)مذاکرات ملتوی مگر کیوں؟(از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

04:48PM Sat 16 Jan, 2016
hafeez-noumani از حفیظ نعمانی خارجہ سکریٹریوں کے جو مذاکرات 15 جنوری کو ہونا تھے ان کو غیرمعینہ مدت تک ملتوی کرانے کے لئے فتنہ پردازوں نے پٹھان کوٹ پر حملہ کیا تھا اور ان کو ہی وہ ملتوی کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس مسئلہ میں کامیاب ہونے کی صرف ایک وجہ تھی کہ اس بار وہ ہوا ہے جو کبھی نہیں ہوا کہ دونوں وزیر اعظم بغیر کسی پروگرام کے آپس میں ملے اور انتہائی خلوص سے ملے۔ یہ بھی پہلی بار ہوا کہ پٹھان کوٹ کے شرمناک حادثہ کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم نے ہمارے وزیر اعظم سے معذرت کی اور مفسدوں کے خلاف جلد از جلد کارروائی کرنے کا یقین دلایا اور اس نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بناکر یہ چاہا کہ کمیٹی اپنا کام کرتی رہے اور مذاکرات کا عمل اپنے راستہ پر رواں دواں رہے لیکن یہ کیسے ہندوستان کو منظور ہوسکتا تھا؟ پاکستان نے اپنے کہنے کے مطابق ان کی گرفتاریاں شروع بھی کردیں جن کی طرف ہندوستان نے اشارہ کیا تھا اور یہ بھی خبر آگئی کہ اظہر مسعود کو گرفتار کرلیا۔ ہر ٹی وی چینل اور اخبار کی اہم خبر یہی بنی رہی کہ اظہر مسعود گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن ہر اخبار میں خبر کے آخر میں یہ بھی لکھا جارہا تھا کہ مگر حکومت کو سرکاری ذرائع سے اظہر مسعود کی گرفتاری کی خبر نہیں دی گئی ہے؟ اور دو دن کے شور کے بعد حکومت کی بات ہی صحیح نکلی کہ اظہر کی گرفتاری ایک افواہ تھی۔ ٹی وی کے ہر چینل میں اس دن کے بعد سے اس مسئلہ پر مذاکرات ہورہے ہیں اور ہر سنجیدہ شخص کی تان لیکن پر ٹوٹتی ہے اور کسی کو یقین نہیں کہ نواز شریف اظہر مسعود کے خلاف وہ کارروائی کرپائیں گے جو ہندوستان چاہتا ہے؟ اسلام کی تاریخ میں کبھی کم تعداد اور زیادہ تعداد مسئلہ نہیں رہی ہے اور نہ چھوٹا ملک اور بڑا ملک کوئی مسئلہ رہا ہے۔ پاکستان کو دو خانوں میں بٹا ہوا سمجھنا چاہئے۔ ایک وہ جس کے وزیر اعظم نواز شریف ہیں اور ان کی ہی جیسی شکل و صورت کی ان کی فوج ہے اور دوسرا خانہ وہ ہے جو آج بھی پاکستان کو اسلامی ملک دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ تعداد میں بیشک کم ہے لیکن اس کی عظمت کو سب تسلیم کرتے ہیں اور جس طرح پاکستانی کرکٹ ٹیم میں کھلاڑی ایک کے بعد ایک دینی مزاج کے بنتے جارہے ہیں اس سے بہت بڑی تعداد ان کی فوج میں ہیں انہیں سب سے زیادہ طاقت جہاد کی فضیلت اور جہاد سے بھری ہوئی اسلام کی تاریخ سے ملتی ہے۔ لیکن یہ ہم بھی نہیں سمجھ پاتے کہ حافظ سعید اظہر مسعود اور ایسے دوسروں سے دین کا کیا لینا دینا؟ 2008 ء میں ممبئی یا گذشتہ سال گرداس پور یا اب پٹھان کوٹ یا ہر دن کشمیر کی سرحد پر جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے اسے کون اسلام اور دین کہہ سکتا ہے؟ ہم نے بھی حضور اکرمؐ اور بعد کی جو تاریخ پڑھی ہے ان میں کسی ایک جگہ بھی تو ایسا یا اس سے ملتا جلتا کوئی واقعہ نہیں ملتا۔ پھر وہ طبقہ جو فوج میں ہے اور دینی مزاج کا ہے وہ ان کے خلاف کھل کر سامنے کیوں نہیں آتا؟ ہندوستان کی کم سے کم خواہش یہ ہوگی کہ اظہر مسعود اور حافظ سعید کے اتنے پرکتر دیئے جائیں کہ یہ اُڑکر سرحد یا اس کے پار نہ آسکیں۔ اور پاکستان میں وزیر اعظم کوئی ہو اتنی ہمت اب کوئی نہ کرسکے گا۔ 1965 ء کی جنگ میں پاکستان کا کم نقصان نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد بھی نہ جانے پاکستان میں لکھی گئیں کتنی کتابیں اور کتنے مضامین نظر سے گذرے جس میں صدر ایوب کے اس فیصلہ کی مخالفت کی گئی تھی جو انہوں نے روس کی بات مان کر جنگ بند کردی تھی اور تاشقند میں ہندوستان کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری سے معاہدہ کرلیا تھا۔ پاکستان میں لکھنے والے تو یہاں تک لکھ گئے تھے کہ دخترانِ اسلام پھکنی اور چمٹے سے جہاد میں شریک ہونا چاہتی تھیں۔ لیکن جنرل ایوب نے صلح کرلی۔ جماعت اسلامی کے کئی لوگوں کے مضامین بھی اس زمانہ میں چھپے تھے۔ انہوں نے بھی جنگ بندی کی مخالفت کی تھی اور اسے جہاد نہ قرار دینے سے ناراض تھے۔ ہندوستان اور پاکستان میں اظہر مسعود بحث کا موضوع ہیں۔ خبروں کی حد تک ان کے مختلف شہروں کے دس سے زیادہ دفاتر سیل بند کردیئے گئے اور جگہ جگہ گرفتاریاں ہورہی ہیں اور اظہر مسعود کہہ رہے کہ گرفتاریوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کافر اور منافق ہماری گرفتاری پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ وہ گرفتاری جو ہوئی ہی نہیں۔ اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ اللہ نے چاہا تو اس کی فوج اپنے دشمنوں کو زیادہ دن تک خوشی منانے کا موقع نہیں دے گی۔ اظہر مسعود اور حافظ سعید ہمیشہ جب بات کرتے ہیں تو وہ حکومت کو ایک مکھوٹا سمجھ کر بات کرتے ہیں اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب انہیں یقین ہو کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ حافظ سعید نے کئی برس پہلے ایک ہندوستانی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے نہ پاکستان کے کہنے سے بندوق اٹھائی ہے اور نہ ہم اس کے حکم سے بندوق رکھیں گے۔ اس لب و لہجہ میں بات کرنے والوں کو یہ سمجھنا کہ حکومت پاکستان جب چاہے گی انہیں ختم کردے گی بہت بڑی بھول ہے اور ان کے اعتماد سے اندازہ ہوتا ہے کہ فوج کی درپردہ حمایت انہیں حاصل ہے اور وہی ان کی آقا ہے۔ پٹھان کوٹ کے واقعہ کے بعد اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی حکومت کا رویہ بدلا ہوا ہے۔ لیکن کیا یہ بات ہندوستان کے لئے مناسب ہے کہ ایسے نازک وقت میں بھی بی جے پی کے جتنے ترجمان جس چینل پر بیٹھے ہوتے ہیں وہ رہ رہ کر اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ 26/11 کے بعد پاکستان کی حکومت کا رویہ ایسا نہیں تھا جیسا اب ہے۔ جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے مقابلہ میں ہماری پارٹی کے وزیر اعظم نریندر مودی سے پاکستان ڈر رہا ہے اور ہر اس حکم کی تعمیل کررہا ہے جو اسے ہندوستان کی طرف سے دیا جارہا ہے۔ یہ بات غلط نہیں ہے۔ لیکن جس انداز سے کہی جارہی ہے وہ نامناسب ہے اور ہر کانگریسی کو اس سے شکایت ہوگی۔ بات وزیر اعظم کی نہیں ہوتی ہے بلکہ حالات کی ہوتی ہے اور کوئی شک نہیں کہ پٹھان کوٹ کا معاملہ اپنی نوعیت اور وقت کے حساب سے بہت غلط تھا۔ اس لئے کہ دوستی کی جیسی فضا مودی صاحب نے بنائی تھی وہ اس سے پہلے صرف اٹل جی نے بنائی تھی وہ بھی منصوبہ بنانے کے بعد۔ خارجہ سکریٹریوں کے درمیان 15 جنوری کو ہونے والے مذاکرات کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ناگواری کے تحت نہیں دونوں کی مرضی سے ملتوی کئے گئے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ جواب کہ ’’یہ گفتگو کل بھی نہیں ہوسکتی اور چھ ماہ بھی نہیں ٹل سکتی‘‘ صرف ٹالنے والا جواب ہے۔ پاکستان نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ایک ٹیم پٹھان کوٹ بھیج رہا ہے۔ ہندوستان نے اس کا خیرمقدم کیا ہے لیکن کہنے والوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ایئربیس کا وہ حصہ جو دہشت گرد نہیں دیکھ سکے تھے پاکستان اسے دیکھنے بھیج رہا ہے۔ اور ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ شاید وہ یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ اتنے وزنی ہتھیار پاکستان سرحد کے کس حصہ سے وہ بغیر سواری یا کسی باربردار کے وہاں تک کیسے لے گئے جہاں انہوں نے ایک ڈرائیور کو مارا اور اس کی ٹیکسی چھینی۔ لیکن اس ٹیم کے آنے سے ہم یہ توقع کیسے کرسکتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کرنے آرہے ہیں؟ ہمارے خارجہ سکریٹری نے یہ کہہ کر بات کو بہت ہلکا کردیا کہ مولانا اظہر کی گرفتاری دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت شروع کرنے کی کوئی شرط نہیں ہے۔ جب ایسا ہے تو ہم یہ بات نہ سمجھ سکے کہ اس سے بڑی کون سی بات ہے جس کی وجہ سے مذاکرات ملتوی کئے گئے اور ہندوستان کی طرف سے یہ فراخدلی بھی ہماری سمجھ میں اس لئے نہیں آئی کہ پٹھان کوٹ کی پہلی خبر کے ساتھ ہی اظہر مسعود کا نام لیا گیا تھا اور آخر تک ساری توجہ اظہر مسعود پر ہی رہی اور ان کے مسلسل بیانات سے بھی ثابت ہورہا ہے کہ وہی ذمہ دار ہیں۔ ان کا ہندوستان کے لئے کافر کا لفظ استعمال کرنا اور پاکستان کے لئے منافق کی اصطلاح استعمال کرنا بتاتا ہے کہ اندر کتنا زہر ہے۔ اگر اظہر مسعود کو گرفتار کرنے سے پاکستان نے معذرت کرلی ہے تو پھر کیسے مذاکرات اور کیسی یقین دہانیاں؟