کتابیں جو بولتی ہیں۔۔۔ تحریر: فرزانہ اعجاز

Bhatkallys

Published in - Other

06:12PM Thu 27 Aug, 2020

کتابیں ' جو بولتی ہیں'

فرزانہ اعجاز

' کارونا ' بیماری کی وجہ سے 'تمام عالم ' میں 'لاک ڈاؤن 'تو ہو گیا ،خدا کا شکر ہے کہ "انسان کا دماغ " شٹ ڈاؤن " نہیں ہوا ہے ۔اب تو مہینوں ہو گئے کہ کسی ماہوار رسالے کا دیدار نصیب ہوا ہو  یا کتابوں کا اجراءہوا ہو ،کچھ نہیں ہو سکا اور نہ معلوم "کب تک کچھ نہیں ہو سکے گا ۔' اگر موبائل فون کا سہارا نہ ہوتا تو سچ مچ زندگی اجیرن ہو جاتی ،آجکل کے  بیشتراخبار بھی ایسے نہیں ہوتے کہ انکی 'پھیلائی' خبروں پر اعتبار کیا جاےء۔بس – دوچار اچھے مضامین پڑھ لیےء یا 'اڈیٹوریل' یا 'مراسلات ' دیکھ لئے۔

ہم نے  اپنےگھر میں رکھی تمام کتابیں پہلے ہی 'چاٹ ڈالی' تھیں ۔اردو – ہندی – انگریزی کی بھی پرواہ نہیں کی ، پڑھنے کا ہم کو پرانا عارضہ ہے ،، اب سوچ رہے تھے کہ 'کہاں تک سلائی کریں ؟'کہ ایک روز محترم احمد ابراہیم علوی صاحب کا غیر متوقع فون آیا ، فرمایا کہ 'وہ ہم کو ایک کتاب بھیجنا چاہ رہے ہیں ، ہم نے پوچھا کس کی لکھی ہے ؟ فرمایا – پتہ نہیں ، یوں ہی سی ہے ۔ ایک صاحب ہیں ، پتہ نہیں کیا کیا لکھ ڈالتے ہیں ، ہم آپکو کتاب پڑھوانا چاہ رہے ہیں ۔'' اب ہمارا تجسس بڑھا کہ اگر " یوں ہی سی ہے "،تو  ان کرفیو جیسے حالات میں ہم کو کیوں فورا ً بھیجنا چاہتے ہیں ؟ آج کل ہمارے پاس کوئی کام کرنے والی  بھی نہیں ہے کہ جس سے مدد لیتے ، مگر تجسس اتنا بڑھا کہ بغیر کسی تکلف کے ہم نے فرمائش کردی کہ اگر 'حارث' یا کوئی ادھر سے گزرے تو کتاب ہم کو بھیج دی جائے۔  'حارث' فوراً 'فرزانہ پھپھو کے دروازے تک آےء ،آجکل کوئ مروتا ً بھی کسی کے گھر کے اندر نہیں آتا ہے ۔

عجلت میں ہم نے پیکٹ کھولا جس میں تین عدد کتابیں نکلیں ، ایک 'قیصر تمکین "بھائییی کی اور دو خود 'ابراہیمبھائییی صاحب' کی۔ ہماری مسرت قابل دید تھی کہ اس 'قحط الکتاب ' کے زمانے میں کیا انمول خزانہ یعنی عمدہ کتابیں ہاتھ لگی ہیں ، ابراہیمبھائییی کو آج کے  لوگ 'اخبار نویس ' کی حیثیت سے جانتے ہیں مگر وہ بہت پہلے سے ' افسانہ نگار ' رہے ہیں اور آج بھی ہیں ، ایک کتاب ' فاصلوں کے رشتے ' اور دوسری کتاب ' ادبی ہستیاں و بستیاں 'ابراہیمبھائیی صاحب کی اور ایک کتاب 'قیصربھائییی' کی 'صدی کے موڑ پر '۔

ابراہیمبھائییی نے جس طرح کتاب کا ذکر کیا تھا تو خیال ہوا کہ ' انکو کسی نے اپنی کتاب دی ہوگی اور اب ہم کو پڑھوانا چاہ رہے ہوں گے۔ لیکن ، یہ کتابیں دیکھ کر بہت اچھا لگا ۔اپنے ذوق کے مطابق ہم نے پہلے " ادبی ہستیاں و بستیاں " نکالی ۔

'عبدالحلیم 'شرر' کی 'گذشتہ لکھنوء'کے بعد 'مرزا جعفر حسین 'بیسویں صدی کے مصنفین'ہم پڑھ چکے تھے ۔اب جو ابراہیم بھائیی کی "ادبی ہستیاں و بستیاں 'کھولی تو 'گویا دبستاں کھل گیا ۔ " مضامین کی فہرست پر نظر ڈالی تو محسوس ہوا کہ 'یہ بھی گذشتہ لکھنوء اور مرزا جعفر حسین کی کتاب کی نئی اور موجودہ کڑی 'ہے۔ جسمیں لکھنوء اور اطراف لکھنوء کے بڑے چھوٹے زیادہ تر ادیبوں ،شاعروں اور ادبی جلسوں اور ادبی انجمنوں کی سرگرمیاں موجود ہیں ۔ دو سو اٹھاسی صفحوں کی کتاب ' کتاب کیا ہے 'ایک 'انسائکلو پیڈیا "ہے ، جس میں بڑے چھوٹے تمام ادیبوں کا ذکر ہے اور روانی کا ایک دریا ہے جو تسلسل سے رواں دواں ہے ، ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ کتاب کسی مورخ نے لکھی ہو ۔تقریباً ساٹھ سال کا اردو کا سرمایہ ہے جو ایک کتاب میں جمع ہو گیا ہے ۔ بزرگوں کے ساتھ ساتھ 'ہم ' جیسے 'نوسکھیوں 'کا ذکر بھی اسقدر خلوص واعتماد سے کیا گیا ہے کہ 'جی چاہنے لگا کہ ہم سچ مچ اتنے ہی اچھے ہو جائیں جیسا کہ ہمارے 'بھائی صاحب کو ہم سے امیدیں ہیں ۔' بہت ہی کم لوگ ایسے  بلند کردار کےہوتے ہیں جودوسروں کی رہنمائی کریں اور قلم کو "سیدھا راستہ بھی دکھائیں ، '

برسوں لکھنؤسے باہر رہے اور آئےبھی تو بھاگم بھاگ ،پھر بچوں کو اعلی۱ تعلیم کے لئے جب لکھنؤاور علی گڑھ  بھیجا تو ہمارا آنا جانا بھی زیادہ ہونے لگا ، جب ہم نے لکھنؤچھوڑا تھا تو اخبار 'قومی آواز 'پورے شباب پر تھا ، 'حریم ' رسالہ اور ' کتاب ' پابندی اور اپنی اپنی روایات کے ساتھ شائع ہو رہے تھے ، مسقط – عمان میں سب کچھ اچھا تھا مگر کتابوں اور اخباروں کابڑا 'کال ' تھا ،انگریزی کا ایک ہفت روزہ  مقامی اخبار  نکلتا تھا ،جس کو لوگ 'رسماً' پڑھ لیا کرتے تھے ،  'انڈین ایمبیسی' سے  قومی آواز لاکر ہم پڑھا کرتے تھے ، حریم امی کے پاس پابندی سے آتاتھا اور اتنی ہی پابندی سے 'شمع ' اور بانوامی منگاتی تھیں، تینوں پرچے سال بھر امی جمع رکھتی تھیں کہ ہم آکر پڑھیں گے ، شمع اور بانو کی عمان میں مقیم پاکستانیوں میں بڑی 'مانگ ' تھی ،سارے پرچے ہم ساتھ لے جاتے تھے ،جوپاکستانی لیڈیز کے لےء بہت 'انمول تحفہ ' ہوتا تھا ، بدلے میں ہم انسے پاکستانی رسالے  'دوشیزہ اوراردوڈائجسٹ اور کئی پرچے لیا کرتے تھے ،  وہاں

 شائع ہونے والی کتابیں بھی لیکر پڑھا کرتے تھے، 'کار جہاں دراز ہے ' ، وہ اک قطرہ خوں 'اور بہت سی نایاب کتابیں ہم نے ایسے ہی پڑھیں۔

گذشتہ پینتیس سالوں میں لکھنؤ'کیا سےکیا ' ہو گیا ، قومی آواز بند ہو گیا، حریم اور کتاب بھی خواب و خیال ہو گئے ۔ بہت سے ادیب بھی مرحوم ہو گئے اور نئے ادیبوں نے انکی جگہ پر کرنا چاہا مگر کوئی ' سجاد ظہیر ' نہ بن سکا ، نہ 'حیات اللہ انصاری یا سید مسیح الحسن رضوی، نہ رام لعل ۔ دراصل ہر ایک کا اپنا انداز ہوتا ہے ، اپنی سوچ ہوتی ہے اور اپنا اپنا زمانہ ہوا کرتا ہے ۔کوئی بھی کسی کی 'نقل ' کر کے ' عقل مند 'نہیں بن سکتا ہے ، آج کے اخبارات میں جس دل جمعی سے 'پرانے لکھنے والوں کے مضامین 'شائع ہو رہے ہیں وہ  اس بات کا خدشہ بھی ظاہر  کرتے ہیں کہ'نئی نسل 'جو اب پرانی ہوتی جا رہی ہے، کم سے کم لکھ رہی ہے ،اور 'آنے والے 'وہ اردو ہی نہیں جانتے جو سچ مچ حلاوت ، نزاکت اور شیرینی سے سجی سنوری تھی ، اب نہ 'املا ' درست ہوتا ہے نہ جملے ۔ دل بہت دکھتا ہے مگر کیا کریں ؟' اب اسی کو غنیمت جانتے ہیں ۔

ابراہیم بھائی صاحب کی اس کتاب میں گزرے ساٹھ سال کی 'روداد 'بہت سلیقے اور روانی سے لکھی گئ ہے ، وہ خود ایک بہت معززاور معتبر خاندان کے روشن چراغ ہیں اور "اپنا سنہرا قلم ' اپنی جیب میں لیکر پیدا ہوئے ہیں ، 'ہم تو اسی حسرت میں رہے کہ ' یا اللہ- کوئی ایک بھائی تو ایسا ہوتا جو قلم کو سلیقے سے نہ پکڑ پاتا ،'

ابھی ابھی کتاب ختم کی ہے ۔سوچا تھا ابراہیم بھائی کو بتائیں گے،مبارک باد دیں گے کہ اتنی کاوش سے ، اتنی خوبصورتی سے 'تاریخ اردو ادب 'جمع کردی ، مگر، ہمت نہیں ہو رہی ہے '،ڈانٹ سننے کی "۔وہ یہی کہیں گے ،' کون سی کتاب ؟ کیسی کتاب ؟ کسکی کتاب ؟ اور کیا الٹی سیدھی باتیں کر رہی ہو ؟اور --- کتنے افسوس کی بات ہے کہ انکی اتنی اچھی کتاب کی انکے سامنے ' سچی سچی تعریف'  بھی نہ کر سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرزانہ اعجاز

Farzana ejaz@hotmail.com