ کلام‘ یا’الحاصل‘ یا ’نتیجہ یہ نکلا‘کہنے کی جگہ بھی ’تو‘ بول دیا جاتا ہے جیسے عبیرؔ ابوذری نے کسی انتخابی اُمیدوار کی تقریر سن کر یہ نتیجہ نکالا تھا:
وہ کہتے ہیں انصاف سستا ملے گا
تو ثابت ہوا پیشیاں اور بھی ہیں
پچھلی بات سے کوئی نتیجہ نکالنا ہو تب بھی ’تو‘ استعمال ہوتا ہے۔بعض اوقات پچھلا کلام محذوف ہوتا ہے۔ مثلاً عالیؔ کا یہ شعر دیکھیے:
تو کیا وہ ہم کو ہر اک جرم کی سزا دے گا؟
پھر اپنے رحم و کرم کا ثبوت کیا دے گا؟
سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ عالیؔ جی کسی محفلِ وعظ سے اُٹھ کر بھاگے ہیں۔ جب کہ سرورؔ بارہ بنکوی کو محبوب نے خود اپنی بارگاہ سے بھگا دیاتھا۔ سرورؔ صاحب نے بھگانے والی بات محذوف رکھ کر دونوں مصرعوں میں ’تو‘ استعمال کیا اور محبوب کو ڈانٹ کر پوچھا:
تو کیا یہ طے ہے کہ اب عمر بھر نہیں ملنا؟
تو پھر یہ عمر بھی کیوں تم سے گر نہیں ملنا
دوسرے مصرعے کا ’تو‘ جزائے شرط ہے۔’اتنا کام ہوگیا‘ کے معنوں میں بھی ’تو‘ استعمال ہوتا ہے۔ داغؔ کایہ مشہور شعر دیکھیے:
راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
داغؔ کی تو ایک پوری غزل ’تو‘ کے استعمال کی عمدہ مثال ہے۔ مطلعے ہی میں دومختلف معنوں میں ’تو‘ڈال کر داغؔ نے تو کمال کر دیا:
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
اور اس ’تو‘ کے چکر میں کالم کا صفحہ بھی گیا، جب کہ ابھی تو حرف ’تو‘ کے استعمال کی اتنی مثالیں باقی ہیں کہ ہم تو سر تھام کربیٹھ گئے۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل