شب و روز

از: ندیم صدیقی
ذرا سوچیں توکیا واقعی ’’ہمیں مطالعے کی عادت نہیں رہی!‘‘
’’۔۔۔۔۔۔۔ یونیورسٹی روڈ پر ایک پرانے بک اسٹور کے باہر یہ نوٹس سیاہ پینا فلیکس (بینر)پر لکھا پھٹپھٹا رہا ہے۔
’ ہماری علمی پسماندگی نے ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی سیاسی اور اقتصادی غلامی کی گرفت میں دے دیا ہے۔ ملکی وسائل کرپٹ مافیا کے توسط سے عالمی طاقتوں کے لیے استعمال کر کے غربت ، بے روزگاری و اقتصادی پسماندگی قبول کی جا رہی ہے۔ نتیجے میں پورا معاشرہ اخلاقی زوال ، اجتماعی بے حسی ،انتہا پسندی ، دہشت گردی اور خوف کی گرفت میں ہے۔بے علمی و جہالت کے گھپ اندھیروں نے ہماری بصارت و بصیرت چھین لی ہے۔ہمیں مطالعے کی عادت نہیں رہی۔لائبریریاں اور کتابوں کی دُکانیں ہماری معاشرتی و تعلیمی زندگی میں کوئی مقام نہیں رکھتیں۔ان حالات نے ہمیں کتب فروشی ختم کرنے کے افسوس ناک فیصلے پر مجبور کردیا ہے۔‘شاہین بکس ۔‘‘
یہ اطلاع ممبئی یا ہند کے کسی شہر کی نہیں بلکہ پیشاور(پاکستان) میں ایک کتاب کی دُکان بند ہونے کی خبر ہے، پڑھنے والا اگر دھڑکتا ہوا دِل اور سوچتا ہوا دماغ رکھتا ہے تو وہ اسے پڑھ کر اپنی زبان اور اپنی تہذیب کا ’’مستقبل‘‘ دیکھ سکتا ہے۔
پاکستان میں اُردو کے تعلق سے ہم لوگ عموماً خوش گمان ہیں کہ وہاں ایک دو نہیں کئی بڑے اخبار کئی شہروں سے بیک وقت شائع ہو رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے بلکہ ہمارا تو مشاہدہ بھی ہے۔ یادآتا ہے کہ کوئی نو برس قبل جب ہم کراچی کے ایک مشاعرے میں گئے تو جملہ ہندوستانی شعر ا کے اعزاز میں پاکستان کے سب سے بڑےروزنامے ’’جنگ‘‘ کی طرف سے بھی ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اخبار کی دفتری عمارت میں ایک چھوٹا سا مگر خوب صورت آڈی ٹوریم تھا اور اخبارِ ہٰذا کی طرف سے تمام مہمانوں کو نہایت خوبصورت یادگاری تختی بھی دِی گئی تھی۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ کراچی کے ایک اسٹیڈیم میں ہونے والا عام مشاعرہ صبح آٹھ بجے تک چلا تھا۔ جس میں یہاں سے راحت اندوری، منظر بھوپالی، عادل لکھنوی کے ساتھ ہم جیسے لوگ بھی شامل تھے اور پاکستان کے ممتاز شعرا کو یکجا ہم نے اسی مشاعرے میں دیکھا اور سنا تھا۔ جن میں اُمید فاضلی ، انور شعور، صابر ظفر ،سید پیر زادہ قاسم وغیرہ سے لے کر نئی نسل کے محسن چنگیزی تک کئی شاعر تھے اور اس مشاعرے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اسکے دو ناظم مشاعرہ تھے ایک نے نصف مشاعرے کی اور دوسرے نے اسکے بعد بقیہ مشاعرے کی نظامت کی۔ گورنرسندھ اور سندھ کے وزیر داخلہ جواں سال رؤف صدیقی بھی اسٹیج کی رونق ہی نہیں تھے بلکہ ان دونوں نے اعلیٰ درجے کے شعر بھی سنائے ۔ رات بھر اسٹیڈیم میں کھانے اور چائے وغیرہ کی دُکانیں اس طرح چل رہی تھیں جیسے ہمارے قصبات میں میلے ٹھیلے یا صوفیا کے اعراس میں بازار کی رونق ہوتی ہے وہ پوری طرح اس مشاعرے گاہ میں ہماری آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ ہاں ایک تہذیب جو ہم بھول نہیں سکے کہ وہاں کوئی شاعر کھڑے ہوکر کلام نہیں سناتا بلکہ شاعر کے لئے باقاعدہ ایک اونچی مسند ، دائیں بائیں ا ور پشت پر گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے جہاں بیٹھ کر شاعر اپنا کلامِ بلاغت نظام نذرِ سامعین کر رہا تھا۔ ہم بہت خوش تھے کہ جس طرح ہم نے اپنی نو عمری میں کانپور اور دیگر شہروں بلکہ ممبئی میں بھی مشاعرے سنے ا ور سننے والوں کا جو ذوق دیکھا تھا وہ سب اس ’’ شہر ِقائد‘‘ میں اُردو کی رونق بنا ہوا تھا۔ اُمید فاضلی جیسے جدیدمرثیہ گو شاعر کی غزل کو تحت اللفظ میں پورے احترام اور پورے ذوق و شوق کے ساتھ سنا گیا تو وہیں پیر زادہ قاسم نے جب اپنے لحن میں غزل چھیڑی تو سننے والے دادو دہش کی بارش کر رہے تھے۔ داد راحتؔ اندوری، منظر بھوپالی اور عادل لکھنوی نے بھی لوٹی۔ ۔۔۔ ہماری پھوپھی زاد بہن جو ایک گھریلو خاتون ہیں ان سے جب گفتگو ہوئی تو منکشف ہوا کہ وہ تو اچھا خاصا ادبی ذوق رکھتی ہیں اور بالخصوص اچھی نثر کی دلدادہ ہیں ۔ ہم نے ادا جعفری کی کتاب’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کا ذکر کیا تو اُنہوں نے ہمیں حمیدہ اختر (حسین رائے پوری) کی کتاب کی خبر دی کہ وہ بھی ایک خود نوشت سوانحی سرگزشت ہے ہماری اس بہن نے کتاب کا تذکرہ ہی نہیں کیا بلکہ دوسرے دن جس بڑےہوٹل میں ہمیں عشائیہ دِیا تووہیں اُس نے وہ کتاب بھی اسی ہوٹل میں واقع کتابوں کے اسٹال سے منگوا کر ہمیں ہدیہ کی۔ یہ ساری باتیں لکھنے کا مقصد محض یہ ہے کہ کم و بیش دس برس قبل کراچی میں اُردو کی جو فضا ہم نے دیکھی وہ اب تک بھول نہیں سکے۔ ہم نے اُردو روزنامہ جنگ کا ذکر کیا ہے جو پاکستان کے کئی شہروں سے روزانہ شائع ہو تا ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ یہی ایک اخبار ہے اب تو روزنامہ دُنیا جیسا اخبار بھی کراچی سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں جاری ہے اس کے علاوہ روزنامہ نوائے وقت (لاہور)بھی قدیم اور بڑے اخبارات میں ایک ممتاز نام ہے ان روزناموں کے علاوہ بھی کئی روزنامے اور ہفت روزہ مجلے ا ور رسائل ہیں جو اپنی خاصی تعدادِ اشاعت رکھتے ہیں اور کتابیں جیسی چھپتی ہیں وہ بس دیکھتے رہیے۔ اس سے ظاہر ہےکہ وہاں اُردو کا ایک اچھا بازار ہے جبھی اخبارات سے لے کر کتابیں تک بڑی تعداد میں چھپ رہی ہیں۔ وہاں اُس وقت معمولی پروڈکشن اور دو سو صفحات کی کتابیں بھی کم از کم تین چار سو روپوں سے کم قیمت کی نہیں تھیں۔ اُردو بازار میں اُردوکتابوں کی جس طرح کی دُ کانیں ہم نے دیکھیں وہ یہاں خواب سی لگتی ہیں۔ اُردو بازار میں واقع فضلی سنس اور فیروز سنس کی کتابوں کی دُکانیں نہیں تھیں شو روم تھیں شو روم۔ دُکان کے اندر کتابیں ترتیب سے بلکہ یہ کہیے کہ مختلف موضوعات کی ریکس الگ الگ بنی ہوئی تھیں۔ وہاں کے جانکاروں نے بتایاتھا کہ یہ تو صرف اُردو بازار ہے شہر کے مختلف مقامات پر کتابوں کی الگ الگ دُکانیں بھی ہیں جہاں فوری طور پر ہر طر ح کی کتابیں دستیاب ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف علاقوں میں نایاب یا پرانی کتابوں کے اسٹال الگ لگے ہوئے دیکھے۔ ٹیکسی سے کہیں جا رہے تھے ایک سڑ ک کنارےپرانی کتابوں کا ایک اسٹال لگا دیکھا تو گاڑی رُکوائی تو ایک معمرکتب فروش نے ہماری طرف حسرت موہانی کا کلیات یہ کہتے ہوئے بڑھا یا کہ’’ لے جائیے میاں اب نہیں ملنے کا کل حسرت لئے پھریے گا۔‘‘ بڑے میاں کی یہ بات ذہن میں اور کلیاتِ حسرت آج بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ ۔۔ پیشاور بھی تاریخی شہر ہے اور اس کی ایک علمی روایت بھی رہی ہے۔ وہاں اُردو کتابوں کے شائقین کا ختم ہونا عجب اور افسوس ناک ہے اسی طرح کراچی سے بھی جو خبریں مل رہی ہیں وہ بھی تشویش سےخالی نہیں۔ وسعت اللہ خان صاحب کے جس مضمون کا ہم نے شروع میں جو اقتباس دیا ہے اس کی سرخی بھی ہم سب کی توجہ چاہتی ہے اور یہ سوال پاکستان ہی کا نہیں بلکہ ہمارے ہاں بھی صورت ِحال اس سے الگ نہیں۔ وہ سرخی یوں تھی:
’’کتب فروشی ختم ہو رہی ہے یا کتب بینی ؟‘‘