اوراقِ ناخواندہ۔ شخصی خاکوں، وفیات کا ایک متاثر کن متنوع مجموعہ ۔۔۔تبصرہ نگار: محمود عالم صدیقی

Bhatkallys

Published in - Other

11:06AM Sat 7 Oct, 2017

نام کتاب: اوراقِ ناخواندہ مصنف : ڈاکٹر طاہر مسعود قیمت: گیارہ سو روپے ناشر: ہما پبلشنگ ہاؤس، کراچی 0300-2539605 بٹوارے کے بعد اردو صحافت کے حوالے سے چار بڑے ستون مجید لاہوری، ابن انشاء، مشفق خواجہ اور عطاء الحق قاسمی کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ منٹو، ابراہیم جلیس، شورش کاشمیری، محمودہ سلطانہ، رئیس امروہوی، سید ضمیر جعفری، شفیع عقیل، انتظار حسین، شبنم رومانی، نصیر انور خاکہ نگاری اور فکاہی کالم کے نامور امین رہے ہیں۔ فکاہی کالم نگاری کا یہ سلسلہ منو بھائی، مستنصر حسین تارڑ، طاہر مسعود، احسان بی۔ اے، وقار انبالوی، نسیمہ بنتِ سراج، ظفر اقبال، ارشاد احمد خاں، انعام درانی، حسن نثار، یونس بٹ، اجمل نیازی، جاوید چودھری اور دیگر تک آپہنچا ہے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود۔ ایک تعارف مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں لائق اور فائق استاد، دانش ور، سائنس دان سبکدوش نہیں کیے جاتے، وہ تاحیات ملک و قوم کی خدمات سرانجام دیتے ہیں، لیکن ہمارے ملک کے زوال آمادہ اور زوال پذیر معاشرے میں لائق و فائق اور فرض شناس افراد کو جہاں اعلیٰ تعلیم پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، لائق اور جوہر قابل کو بعض اوقات وقت سے قبل یا زیادہ سے زیادہ سرکاری پیشہ ورانہ حدِ عمر پر ریٹائر کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک اور صحافیانہ خوبیوں سے مالامال افسانہ نگار، لائق و فائق استاد، معروف طنز و مزاح و خاکہ و کالم نگار ڈاکٹر طاہر مسعود کو بھی اس سال کے شروع میں جامعہ کراچی سے سبکدوش کردیا گیا۔ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ’’اردو صحافت انیسویں صدی میں‘‘ کے موضوع پر تھا، جسے مجلسِ ترقی ادب لاہور نے شائع کیا تھا۔ وہ سقوطِ ڈھاکا سے چند ماہ قبل ہی راجشاہی سے لٹے پٹے کراچی پہنچے اور ملیر سعود آباد کے ایک ڈھائی کمروں والے مکان میں چھوٹے ابا (چچا) کے گھر پر ٹھیرے۔ ان کے والد مرحوم سید مسعود احمد اور چچا مرحوم فاروق احمد، مشرقی پاکستان کے شہر راجشاہی میں اخبارات و کتب کی تجارت سے منسلک تھے۔ شہر کے ریلوے اسٹیشن پر ایک بک اسٹال اور رانی بازار میں اردو لائبریری کے نام سے کتابوں کی ایک دکان تھی۔ انہوں نے مشرقی پاکستان سے آنے کے بعد شعبہ صحافت میں داخلہ لیا اور طالب علمی کے دور میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے۔ صحافت میں ایم اے کیا، کراچی یونیورسٹی جرنلزم المنائی ایسوسی ایشن سے وابستہ رہے۔ اخبار نوائے وقت سے جزوقتی طور پر وابستہ ہوگئے۔ جسارت کے ادبی صفحے کے لیے ادیبوں اور معروف شخصیتوں کے انٹرویو لیے اور رپورٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ بچوں کے رسالے آنکھ مچولی سے بھی منسلک رہے۔ مجیب الرحمن شامی کے ہفت روزہ بادبان میں بھی کام کیا۔ 1984ء میں جامعہ کراچی کے شعبہ صحافت میں لیکچرر تعینات ہوئے اور اسی ادارے سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور گزشتہ سال ریٹائر ہوگئے۔ اوراقِ ناخواندہ کے خاکے اور ڈاکٹر طاہر مسعود کا تیکھا قلم زیرنظر کتاب ’’اوراقِ ناخواندہ‘‘ ان کے شخصی خاکوں کی دوسری کتاب ہے۔ اس سے پہلے ’’کوئے دلبراں‘‘ اور ’’صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ (ادبی انٹرویو) اور روزنامہ جنگ اور جسارت میں شائع شدہ کالموں پر مشتمل کالموں کا مجموعہ ’’برگردن راوی‘‘ 1986ء میں پہلی بار چھپا تھا۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کی کالم نگاری اور خاکہ نگاری کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں کہانی اور ڈرامے کا عنصر پایا جاتا ہے۔ وہ حالات اور واقعات کی مضحک تصاویر دکھا کر ایک نیا خاکہ بنالیتے ہیں جو تحریر کو شگفتگی عطا کردیتا ہے۔ وہ عام طور پر انفرادی یا شخصی رویوں کی مثال دے کر ہماری اجتماعی بے حسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس طنز کی آڑ میں بھی تنقید برائے تنقید کے بجائے اصلاح اور دردمندی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ طاہر مسعود صاحب کے کالموں، خاکوں اور انٹرویوز کی گفتگو میں اگرچہ طنز کا پہلو نسبتاً غالب رہتا ہے لیکن بالعموم مزاح بھی اس کے شانہ بشانہ چلتا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ طاہر مسعود کے مزاح میں ابن انشاء کے مزاح کی طرح بے ساختہ پن نہیں ہے بلکہ مشتاق احمد یوسفی کی طرح وہ بھی الفاظ اور محاروں پر کافی محنت کرتے ہیں اور اختراع کرتے ہیں جس سے خوبصورت ساخت پروان چڑھتی ہے۔ اوراقِ ناخواندہ جو شخصی خاکوں اور وفیات کا مجموعہ ہے، معروف شاعر سحر انصاری صاحب کے نام معنون کیا گیا ہے۔ اس میں 33 شخصیات کے خاکے پیش کیے گئے ہیں جس میں کچھ شخصیات ان کی خانگی زندگی سے متعلق ہیں۔ زیادہ تر معروف جانی پہچانی شخصیات ہیں جن میں سے چند ہی حیات ہیں۔ اپنے ابتدائی کلمات ’’باتیں چند‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میں اپنی زندگی میں جن بڑی شخصیات اور عام افراد سے ملا ہوں جن سے کچھ سیکھا اور کچھ سمجھا، جنہوں نے مجھے حلول درس کیا، جن کے ذریعے مسرتوں اور کامیابیوں کی نعمتیں ملیں، جنہوں نے مجھے بگاڑا یا بنایا، یہ کتاب اس کی ایک داستانِ مسلسل ہے۔ جن شخصیتوں کے بارے میں مَیں نے لکھا ہے ان تذکروں میں میرا ذکر اس طرح جڑا رہا کہ نکالنا چاہوں بھی تو نکال نہیں سکتا۔ اس لیے برداشت کرلیں، ورنہ تو لوگ محبوب کے ساتھ کسی کا ذکر برداشت نہیں کرتے۔ کتاب کے پہلے تین خاکے میرے ابی جان، دکھیاری پھوپھی (اصغری پھوپھو) اور دوسروں کے لیے جینے والے، بدر عالم دادا ان کی خاندانی شخصیات تھیں جو وفات پاچکی ہیں۔ یہ خاکے متاثر کن ہیں اور اُن مشکل حالات سے آگاہ کرتے ہیں جن کا مقابلہ ان شخصیات نے پامردی سے کیا۔ چوتھا خاکہ اردو کے بے مثل ڈرامہ نگار، شاعر اور ادیب سلیم احمد کے بارے میں ہے جو ادبی دنیا میں سلیم احمد اور اپنے قریبی دوستوں اور عزیزوں کے لیے سلیم بھائی تھے۔ طاہر مسعود صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے پہلی ملاقات سے آخری ملاقات تک انہیں ہمیشہ اسی کیفیت میں پایا، سوچتا ہوا چہرہ، گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں اور بے ساختہ خوفناک قسم کا قہقہہ، ان کی مٹھیوں میں سگریٹ ہمیشہ سلگتا رہتا تھا۔ ان کی علمی بصیرت، اخلاقی جرأت، ادبی کمٹ منٹ اور بہت سی خوبیاں ایسی تھیں جنہوں نے مجھ پر جادو کیا ہوا تھا اور میں آج تک اس سحر سے باہر نہیں آسکا۔ طاہر مسعود لکھتے ہیں کہ سلیم بھائی ایک جلے ہوئے آدمی تھے جیسے جلا ہوا کوئی پیڑ ہوتا ہے، جیسے ادھ جلی شمع ہوتی ہے، زندگی کی آگ میں خاکستر ہوئے بغیر کوئی ویسی شاعری نہیں کرسکتا ہے جیسے انہوں نے کی یہ چاہا تھا کہ پتھر بن کے جی لوں سو اندر سے پگھلتا جا رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دلوں میں درد بھرتا آنکھ میں گوہر بناتا ہوں جنہیں مائیں پہنتی ہیں میں وہ زیور بناتا ہوں ریڈیو پاکستان سے قمر جمیل اور سلیم احمد دونوں کا گہرا تعلق تھا اور دونوں دوست بھی تھے لیکن عادات و اطوار، مزاج، بات اور ادبی نظریات میں بُعدالمشرقین۔ ایک کے فیضان کا مرکز مشرق کا کلاسیکی ادب، تو دوسرے کا مغرب کا جدید ادب۔ ایک نثری نظم کا بانی اور پیروکار، دوسرا جسے نظم ماننے کو تیار نہ تھا۔ سلیم بھائی نثری نظم کو زیادہ سے زیادہ نثر کہنے کو تیار تھے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سلیم بھائی، اپنے واجبی سے معاشی پس منظر کے ساتھ معروف اداکار محمد علی کی یہ درخواست رد کرچکے تھے کہ وہ لاہور آکر میرے گھر میں رہیں کیونکہ پاکستانی فلمی صنعت کو سلیم احمد جیسے پڑھے لکھے دانش وروں کی سخت ضرورت ہے۔ فلم لکھیں، کئی لاکھ کی ادائیگی بھی ہوگی اور فلم بینوں کو اعلیٰ معیار کی فلمیں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔ لیکن سلیم بھائی ٹال جاتے تھے۔ حالانکہ ان کے پاس کوئی اثاثہ نہ تھا، ’’مسکنِ عزیز‘‘ کرائے کا مکان تھا، گاڑی نہ تھی، معیارِ زندگی اوسط درجے سے بھی کم تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے کبھی تنگی کا شکوہ نہیں کیا۔ ان کی اچانک وفات کے بعد ان کے سرپرستوں، دوستوں اور بہی خواہوں نے جن میں پروفیسر کرار حسین، اُس وقت کے میئر عبدالستار افغانی، محمد صلاح الدین شہید، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر جمیل جالبی، غلام احمد اسمٰعیل، جناب اطہر زیدی اور جناب نصیر احمد سلیمی اور دیگر شامل ہیں، سلیم احمد ٹرسٹ قائم کرکے ان کے اہلِ خانہ کے لیے شمالی ناظم آباد میں ایک معقول مکان کا بندوبست کردیا اور ان کے مضامین کی ایک فکر انگیز کتاب ’’اسلامی نظام، مسائل اور تجزیے‘‘ شائع کی۔ وہ حسن عسکری کو اپنا استاد مانتے ہیں مگر ان کی تحریروں پر عسکری صاحب کی فکری پرچھائیاں عنقا تھیں۔ سلیم بھائی کا گھر تو رات گئے تک ایک مرجع خلائق بنا رہتا تھا۔ ادباء، شعراء، طلبہ، اساتذہ، علماء، اداکار، فنکار، پروڈیوسر، علم و ادب سے لگاؤ رکھنے والے عام افراد پر ان کے دوازے ہمیشہ وا رہتے تھے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کا کہنا ہے کہ سلیم بھائی، قمر بھائی اور بعد میں مشفق خواجہ کے علاوہ کراچی میں کوئی چوتھا گھر ایسا آباد نہیں ہوا جہاں اہلِ علم و دانش کے طالب علموں کو محبت کھینچ کر لے جاتی ہو۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کو طاہر مسعود صاحب نے محنت، نظم و ضبط، اعتدال، وقت کے بہترین استعمال اور اپنے مقصدِ زندگی سے انتہائی لگن کی خوبیوں والا انسان قرار دیا ہے۔ ارسطو سے ایلیٹ تک، تاریخ ادبِ اردو، قومی انگریزی لغت اور دیگر وقیع علمی کاموں کی وجہ سے بقول سلیم احمد مجھے شبہ ہے کہ اردو ادب شاید محمد حسن عسکری کو فراموش کردے لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی کے علمی کاموں کو نظرانداز نہیں کرسکے گا۔ وہ وائس چانسلر کی حیثیت سے کراچی یونیورسٹی میں اپنی سوجھ بوجھ اور معاملہ فہمی کی وجہ سے بحرانوں کو ٹال دیتے تھے، ایک دفعہ میرے پوچھنے پر کہ ڈاکٹر صاحب آپ ہر بحران سے کیسے نکل آتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب بھی کوئی بڑا مسئلہ یا بحران درپیش ہوتا ہے تو میں اپنی ذات کو باہر نکال لیتا ہوں۔ مسئلہ فوراً سلجھ جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان خود اپنے راستے کا پتھر ہوتا ہے۔ انتظار حسین کی تخلیقات کے طلسم نے طاہر مسعود صاحب کو اپنے حصار میں جکڑے رکھا۔ وہ ملاقات میں ان کی سردمہری کے شاکی رہے، بعد میں ان کے رویّے میں خوشگوار تبدیلی پاکر ان کو سردمہر انتظار حسین میں سے ایک اور انتظار حسین مل گیا جس نے ان کی کتاب پر ’مشرق‘ میں تبصرہ بھی لکھا اور اپنی ایک کتاب ’’خیمے سے دور‘‘ کا ایک نسخہ دستخط کرکے ان کے حوالے بھی کیا۔ بعد میں ان کی کئی کتابوں پر ’ڈان‘ کے اوّل صفحے پر عمدہ تبصرے بھی کیے۔ انہوں نے مرحوم ڈاکٹر اسلم فرخی کے خاکے میں انہیں ایک بے مثل خاکہ نگار، ادیب، محقق، شاعر، ماہر زبان اور مربوط و مرتب گفتگو کا ماہر قرار دیا۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ اولیائے کرام کی حیاتِ طیبہ کو، ان کے اعمال و افکار کو محفوظ کرنے میں گزرا۔ خواجہ نظام الدین اولیائؒ کے خاص عقیدت مند تھے، ہر سال ان کے عرس میں دہلی جاتے، ان پر چھے کتابیں تصنیف کیں جن میں معرکۃ الآراء تصنیف ’’دبستانِ نظام‘‘ ہے، جسے وہ حاصلِ زندگی قرار دیتے تھے، ان کو تصوف اور بزرگانِ دین کی طرف مائل کرنے والی شخصیت ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی تھی جو خود ایک اچھے محقق اور نفیس صوفی تھے۔ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ محمد حسین آزاد کی حیات و تصانیف تھا جو دو جلدوں میں انجمن ترقی اردو نے شائع کیا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے شمس زبیری صاحب کے ساتھ مل کر ادبی پرچہ ’نقش و نگار‘ نکالا اور بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھا۔ مشتاق احمد یوسفی کے بارے میں اپنے مضمون چند سخن گسترانہ یادیں میں انہوں نے ان کے مقام کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ان کا یہ مضمون پہلے فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا تھا اور میں نے اس کے جواب میں بھی ایک مضمون لکھا تھا۔ انہوں نے ابن انشاء کو زیادہ بہتر مزاح نگار قرار دیا تھا جبکہ ابن انشاء خود یوسفی کے مداح رہے۔ سلیم احمد کے بھائی شمیم احمد کو انہوں نے سچا انسان اور بے لاگ ادیب قرار دیا۔ دونوں بھائیوں کی طبیعتوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا، ایک آگ تو دوسرا پانی۔ وہ اسلام اور پاکستان کے پکے شیدائی تھے، ان کی طبیعت میں لچک نہ تھی۔ ان کی ایک خفیہ صلاحیت دست شناسی تھی جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھی۔ ان کی پیش گوئیاں عموماً درست نکلتیں۔ 1993ء میں ان کا انتقال ہوا۔ عالی جی کے عنوان سے جمیل الدین عالی کے خاکے میں رقم طراز ہیں: وہ نواب لوہارو کے خاندان سے تھے۔ انتہائی جرأت مند اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والے شخص تھے۔ شعر و ادب ان کی گھٹی میں پڑا تھا، ڈاکٹر محمد حسن عسکری نے انہیں دو ڈھائی شاعروں میں شمار کیا تھا، ان میں ان کے علاوہ ناصر کاظمی اور سلیم احمد تھے۔ ان کے پہلے شعری مجموعے ’غزلیں دوہے گیت‘ کا دیباچہ حسن عسکری کا لکھا ہوا تھا۔ ناصر کاظمی اور سلیم احمد کے برخلاف عالی جی دل سے دنیا کی محبت کو چلتا نہ کرسکے۔ سلیم احمد کہتے تھے جو اُن کے جگری یار تھی، کہ عالی جی نے اپنی روح کا بڑا سستا سودا کیا۔ عالی جی نے ادیبوں اور شاعروں کی بھلائی کے کام بھی کیے، انہوں نے آدم جی اور سیٹھ داؤد سے بات کرکے گلڈ ادبی انعامات کا اجراء کیا۔ وہ خود نیشنل بینک میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور بااثر اور اچھے اثر رسوخ کے حامل تھے۔ طاہر مسعود صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ جسارت سے نوکری چھوڑنے کے بعد بے روزگاری کے دنوں میں عالی صاحب نے ان کی بھرپور مدد کرنے کی کوشش کی۔ میر خلیل الرحمن سے کہہ کر جنگ میں کالم نگاری کا سلسلہ شروع کرادیا۔ انہوں نے اکثر ضرورت مند ادیبوں اور شاعروں کو گلڈ کے ذریعے مالی سہارا فراہم کیا، مرحوم شاعروں اور ادیبوں کی بیواؤں اور بچوں کے جینے کا سہارا بنے۔ اردو کالج کو یونیورسٹی بناکر بابائے اردو کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔ ان کی مظفر علی سید سے ملاقات مشفق خواجہ کے گھر میں ہوئی جس میں وہ ان کی برجستگی اور فقرے بازی کے قائل ہوگئے، کیونکہ مشفق خواجہ جیسا فقرے باز اور برجستہ گو بھی ان کی حاضر جوابی کے آگے زچ تھا۔ خواجہ صاحب کے کہنے پر مظفر علی سید کا اسی وقت انٹرویو لیا جو اخبار میں شائع ہوا۔ وہ امریکن کلچرل سینٹر کے ڈائریکٹر ہوکر کراچی آگئے تھے۔ سید صاحب کو ہندی زبان پر بھی عبور حاصل تھا، میرا بائی کے بھجنوں کا اردو رسم الخط میں مسودہ انہوں نے ہی تیار کیا تھا، ان کے دوہے، گیت اور بھجن ’موج دریا‘ کے قلمی نام سے لکھے۔ وہ انگریزی ادب میں ایم اے تھے اور کراچی اور لاہور کے کالجوں میں انگریزی ادب پڑھاتے۔ جناب عزیز حامد مدنی، ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سے کنٹرولر کے عہدے تک پہنچے۔ افسر کے بجائے وہ ہمیشہ ایک خالص شاعر، ایک عالم کے روپ میں نظر آتے، عمر بھر کنوارے رہے۔ ان کے پہلے شعری مجموعے چشم نگراں (1962ئ) میں صرف نظمیں ہیں۔ دوسرے شعری مجموعے دشتِ امکاں ۔1984ء۔ میں نظمیں اور غزلیں دونوں ہیں، بہت اچھی غزلیں ہیں۔ تیسرا مجموعہ نخل گماں طویل عرصے بعد شائع ہوا۔ شاعر دادا رئیس فروغ کے خاکے میں وہ انہیں ایک بھولے بسرے شاعر، نہایت عمدہ شریف النفس انسان، کبھی کسی کی برائی نہ کرنے والے قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ غزل کے اچھے شاعر تھے اور خوب کہتے مگر بہت اصرار کرنے پر سناتے تھے۔ قمر جمیل کے ساتھی اور دوست تھے۔ نثری نظم کے شوق میں اپنی غزل گوئی کو ناقابلِِ تلافی نقصان پہنچا چکے تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے اچھی اور مقبول نظمیں لکھیں ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ جیسی نظمیں۔ قائداعظم اکادمی کے ڈائریکٹر جناب شریف المجاہد صاحب درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ اپنے بلند پایہ علمی اور تحقیقی مقالات اور کتابوں کی وجہ سے علمی دنیا میں اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ ان کے مضامین ڈان جیسے مؤقر اخبار میں تواتر سے شائع ہوتے رہے۔ ان کی ساری زندگی علم و تحقیق میں گزری، ان کی محققانہ کتاب ’’دی آئیڈیالوجی آف پاکستان‘‘ پہلی مرتبہ 1974ء میں چھپی تھی، اس کے کئی ایڈیشن چھپے اور بڑی پذیرائی ملی، آخری ایڈیشن 2014ء میں چھپا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل کا خاکہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ان سے طاہر مسعود صاحب کی نیاز مندی تیس پینتیس سال پر محیط تھی۔ روزنامہ جسارت کے میگزین سیکشن میں ان کا ساتھ رہا، جہاں وہ ادبی صفحے کے نگراں تھے اور اس صفحے میں لکھنے والوں اور انٹرویو نگاروں کے متن کی پوری ذمہ داری لیتے تھے۔ سلیم احمد مرحوم کے انٹرویو پر ہنگامہ ہوا جس میں ان کے ایک سوال پر سلیم احمد نے کہا تھا کہ اسلامی ریاست میں منٹو کو ’’بو‘‘ اور عصمت چغتائی کو ’’لحاف‘‘ جیسا افسانہ لکھنے کی آزادی ہوگی تاکہ ادیب پر کوئی پابندی نہ ہو۔ انٹرویو چھپتے ہی اخبار کے سربراہ جناب محمود اعظم فاروقی مرحوم کی فون کال فوراً طاہر مسعود کے پاس آئی، وہ سخت ناراض تھے کہ کیا اب جسارت کے صفحات پر منٹو اور عصمت کی تحریروں کا دفاع کیا جائے گا! چنانچہ دونوں سے بازپرس ہوئی۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل کی ذاتی لائبریری سے استفادہ کیا اور انہوں نے طاہر مسعود صاحب کو کئی کتابیں تحفتاً دیں، اور ان کی پی ایچ ڈی کی تحقیق کے دوران کافی مدد بہم پہنچائی۔ جسارت سے تکبیر اور وہاں سے ناظم آباد گورنمنٹ کالج، پھر کراچی یونیورسٹی میں بھی ان کا ساتھ رہا۔ وہاں سے وہ پہلے اٹلی اور پھر جاپان یونیورسٹی کے شعبۂ ادب میں آٹھ نو سال رہے۔ بعد میں انہیں جاپان کے شہنشاہ کا سب سے بڑا سول اعزاز عطا کیا گیا جو پاکستان کو ملنے والا پہلا اعزاز تھا۔ افتخار عارف کے بارے میں طاہر مسعود کا کہنا تھا کہ لوگ انہیں تعلقاتِ عامہ کا آدمی کہتے ہیں۔ وہ توجہ اور اختیار پسند ہیں، وہ جب تک کراچی ٹیلی وژن سے وابستہ رہے ان کا کمرہ ہمہ وقت ادیبوں، شاعروں، عالموں، دانش وروں اور دوستوں کی آماجگاہ بنا رہتا تھا۔ طاہر مسعود کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے کہ افتخار عارف خودپسند ہیں، شہرت سے انہیں لگاؤ ہے، چاہے جانے سے جنون کی حد تک عشق ہے، لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنے کے ہنر میں وہ طاق ہیں، اس کے باوجود ان کے رکھ رکھاؤ میں شائستگی و پاسداری ہے۔ اکادمی ادبیات کے ڈائریکٹر سے مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین تک عہدہ و اختیار سے اچھی طرح مستفید ہوئے لیکن مدت سے کوئی اچھی غزل یا خوبصورت نظم ان کی سننے یا پڑھنے کو نہیں ملی۔ پروین شاکر کے خاکے میں ان کی ذات بہت کم ملوث رہی، زیادہ تر انہوں نے سن کر ان کے کوائف اور واقعات تحریر کیے۔ کہانی کار ذکاء الرحمن کو انہوں نے انوکھا کہانی کار قرار دیا ہے۔ معروف صحافی الطاف حسن قریشی کے قریبی عزیز تھے۔ ان کے افسانوی مجموعے ’’ذات کے اندر‘‘ اور دوسرا مجموعہ ’’ذکاء الرحمن کے افسانے‘‘ جس میں ان کے تین افسانوی مجموعے ’’درد آئے گا دبے پاؤں‘‘، ’’میں اور زمین‘‘ اور ’’خوابِ سنگین‘‘ جمع کردیے گئے تھے۔ وہ ایک منفرد افسانہ نگار تھے، مطالعہ بہت وسیع تھا، انگریزی ادب سے آگہی تھی، لیکن یہ منفرد افسانہ نگار بہت جلد بچھڑ گیا۔ جمال احسانی کا مجموعہ کلیاتِ جمال، اردو کی شعری دنیا میں سر چڑھ کر بولا۔ چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا لیکن یہ خوبصورت شعر کہنے والا جلد ہی کھو گیا۔ الطاف حسن قریشی سے پہلے پہل شناسائی ان کی مشرقی پاکستان میں ہوئی جب وہ ان کے والد مرحوم مسعود صاحب کے گھر کھانا کھانے آئے لیکن برسوں بعد اردو ڈائجسٹ میں طاہر مسعود کا مضمون ’’ٹوٹا ہوا پل‘‘ چھپا تو صحیح معنوں میں الطاف حسن قریشی سے بطور افسانہ نگار تعارف حاصل ہوا، بعد میں ان سے انٹرویو بھی لیا جو چھپا بھی لیکن الطاف حسن قریشی اس سے لاعلم رہے۔ طاہر مسعود لکھتے ہیں کہ اردو ڈائجسٹ کے قارئین گواہی بھی دیں گے کہ الطاف حسن صاحب نے اپنے قلم سے سرزمین پاک کے اندھیروں کو روشنی میں بدلنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ ان کی پیشہ ورانہ صحافتی خدمات، جذبہ حب الوطنی، دردمندی اور ایثار و قربانی کے ساتھ جرات اظہار سے عبارت ہیں۔ اردو ڈائجسٹ آج بھی دوسرے ڈائجسٹوں کے برخلاف اپنی وطن دوستی اور اعلیٰ صحافتی اقدار کا امین ہے اور آج بھی ادبی ذوق کی آبیاری کررہا ہے۔ طاہر مسعود صاحب الطاف حسن قریشی پر الطافِ صحافت (الطاف حسن قریشی کی شخصیت اور صحافتی خدمات) کے عنوان سے کتاب مرتب کررہے ہیں جو زیرطبع ہے۔ نوائے وقت کے بانی حمید نظامی کے جانشین مجید نظامی، ایڈیٹروں کے ایڈیٹر، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنے یا دبنے والے انسان تھے۔ نہ وہ خود لکھنے کے عادی تھے وہ صلاحیتوں کو نہ خریدنے کے قائل تھے، لاگ لپیٹ سے عاری دو ٹوک رویئے کے مالک، مزاج میں ٹھنڈک، بات چیت میں طنز و ظرافت کے حامل مجید نظامی جوڑ توڑ اور سودے بازی کے قائل نہ تھے، نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کی طرف سے ایک قومی کانفرنس ہوئی جس کا افتتاح نواز شریف صاحب نے کیا تھا اور شعبے کے لیے ایک کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان بھی کیا تھا، کانفرنس کے ایک اجلاس کی صدارت کے لیے جناب مجید نظامی لاہور سے تشریف لائے تھے، انہوں نے طاہر مسعود صاحب کو بتایا کہ بیورو کریسی کے کچھ لوگ گرانٹ کے اعلان میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ کراچی یونیورسٹی کے ایک شعبے کو اتنی خطیر رقم دی جائے۔ مجید نظامی صاحب نے طاہر مسعود کو بتایا کہ انہوں نے بیچ میں پڑھ کر وزیراعظم سے امداد کا اعلان کرادیا۔ طاہر مسعود صاحب کا کہنا ہے کہ یہ الگ بات ہے کہ اس ایک کروڑ کی گرانٹ میں ان کے شعبے کو بہت ہنگامہ کرنے پر صرف 27 لاکھ روپے ملے اور اس وقت کے وائس چانسلر نے بقایا رقم جامعہ کے ایک دوسرے شعبے کی عمارت کی تعمیر میں لگادی جس کی سربراہ ان کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ طاہر مسعود صاحب نے نوائے وقت کراچی میں جزوقتی ملازمت بھی کی، گو مجید نظامی کے نوائے وقت میں ملازمین کی تنخواہیں دوسرے بڑے اخبارات کے مقابلے میں کم رہیں لیکن قوم اور ملک کی ضرورت کے سلسلے میں انہوں نے کبھی کمی اور کوتاہی نہیں کی۔ صحافت کے معیار کو بلند کرنے، صحافیوں کی تربیت، صحافتی مسائل اور تحقیق کے لیے جب پاکستان پریس انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا اور طے پایا کہ اخبارات کے مالکان اس کے لیے فنڈز فراہم کریں گے۔ پروفیسر ذکریا ساجد اس کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے، کئی سال تک یہ ادارہ بہت اچھا کام کرتا رہا لیکن رفتہ رفتہ اخبارات کے مالک فنڈ کی فراہمی سے ہاتھ کھینچنے لگے۔ آخر میں صرف دو اخبارات کے مالکان رہ گئے جو فنڈز دیتے رہے ایک نوائے وقت کے مجید نظامی اور دوسرے ڈان کے حمید ہارون، لیکن کب تک یہ دو اخبارات انسٹی ٹیوٹ کا بوجھ اٹھاتے رہتے۔ آخر کار یہ بامقصد قومی ادارہ بعض بڑے اخبارات کے عدم تعاون کے سبب بند ہوگیا۔ مجید نظامی صاحب پوری کوشش کرتے رہے کہ یہ ادارہ بند نہ ہو لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے تو انہوں نے لاہور میں پریس انسٹی ٹیوٹ کی ایک خودمختار شاخ قائم کرلی جو ان کی نگرانی میں کام کرتی رہی۔ ابن الحسن، ورق ناخواندہ ایک ناقابل فراموش شخصیت کے حامل تھے۔ دراز قد، گورے چٹے، مردانہ وجاہت کے حامل تھے، مہذب اور شائستہ اور باوقار۔ وہ دوسروں کے بارے میں تجسس بے جا میں نہیں پڑتے تھے۔ سیاست، معیشت اور معاشرت ان کے محبوب موضوعات تھے۔ ان کے قریب رہ کر بھی ان سے دور رہا۔ ان کی زبان اور گفتگو سے طاہر مسعود نے اتنا نہیں سیکھا جتنا ان کے رویئے اور طرز عمل سے، جس نے ان کے ذہنی ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے خاموشی سے زندگی کی اعلیٰ قدروں سے روشناس کرایا۔ ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل سے ان کے لیے دعا نکلتی ہے۔ ابن الحسن ڈیفنس میں رہتے تھے لیکن انتہائی سادہ رہائش تھی۔ ملازمت کے بعد زیادہ تر گھر پر رہتے تھے۔ صحافتی تقریبوں میں بہت کم جاتے تھے۔ پاکستان اینڈ گلف اکنامسٹ کی ادارت سے مستعفی ہونے کے بعد ان کا شغل اردو اور انگریزی کالم نگاری تک محدود رہ گیا تھا، وہ اپنی طرز کے واحد کالم نگار تھے۔ مجید نظامی مرحوم، ابن الحسن کو ان کی توقع سے بڑھ کر معاوضہ دیتے تھے جبکہ ’’جملہ معترضہ‘‘ ایک مقبول کالم تھا۔ وہ بیڈ پلے ماسٹر ہونے کی شہرت رکھتے تھے۔ فوج سے سبکدوشی کے بعد وہ نیشنل بینک پر ایک اعلیٰ عہدے پر بھی رہ چکے تھے۔ جسارت سے علیحدگی کے بعد صلاح الدین صاحب نے تکبیر نکالا تو جن کئی بڑے کالم نگاروں نے بغیر کسی معاوضے کے اپنے قلمی تعاون کی پیش کش کی ان میں مشفق خواج، نصراللہ خان، ابن الحسن صاحب تھے۔ جب وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئے اور ان کی بیماری کی خبر صحافتی اور حکومتی حلقوں میں پھیلی تو وزیراعظم نواز شریف نے حکومت کے خرچ پر ان کا لندن میں علاج کرانے کی پیش کش کی مگر انہوں نے خوبصورتی سے معذرت کرلی اور بیماری اپنے ملک میں جھیلی۔ طاہر مسعود، فرہاد زیدی کو ایک کومپلککس فری، صاف ذہن والے، ذمہ دار صحافی اور منکسر المزاج مہذب شخصیت قرار دیتے ہیں۔ ان کی اہلیہ مسرت جبیں اخبار خواتین کی مدیرہ تھیں، ان دونوں کی پسند کی شادی تھی، فرہاد زیدی جن کی صحافتی زندگی کا آغاز سول اینڈ ملٹری گزٹ، اردو اخبار ملت سے ہوا اس کے بعد مرحوم حمید نظامی کے اخبار نوائے وقت میں چھ سال کام کیا۔ اس کے بعد کوہستان اخبار اور اس کے بعد مشرق میں آئے اور اخبار خواتین کی ادارت ان کے سپرد ہوئی۔ بعد میں ’’حریت‘‘ کے مدیر بن گئے اور مشرق چھوڑ دیا۔ طاہر مسعود صاحب نے جب ان کا انٹرویو لیا تو انہوں نے فرہاد زیدی سے پوچھا تھا کہ انہوں نے بھٹو دور میں ٹیلی وزن پر سیاستدانوں کے انٹرویوز لیے تھے ان میں سے سب سے زیادہ کس سیاستدان نے آپ کو متاثر کیا تھا تو فرہاد صاحب نے کہا تھا کہ جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد صاحب نے سب سے اچھے جوابات دیئے وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے، مولانا شاہ احمد نورانی نے سب سے زیادہ مایوس کیا۔ بعد میں ان کی زندگی میں کافی زیروبم آئے، صحافت سے لے کر مختلف قسم کی ملازمتیں کیں بے روزگار بھی رہے۔ طاہر مسعود صاحب کا کہنا ہے کہ فرہاد زیدی ہمارے اس نفس پرست معاشرے کے معدودے چند بے نفس صحافیوں میں سے ایک بے غرض، بے نفس صحافی تھے۔ جنہوں نے اپنی معلوم سیاسی وابستگی کے باوجود اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو انتہائی دیانتداری کے ساتھ سرانجام دیا اور اسے اپنی سیاسی وابستگی سے آلودہ نہیں کیا اور سیاسی دباؤ کو قبول نہ کیا بلکہ استعفیٰ دیدیا۔ نیّر علوی کے بارے میں طاہر مسعود کہتے ہیں کہ وہ نوآموز صحافی کے استاد تھے اور ایک اخبار ساز ایڈیٹر تھے۔ وہ انتہائی بڑے اور اہم اردو اخبارات کے بااختیار عہدوں پر فائز رہے مگر ہمیشہ سر جھکائے اپنے کام میں مصروف رہے۔ طاہر مسعود کا کہنا ہے کہ نیّر علوی مرحوم میں بے نفسی کے باوجود جرات رندانہ کا فقدان تھا جو جسارت کے ایڈیٹر صلاح الدین میں تھی، جنہوں نے ان کے موقف کے خلاف طاہر مسعود کے کالم کو قلم زد کرنے کے بجائے شائع کردیا۔ بقول طاہر مسعود، نیّر علوی خاموشی سے اس دنیا سے کوچ کرگئے، انہیں کوئی بھی یاد نہیں کرتا، ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اس بے وفا کوچے کو اچھے وقتوں میں خیرباد کہہ دیا۔ پروفیسر غفور احمد، طاہر مسعود صاحب کے لیے ستّر کی دہائی سے ایک معمّا بنے رہے، ان سے بارہا ملاقاتیں کی، کئی انٹرویوز لیے، ان کے خیالات سے استفادہ کیا اس کے باوجود وہ ان کے لیے معمہ رہے۔ وہ زندگی اور اس کی رونقوں سے بے نیاز، عزت، شہرت، قربِ اقتدار کے باوجود اپنوں اور بیگانوں میں یکساں واجب احترام شخصیت تھے۔ قدرت نے ان کی طبیعت میں احساسِ بندگی کو ایسا رچا بسا دیا تھا کہ شہرت کے بام عروج پر پہنچ کر بھی ویسے ہی رہے جیسے گوشہ گمنامی میں رہے۔ 1973ء میں سیاستدانوں کے انٹرویوز کے بارے میں فرہاد زیدی سے ان کے انٹرویو کی تعریف سن چکا تھا۔ ڈان نے پروفیسر صاحب کی برجستگی اور حاضر جوابی پر ان کی شان میں ایک اداریہ لکھ دیا تھا، ان کے بڑے بیٹے طارق فوزی کے بارے میں طاہر مسعود لکھتے ہیں کہ وہ سید مودودی کے چھوٹے صاحبزادے خالد فاروق کی طرح انتہائی سیدھے سادھے، اللہ میاں کی گائے تھے، بڑی شخصیت کی اولاد کے احساس برتری سے عاری، طارق فوزی نے طاہر مسعود کو پوچھنے پر بتایا کہ ’’ابا کہتے ہیں کہ اپنا مستقبل خود بناؤ، میرا کام تمہیں لکھانا پڑھانا تھا، وہ میں نے کردیا‘‘۔ وہ وزیر اور معروف سیاستدان ہوتے ہوئے بھی اپنی سگی اولاد کے لیے کوئی سفارش نہیں کرتے تھے۔ پروفیسر صاحب کی سیاسی بصیرت، برجستگی اور قدر شناسی کے ایک دو واقعات کا ذکر کرتے ہوئے طاہر مسعود لکھتے ہیں کہ ان کے انصاف پسند رویئے سے پروفیسر صاحب کی عزت تو تھی ہی اس میں محبت بھی شامل ہوگئی۔ وہ ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیر نہیں بننا چاہتے تھے لیکن امیر جماعت میاں طفیل محمد کے اصرار پر پارٹی ڈسپلن کے سبب بنے۔ کراچی جماعت، مرکزی جماعت سے اختلاف رکھتی تھی۔ وہ بھٹو کی پھانسی کے بھی مخالف تھے۔ ضیاء الحق کے ریفرنڈم کے بھی حامی نہ تھے۔ جنرل ضیاء کی اسلامائزیشن پالیسی ممحض دکھاوا تھی اور نہ مرحوم نے سود کا خاتمہ کیا۔ مارشل لاء کے ضابطوں کو اپنے اقتدار کی بالادستی کی وجہ سے اسلامی احکامات سے بالا رکھا۔ صرف دکھاوے کے لیے ایک دن سائیکل چلا کر دکھائی جس پر لاکھوں روپے خرچ کرڈالے۔ عملاً نہ تو اسلام نافذ کیا اور نہ عوام کے بنیادی مسائل حل کیے۔ جماعت اسلامی کے اکابرین کی بصیرت پر ضیاء الحق کی عقیدت حاوی تھی اور میاں طفیل محمد جیسا درویش صفت ضیاء الحق کے نام نہاد اسلام سے دھوکھا کھاگئے لیکن ایک قومی اتحاد اور نظام مصطفی جیسی منظم عوامی تحریکوں کے ایک قائد غفور احمد کیسے دھوکا کھا سکتے تھے جنہوں نے مذاکرات کی میز پر ایک ڈکٹیٹر سے پنجہ آزمائی کی تھی اور سرخرو رہے تھے۔ ضیاء الحق نے کراچی جماعت کو سزا دینے کے لیے غوث علی شاہ کو ان پر مسلط کیا تھا اور ایم کیو ایم کو آگے بڑھایا تھا اور شہر کے درویش اور انتہائی دیانت دار میئر عبدالستار افغانی کے موٹر وہیکل ٹیکس پر جائز احتجاج پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کو توڑ دیا اور میئر افغانی کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا تھا اور کراچی کو ایم کیو ایم کے حوالے کردیا تھا جس کے نتیجے میں کراچی لسانی عصبیت، آگ اور خون اور لاشوں کی سیاست کی آماجگاہ بن کر رہ گیا اور آج تک بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، ڈاکٹروں کی قتل و غارت گری، اغواء برائے تاوان جیسے عذابوں سے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کرسکا ہے۔ معراج محمد خان صحافیوں کے رہنما منہاج برنا مرحوم کے چھوٹے بھائی تھے۔ ان کی زندگی ایثار و قربانی سے عبارت تھی۔ ان کی شہرت ایوب خاں کے دور میں طالب علم رہنما کی حیثیت سے ان کی حق گوئی اور شعلہ بیان مقرر کی حیثیت سے ملک گیر تھی۔ جنوری 1953ء میں طلباء کے ایک جلوس پر پولیس فائرنگ سے آٹھ طلباء ہلاک ہوگئے، کمیونسٹ پارٹی اور بعد میں طلبہ میں اس کی ذیلی شاخ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن پر بھی پابندی لگ گئی تھی جس کے بعد بائیں بازو کے اکثر طلبہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوگئے اور اسے بائیں بازو کی تنظیم بنادیا۔ اس زمانے کے نامور طلبہ رہنماؤں میں شیر افضل ملک، فتح یاب علی خاں، جوہر حسین، علی مختار رضوی، حسن نقی، امیر حیدر کاظمی، اقبال میمن، انور احسن صدیقی، ڈاکٹر سید حسن خان اور معراج محمد خاں تھے۔ این ایس ایف س وقت بھی زیرزمین جماعت کمیونسٹ پارٹی سے منسلک تھی۔ معراج محمد خاں نے 1961ء میں کانگو کے مقبول رہنما اور وزیراعظم لومبا کے قتل، 1963ء میں ایوب حکومت کے نافذ کردہ تین سالہ ڈگری کورس، 1966ء میں معاہدہ تاشقند کے خلاف مظاہرے، ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ایوب خاں کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت، پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد معراج محمد خاں، بھٹو صاحب کے بہت قریب ہوگئے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد کے واقعات اور بعد کے حالات نے بھٹو کے اصل چہرے کو بے نقاب کردیا۔ مولانا کوثر نیازی، بھٹو کے قریب اور معراج محمد خاں دور ہوتے گئے بعد میں مزدوروں پر لاٹھی چارج ہوا، بلوچستان میں نیپ کی حکومت کو برطرف کردیا گیا تو معراج محمد خاں خاموش نہ رہ سکے اور باآواز بلند احتجاج کیا۔ اس پر انہیں بھی قید کردیا گیا۔ ضیاء الحق کے آنے پر انہیں رہائی ملی۔ ضیاء آمریت کے خلاف بھی خم ٹھونک کر نکلے۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں شامل ہوگئے آخر میں وہ عمران خاں کی تحریک انصاف میں شامل ہوگئے مگر جلد ہی مایوس ہوکر عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند اور صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزرا۔ انہوں نے ایوان صدر میں اپنے بھائی کا تمغہ تو وصول کرلیا مگر ان کا سینہ ہر تمغے سے محروم رہا اور اس کی انہیں تمنا بھی نہ تھی۔ حسین حقانی کے بارے میں ان کا یہ مضمون جو اس کتاب سے پہلے بھی شائع ہوچکا ہے، جس میں انہوں نے ان کے ہمراہ گزرے ہوئے ماہ و سال کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ان کے عروج و زوال کا حال اپنے تبصروں کے ساتھ پیش کیا۔ پاکستان کے مختلف حکمرانوں کے التفات سے مستفید ہوتے رہے۔ ضیاء الحق، نواز شریف اور بعد میں محترمہ بے نظیر بھٹو، وہ مشرف دور میں تو وزارت حاصل نہ کرسکے مگر بعد میں صدر آصف علی زرداری کو اپنی گفتگو سے شیشے میں اتار لیا اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر تعینات ہوگئے۔ وہ پاکستان سے زیادہ امریکہ کی سفارت کاری کرتے رہے اور بے شمار امریکی ایجنٹوں کو ویزے اور ویزے کے بغیر پاکستان بھجوایا، میمو گیٹ اسکینڈل کے بعد تو الطاف حسین کی طرح پاکستان واپسی کا راستہ ان کے لیے بھی مسدود ہوکر رہ گیا۔ حسین حقانی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر مسعود نے حقانی کی موقع پرستی، رشوت لینے دینے، لفافہ کلچر، محسن کشی اور دیگر چالبازیوں کا ذکر برسرعام کیا ہے۔ لیکن محاسن کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ عیوب اور برائیوں کو اجاگر کرنا کوئی کارِخیر نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی جواں مرگ سیاستداں فوزیہ وہاب اور انکل عرفی کی مرکزی کردار شہلا احمد جو کراچی یونیورسٹی میں ان کی استاد بھی رہی ہیں کے بارے میں ان کے خاکے بہت مختصر ہیں جن میں کوئی ندرت اور اہم معلومات و خوبیاں اور کوتاہیوں کا ذکر ہو۔ یہ خاکے قریب سے نہیں بلکہ دور سے بنائے گئے ہیں۔ ایک بزرگ عارف باللہ حکیم محمد اختر کے مختصر خاکے میں مصنف کا ذکر صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ان کے کچھ وعظوں میں شرکت کی تھی اور سیکولر میڈیا کی طرف سے ان کے انتقال کی خبر نظر انداز کرنے کے باوجود ان کے جنازے میں ایک لاکھ سے زیادہ شہریوں نے شرکت کی۔ خانقاہ امدادیہ اشرفیہ اور جامعہ اشرف المدارس قائم کیے جس سے آج بھی ہزاروں طلبہ علمی اور دینی طور پر فیضیاب ہورہے ہیں۔ انہوں نے سو سے زیادہ چھوٹی بڑی علمی، ادبی او تراجم کی شکل میں تصانیف چھوڑی ہیں ان کی بہت سی کتابوں کے تراجم دنیا کی چالیس زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل اوج کے خاکے ’’اوج سے موت تک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب وہ میرے پڑوس کے بنگلے میں منتقل ہوئے تو مجھے پتا چلا کہ ان کے گھر میں ان کی ایک بہت عمدہ ذاتی لائبریری ہے جس میں تفاسیر کی کتابیں اور مذہبی امور پر تصانیف شامل تھیں۔ وہ میرے انٹرویو کی کتاب ’’یہ صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ اور شخصی خاکوں کے مجموعے ’’کوئے دلبراں‘‘ کو ستائش کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کتاب کی رونمائی کی تقریب میں کراچی یونیورسٹی میں اس کتاب پر ایک مضمون بھی پڑھا۔ طاہر مسعود کا کہنا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ کہ قرآن حکیم کی فلاں آیت کا جو مفہوم جس طرح میں نے سمجھا ہے کسی مفسر نے نہیں سمجھا اور ان کی یہی بات مجھے بہت کھٹکتی کہ انہیں اپنے علم و فضل اور قرآن فہمی پر کچھ زیادہ ہی ناز تھا۔ اس لیے میں ان سے دینی اور مذہبی مسائل گفتگو میں گریز کرتا تھا۔ وہ موسیقی کو بالکل جائز اور فلمی موسیقی کو بھی حلال سمجھتے تھے اور شریعت کے خلاف نہیں گردانتے تھے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ہر کتاب کا پہلا نسخہ مجھے دیتے اور میں اسے بغیر پڑھے الماری میں رکھ دیتا تھا۔ انہوں نے جب ایک نئی کتاب تصنیف کی تو میرے پاس لائے اور کہنے لگے کہ میں نے آنحضرتؐ کی سیرتِ مبارکہ پر ایک کتاب مرتب کی ہے ’’صاحبِ قرآن‘‘ مجھے بڑی مسرت ہوگی اگر آپ اس کا دیباچہ لکھ دیں۔ یہ سن کر میں کانپ گیا۔ انکار کر نہ سکا حامی بھرلی۔ بعد میں مسودہ پڑھا تو میرے تو چھکے چھوٹ گئے۔ مصنف نے دلائل کے ساتھ مسلمانوں میں رائج معروف اور مسلمہ حقائق کی تردید کی تھی اور غلط بتایا تھا میں نے کتاب کو مزید پڑھا اور مسودے کو رکھ دیا اور بعد میں اصرار کے باوجود دیباچہ لکھنے سے معذرت کرلی۔ لیکن ڈیڑھ سال کے بعد ایک اور مقالات کی کتاب کا مسودہ لے کر آئے جو ان کے بقول ان کے اس زمانے میں لکھے گئے جب وہ روایتی اسلام کے قائل تھے۔ میں نے پڑھ کر ایک ہی نشست میں ایک طویل دیباچہ لکھ مارا جس کا عنوان یہ تھا ’’فکرِ اوج سے اوجِ ثریا تک‘‘ اور ان کی خدمت میں پیش کردیا جس کو انہوں نے بہت پسند فرمایا اور کہنے لگے آپ نے ایسا دیباچہ لکھ دیا ہے کہ جو اس کو پڑھ لے گا اس کے بعد میرے مضامین کون پڑھے گا‘‘۔ اس کتاب کے آخری سے پہلے عشاق سائنس ’’عظمت علی خاں‘‘ کا خاکہ ہے جو سائنسی صحافت کا مضمون ملکی جامعات کے نصاب میں شامل کرانا چاہتے تھے ان کے دلائل سو فی صد درست تھے لیکن نصاب میں ایک نیا مضمون شامل کرنا آسان نہ تھا۔ ’’سائنسی ادب‘‘ اور ’’سائنسی مشاعرہ‘‘ ان کی اختراع تھیں۔ خاکوں کے اس مجموعے کی ایک بہت اہم خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں ذاتی تعلقات کے ساتھ ساتھ معاشرتی پہلو بھی نمایاں ہیں، دلچسپ اندازِ بیان اور معلومات افزا مضامین اس میں شامل ہیں، کتاب کے خاکوں کو پڑھنے کے بعد کئی معروف شخصیات کی کئی پوشیدہ خوبیاں اور خامیاں نظر میں آتی ہیں، کتاب کی قیمت کچھ زیادہ ہے جو اس کی مقبولیت اور فروخت میں مانع رہے گی۔

تبصرہ نگار: محمود عالم صدیقی mahmoodalam.siddiqui@yahoo.com فرائیڈے اسپیشل