دہلی اور اس کے اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔۰۱- تحریر: عبد المتین منیری

بروز بدھ مورخہ ۴ دسمبر کی شام پانچ بجے جب اسپائس جٹ کا طیارہ منگلور ہوائی اڈے پر ایک جھٹکے کے ساتھ اترا تو ایسا لگا کہ کوئی خواب ادھورا ہی درمیان سے ٹوٹ گیا ہو، اور بات کچھ ایسی ہی تھی، علم وکتاب گروپ کے نادیدہ احباب سے ملاقات کی جو خواہش عرصے سے دل میں تڑپ رہی تھی، اسے پورا کرنے کے لئے ۳۰ /نومبر کی صبح نوبجے ہم دہلی کے ہوائی اڈے پر دبی سےجاکر اترے تھے، ارادہ تھا کہ علم وکتاب کی بزم سجانے والے باذوق رفیق مولانا مفتی محمد ساجد کھجناروی صاحب سے بھی بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل کیا جائے، اوران کی رفاقت اور رہنمائی میں دہلی اور اس کے اطراف کے ان علاقوں کی زیارت کی جائے، جہاں پر ان عظیم شخصیات علماء اور مصلحین نے جنم لیاتھا ،جنہوں نے ایک صدی پیشتر مغربی سامراج کے دور عروج میں ملت اسلامیہ ہندیہ کی رہنمائی کی اور دین اسلام سے اس کی وابستگی کو اٹوٹ بنانے کے لئےکلیدی کردار انجام دیا ، ان کے قائم کردہ ادارے آج بلند وبالا روشن میناروں کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں،جن سے نور علم کی ضوء فشانی ہوتی ہے، اور جن کے فیض یافتہ ، نسل در نسل سے رشد وہدایت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں، ساتھ ہی ساتھ اس علاقے میں مقیم جن احباب سے اب تک گروپ کے ذریعہ غائبانہ تعارف حاصل تھا، ان بالمشافہ ملاقات کا کوئی موقعہ نکالا جائے ، اوران تعلقات سے غائبانہ تکلفات کے پردوں کو ہٹا کر حقیقت پر مبنی روابط استوار کئے جائیں، اس سفرکا حوصلہ ہمارے عزیز مولانا عبد المعز منیری سے ہمیں ملا تھا،سفر میں ایسے چاہنے والے عزیز کی رفاقت سونے پر سہاگہ ہوتی ہے، وہ دبی سے ہم سفر تھے او ربھٹکل سے عزیزم مولوی محی الدین مروان منیری دہلی ہوائی اڈے پر آکر اس قافلے میں مل گئے تھے۔ چونکہ یہ ایام شمالی ہند کے مدارس میں ششماہی امتحانات اور تعطیلات کے تھے، لہذا احباب کی ایک بڑی تعداد جو زیادہ تر مدارس میں تدریس سے وا بستہ ہے ، اپنے مستقر سےدور ادھر ادھر بکھر گئی تھی،دہلی کے پرانے شناسا مولانا شاہ اجمل فاروق صاحب انسٹیوٹ آف اوبجکٹیو اسٹڈیز کے متعینہ پروگراموں کی وجہ سے سفر پر اپنے پڑائوسے دور تھے، اور خود ہمارے میزبان مفتی ساجد صاحب بنگلور کے ایک طے شدہ پروگرام کی وجہ سے بے تاب تھے، انہوں نے اپنی جگہ ایک صالح نوجوان لقمان اظہر کو دہلی میں ہمارے استقبال اور میزبانی کی ذمہ داری سونپ دی تھی، اس رو ز رات گئے مفتی ساجد صاحب دہلی پہنچ کررفیق سفر بن گئے، ان کے ساتھ مظفرنگر کے مفتی ندیم صاحب بھی ہم رکاب ہوگئے، اس دوران لقمان صاحب نے ہمارے آرام وراحت کا جو خیال رکھا، اور اس کے لئے جو زحمت اٹھائی، شاید اس سے بہتراہتمام کرنا مفتی صاحب کے بس میں بھی نہیں تھا، لقمان صاحب نے ہماری رہائش دہلی میں مسلم عظمت کی نشانی جامع مسجد کے محراب کی پشت پر واقع ایوان شاہی ہوٹل میں رکھی تھی۔ ظہر سے کچھ پہلے جب ہم ہوٹل پہنچے تو مولانا مفتی عبد الخالق امروہوی ، اور مولانا عبد الملک قاسمی صاحب توشہ دان کے ساتھ تشریف لائے ،انہوں نے ہماری تواضع دہلی کے بہترین پایہ اور نہاری سے کی ، مفتی عبد الخالق صاحب ۲۰۱۴ میں جب گروپ شروع ہوا تھا اس وقت سے رفاقت نباہ رہے ہیں ، آپ ترکی سفارت خانے کے تحت قائم ادارہ گلچیں میں ترکی زبان و ادب کے استاد اور دہلی کے علاقہ خورجی کی جامع مسجد میں امام و خطیب کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں، بڑے ہی خوش مزاج اور بااخلاق ، ہماری بڑی خواہش تھی کہ ان احباب سے ڈھیر ساری باتیں کریں، ہمارے مابین دلچسپی کے موضوعات بھی کئی ایک تھے، چونکہ رت جگا ہوا تھا، اور سفر کی تھکاوٹ بھی بہت تھی، ہم مفتی صاحب کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے جس کا افسوس اورتشنگی کا احساس بھی رہا۔ دہلی میں ہمارے مشفق اور دانشور ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کی خواہش تھی کہ دوپہر تین بجے اوکھلا کی اسلامی اکیڈمی میں ایک علمی نشست رکھی جائے ، جس میں ہماری قدیم علمی مراجع کے موضوع پر ایک گفتگو ہو، چونکہ وقت پر وہاں پہنچنے کا امکان نہیں تھا، اور لکچر اور خطبات جیسی چیزوں سے جی چرانے کی عادت رہی ہے لہذا ان سے پیشگی ہی معذرت طلب کرلی۔ بعد نماز مغرب ہم محترم ڈاکٹر مفتی مشتاق احمد تجاروی ، پروفیسر اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ دہلی سے ملنے روانہ ہوئے،یہاں ہم نے خصوصیت کے ساتھ محترم مفتی عبید اللہ قاسمی صاحب سابق استاد دارالعلوم دیوبند و حال پروفیسر لسانیات دہلی یونیورسٹی سےملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی، امید تھی جناب وارث مظہری صاحب سے بھی یہاں ملاقات ہوگی، لیکن ان کی اچانک علالت کی وجہ سے محرومی رہی ، جس کا بہت افسوس ہوا۔ مفتی عبید اللہ صاحب کے علم وفضل کا تو گروپ میں ظہور ہوتا رہا ہے، ان کی نرم وگرم، کھٹی اور میٹھی باتوں سے ممبران محظوظ ہوتے رہے ہیں، لیکن مفتی مشتاق صاحب تو ہمارے لئے ایک انکشاف اس معنی میں رہے کہ گروپ میں رہنے اور وقتا فوقتا اپنے افادات سے نوازنے کے باوجود ہم انہیں پہنچان نہ سکے ، مفتی ساجد صاحب نے ہمیں بتایا کہ کئی ایک بار ڈاکٹر صاحب کے افادات پر ہمارا تبصرہ کچھ سخت تھا، ہمیں اس سلسلے میں کچھ یاد نہیں ، اگر بات ایسی ہوئی تھی تو یہ ہماری غلطی تھی، ہم نے ایک سنجیدہ صاحب علم کی بات کو سمجھنے میں غلطی کی، آپ سے ملاقات پر محسوس ہوا کہ بڑے ہی نستعلیق، سنجیدہ، اور دھیمے انداز میں بولنے والی شخصیت ہیں، علمی موضوعات پر ان کی دسیوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں، ہمارے لئے یہ خوش قسمتی کی بات تھی کہ ڈاکٹر صاحب کئی ایک ایسے موضوعات سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں جو کبھی ہماری دلچسپی کے موضوع رہا کرتے تھے، کبھی کا لفظ اس لئے ہم نے لکھا کہ کسی موضوع میں ہمارا اختصاص نہیں ہے، مختلف ڈالیوںاور پودوں سے پھول چننے کی ہماری عادت رہی ہے، لہذا دلچسپیاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ قریبی دور میں علمائے دیوبند خصوصا ہمارے مخدوم حضرت مولانا سید علی میاں ندوی علیہ الرحمۃ نے تصوف میں تزکیہ کے پہلو کو اپنی تصانیف میں بڑی قوت سے اجاگر کیا تھا، آپ کی کتاب ربانیۃ لا رہبانیہ اس موضوع پر ایک سنگ میل سمجھی جاتی ہے، آپ کے رفیق کار حضرت مولانا محمد منظور نعمانی علیہ الرحمۃ نے بھی اپنے مجلہ الفرقان لکھنو اور تصنیفات کے ذریعہ اس تحریک کو مزید تقویت دی، عرب علماء خاص طور پر شامی علماء خصوصا ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی رحمۃ اللہ علیہ نے عرب دنیا میں اس فکر کو عام کیا ، ان حضرات نے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگر د رشید ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفات میں اس تصوف کی تائید کو اجاگر کیا ،اور آج کے دور میں پیر ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب دامت برکاتھم بر صغیر میں اسی تحریک کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن جہاں تک تصوف تعلق ہے اس میں تزکیہ کے پہلو کو چھوڑ کر اس کا علمی اور فلسفیانہ پہلو بھی ہے،جس کی اسلامی لٹریچر اور ادب میں بڑی اہمیت ہے، اور اب برصغیر میں اس کے ماہرین شاذونادر ہی نظر آتے ہیں، اور جو نظر آتے ہیں ان میں زیادہ تر تعداد بدعات کی طرف مائل ہےیا پھر اس کے ناقد محض ہیں۔ ۱۹۷۶ء میں مصر سے جاری ایک مجلہ میں ہمیں ایک سلسلہ وار مضمون پڑھنے کو ملا، جس میں ایک داعی کو کون کون سی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے ، اس کی رہنمائی کی گئی تھی، اس میں یہ بات بھی بتائی گئی تھی کہ دل کو نرم کرنے اور تزکیہ نفس کے لئے کتب تصوف کا پڑھنا از حد لازمی ہے، اس دوران شیخ الازہر ڈاکٹر عبد الحلیم محمود کی رحلت کا واقعہ پیش آیا، شایداحباب کو معلوم نہ ہو، مشائخ ازہر کا عموما تصوف کے سلسلوں سے تعلق رہتا ہے، اور یہ عموما سجاد ہ نشین ہوا کرتے ہیں، موجودہ شیخ الازہرڈاکٹر احمد محمد الطیب کا شمار چوٹی کے علمائے تصوف میں ہوتا ہے، یہ خود سلسلہ خلوتیۃ کے سجاد ہ نشین ہیں، انہیں قریب سے جاننے والے معاملاتی امور وغیرہ میں ان کے تقوے اور پاک بازی کا بہت تذکرہ کرتے ہیں، ڈاکٹر عبد الحلیم محمود نے علم تصوف کے قدیم ورثہ کو جدید تحقیق کے مطابق از سرنو منظر عام پر لانے کے لئے اہم کردار ادا کیا ، اور آپ کی دلچسپیوں سے، اللمع لابی نصر السراج الطوسی، الرسالۃ القشریہ لابی القاسم القشیری، التعرف لمذہب اہل التصوف لابی بکر محمد بن اسحاق الکلابازی، اور الانوار القدسیۃ للشیخ عبد الوہاب الشعرانی جیسی امہات الکتب منظر عام پر آئیں، یہ کتابیں ہمیں ۱۹۷۹ ء میں دبی آنے کے بعد پڑھنے کو ملیں، لیکن ڈاکٹر عبد الحلیم محمود کی مجاہدانہ زندگی کچھ ایسی تھی، کہ ۱۹۷۸ء میں آپ کی رحلت پر ایک طفلانہ مضمون بھی لکھ دیا، جو ہمارے تحریر کردہ بالکل ابتدائی مضامیں میں سے ایک ہے۔ ۱۹۷۹ء کے آغاز میں حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ سے کئے گئے ایک طفلانہ انٹرویو نے خواجہ نظام الدین اولیاء کے ملفوظات فواد الفواد، خواجہ معین الدین اجمیری کے ملفوظات، اور شیخ یحیی منیری کے مکتوبات صدی وغیرہ پڑھنے کا شوق دلایا۔جن کے بعد شیخ عبد الوہاب شعرانی کی الطبقات الکبری، علی الخواص کی تحفۃ الاکیاس فی حسن الظن بالناس ،اوراردو میں ڈاکٹر یوسف سلیم چشتی کی تاریخ تصوف کے مطالعہ کا موقعہ ملا۔جس سےیہ بات سمجھ میں آئی کہ اسلامی لٹریچر میں تصوف کی تزکیہ نفس کے ساتھ ساتھ بحیثیت علم و فلسفہ بھی بڑی اہمیت ہے۔ تصوف کے نقد وقدح پر وہابی نقطہ نظر سے لکھی گئی کتابوں نے کبھی اپنی جانب متوجہ نہیں کیا، البتہ اس دوران تصوف کے رد میں کراچی کے مسعود احمد کے پمفلٹ نظر سے گذرے جن میں ملفوظات کی اصل کتابوں سے اقتباسات کے عکس دینے کا اہتمام تھا، البتہ اس دوران ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی کے مجلہ علوم القرآن میں صوفیہ اور تبلیغ دین پر دو مضامین اور تصوف ایک تحقیقی جائزہ ، اور ڈاکٹر عبید اللہ فراہی کی تصوف ، ایک تجزیہ اور ڈاکٹر محمد احمد لوح کی تقدیس الاشخاص فی الفکر الصوفی نے ضرور متوجہ کیا۔ ڈاکٹر مشتاق احمد تجاروی صاحب سے اس مختصر ملاقات کے بعد محسوس ہوا کہ ہم علم تصوف کے ایک بحر بے کراں کے سامنے کھڑے ہیں، بڑا نپاتلا انداز، غیر جذباتی معروضی اسلوب، اور حقیقت پسندانہ موقف، کہیںمحبت اور جذبات کو مجروح کرنے والی بات نہیں، تصوف کا پہلا درس اپنے ذات کی نفی سے شروع ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب کی باتوں میں اس کی عملی تصویرنظر آئی۔نماز مغرب کے وقت آپ کے یہاں پہنچے تھے، بعد نماز عشاء علمی وروحانی تشنگی لئے واپسی ہوئی ، رہی پیٹ کی بھوک تو ہمارے میزبان لقمان صاحب نےپرانی دہلی کے ایک ایک مشہور ہوٹل کی خوش ذائقہ چنگیز ی کی ضیافت سے پوری کی۔ جاری۔۔۔