سچی باتیں۔۔۔ صبر کا مہینہ ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

07:21AM Sat 9 Apr, 2022

1940-10-21

’’کہا جاتا ہے کہ جنگ میں اعلیٰ فیصلہ کن چیز لڑنے والوں کی ہمت ہے، اورتجربہ نے ثابت کردیا ہے کہ یہ قول دوسرے بہت سے مقولوں سے کہیں زیادہ صحیح ہے‘‘۔ یہ ایک انگریز اخبار نے حال میں اپنے ایڈیٹوریل  میں لکھا، اور آگے پھر لکھا ، کہ ’’سامان کی فراوانی، اسلحہ کی تیزی اور جگمگاہٹ اور قواعدداں فوج کی کثرت تعداد، ان سب چیزوں کا بھی اثر ضرور پڑتاہے، مگر مختص جنگوںمیں۔ طویل ومسلسل جنگ میں اعلیٰ اہمیت کی چیز ہے ہمت، ہمت افراد واشخاص کی بھی، اور ہمت مختلف طبقات اور ساری قوم کی بھی‘‘۔ لیکن یہ ہمت پیدا اور قائم کیونکر ہو؟ (خلاصہ اُسی انگریز روزنامہ کا چل رہاہے)۔ ہمت کا تعلق دین واخلاق سے ہے ، اور

’’مبصرین متفقہ طور پر کہہ رہے ہیں، کہ مغربی تمدن کی اخلاقی بنیادوں کی چولیں ڈھیلی ہوچکی ہیں، مطلق العنانی ، بے دینی اور بے قیدی یہ تینوں چیزیں کوئی تین پشتوں سے مغربی معاشرہ میں گھُن لگاچکی ہیں، اور ابھی تک اس کا کوئی بدل پیدا نہیں ہوسکاہے‘‘۔

یہ چیز جسے دنیا ہمت کے نام سے پکارتی ہے، اور جس کی قدر آج پھر معلوم ہوئی ہے، جیسی کہ ہرزمانہ میں معلوم ہوتی رہی ہے، مذہب نے اس کا نام ’’صبر‘‘ رکھاہے۔ اور صبر کی فضیلتوں سے قرآن کی آیتیں لبریز ہیں۔ اللہ کی نصرت صابروں کے ساتھ رہتی ہے۔ صبر اگر درجۂ اوسط میں بھی ہو تو سو صابر دوسو کی تعداد پر، اور ہزار صابر دوہزار کی جماعت پر غالب آسکتے ہیں۔ اور صبر اگر درجۂ اعلیٰ میں ہوتا تو سوصابر، ایک ہزار کے مقابلہ کے لئے کافی ہیں! یہ قرآنی تشریحات اور خدائی وعدے ہیں۔ اور صبر پیداکرنے والی، صبر بڑھانے والی چیز جو ہے وہ ایمان کی قوت اور مضبوطی ہے۔ جس نسبت سے ایمان قوی ہوگا، اُسی درجہ میں صبر بھی اعلیٰ ہوگا۔ آخرت کا استحضار ہمہ وقتی ہوگا۔ موت محض انتقال مکانی کا نام رہ جائے گا۔ رضائے الٰہی کی جنت کا تخیل ’’قال‘‘ نہیں’’حال‘‘ بن کر رہے گا۔اور تشکیک کی پیدا کی ہوئی بیماری، تشویش قلب وتذبذب ہے، اور ’’روشن خیالی‘‘ کی پیدا وار بے عملی اور بدعملی سے نجات رہے گی۔

’’روشن خیال‘‘ وتشکیک دوست فرانس ، قلب وروح کی انھیں بیماریوں کی نذر ہوکر ختم ہوگیا……بیماریاں جنھیں فخر کے ساتھ پالاگیاتھا!……برطانیہ کی قسمت اچھی تھی، عین وقت پر سنبھل گیا۔ اسلام کی ساری عبادتوں میں ، انفرادی عبادتوں میں بھی اور اجتماعی عبادتوں میں بھی، روزانہ عبادتوں میں بھی اور سالانہ عبادتوں میں بھی یہ ہمت افزائی اور تقویت صبروالا پہلوکہیں بھی نظرانداز نہیں ہونے پایاہے۔ روزانہ پانچ پانچ وقت کی نمازیں ، پھر نمازوں کی جماعتیں، مسجدوں کی حاضری، حج کا سالانہ اجتماع، اور اس اجتماع کے موقع پر مختلف تقریبیں،زکوٰۃ کی پابندیاں، اس کی تاکید، یہ سب اپنی اپنی جگہ پر اسی سبق کی درسگاہیں ہیں،مستقل ، اور مستمر عسکر اسلامی کے Moraleکو قائم کرنے کی تدبیریں ہیں، اور سب سے بڑھ چڑھ کر رمضان کا پوراماہ مبارک۔دن دن بھر بے آب ودانہ رہ کر سارے کام کاج کئے جانا، رات کو لمبی لمبی رکعتیں تراویح وتہجدکی پڑھے جانا، شب قدر کی تلاش میں رات رات بھر جاگتے رہنا، یہ بے مثل وبے مثال نظم، نظام، مجاہدہ روحانی، جسمانی، انفرادی واجتماعی کی یہ بے نظیر تنظیم، اپنا جواب دنیا کس مذہب، کس تمدن میں رکھتی ہے؟……اور آج ابلیس کی ہر ضرب کتنے مختلف اور خوشنما ناموں سے، اسی تنظیم پر ہے! کہ جس وقت کسی فوج کا Moraleتوڑدیا، پھر اُسے زیر کرلینا، اُس کی صفوں کو زیروزبر کرڈالنا کام ہی کتنی دیر کا رہ جاتاہے؟