آئینی حقوق ،انصاف ،مساوات ،آزادی کے تقاضے کب پورے ہوں گے؟

Bhatkallys

Published in - Other

03:44PM Mon 30 Nov, 2015
اقلیتوں کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کی مذموم کوششیں تیز عبدالوہاب حبیب۔(ریسرچ اسکالر ۔ شعبہ صحافت ۔اورنگ آباد) دستور کسی بھی ملک کا بنیادی قانون ہوتا ہے جس کے تحت سبھی شعبہ ہائے زندگی کیلئے کاموں کو انجام دینے کیلئے قوانین تیار کیے جاتے ہیں۔بھارت کو آزاد ہوئے تقریباً سات دہائی ہونے کے قریب ہیں اور ہمارے اس آزاد ملک میں ابھی بھی انہی آزاد شہریوں کے تیار کردہ دستور پر عمل کیا جانا باقی ہے۔آئین ہی کے ایک اہم جز ’’تمہید‘‘(Preamble) کو بنیادی ڈھانچہ کی سی اہمیت ہے۔جس میں بھارت کے ہر شہری کو آزادیاں و مراعات دینے کا اعادہ کیا گیا ہے۔اسی تمہید کو ارنیسٹ بیکر نے کہا تھا کہ ’’تمہید آئین ،دراصل بھارت کے دستور کا نچوڑ ہے۔جبکہ بھارگو نے کہا تھا کہ’’تمہید آئین کی روح ہے۔‘‘اسی ضمن میں سپریم کورٹ نے 1973کے پیشوا نند بھارتی کیس میں کہاتھا کہ ’’تمہیدیہ دستور کا جزو لاینفک ہے۔‘‘اسی تمہید میں سارے آئین کو بہ مصداق سمندر کو کوزے میں سمایا گیا ہے جس کی بنیاد پر ہم بھارت شہری حقیقی آزادی کا تصور کر سکتے ہیں۔ موجودہ بھاجپا حکومت میں دستور کو تبدیل کرنے کے بیانات سے ملک میں ایک بھونچال سا آگیا ہے۔حکومت پر قابض ہوتے ہی بے جے پی قائدین کے بیانات سے عیاں ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت دستور کے تبدیلی کی خواہاں ہیں نیز مرکزی حکومت کے حالیہ اشتہار میں قدیم دستور کو استعمال کیا گیا جبکہ نئے دستور کے الفاظ ’’سوشلسٹ و سیکولر ‘‘کو حذف کیا گیا ہے۔جمعہ کو اپنے بیان میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سمت میں تبصرہ کرنے سے گریز کیا ۔حالانکہ انہو ں نے کہا کہ دستور میں تبدیلی خودکشی کے مترادف ہو گی لیکن بی جے پی حکومت کے قول و فعل میں ہمیشہ تضاد رہا ہے۔اگر ہم آئین ہند سے پوری طرح واقف نہ بھی ہوں تو تمہید سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح آزاد ہند کی بعد دستور ساز اسمبلی نے نہایت جانفشانی کے ساتھ عظیم مقاصد کے تحت دستور تیار کیاہے ۔کسی بھی حکومت کو جمہوری حکومت اسی وقت کہا جا سکتا ہے جب وہ انصاف،آزادی ،مساوات ،اور اخوت کے تقاضوں کو پوار کر سکیں۔مندرجہ ذیل عناوین کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ہی آئین اور ہندوستانی قوانین بنائے گئے ہیں جو اس طرح ہیں۔ انصاف: اس میں سماجی ،معاشی ،سیاسی انصاف شامل ہیں ۔ آزادی: خیالات،اظہار رائے،عقیدہ،ایمان اور عبادت کی آزادی شامل ہے۔ اخوت : ہر فرد کا وقاراور ملک کی سالمیت کیلئے کوششیں شامل ہیں۔ اب ہم ان نکات کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ آزاد ی ہند کے بعد سے حکمران کانگریس حکومت اور موجودہ بی جے پی حکومت نے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ ان دستوری انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کبھی ایماندارنہ کوشش نہیں کیں۔مسلمانوں کے سماجی انصاف کی بات کی جائے تو آج بھی تقسیم ہند کا جواز دیتے ہوئے سب سے بڑی اقلیت کو اس کا مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے جبکہ عیاں ہیکہ 1857کے غدر میں سب سے زائد مسلمانوں نے خون بہایااور آزاد بھارت کیلئے اپنی جان و مال تک کو نچھاور کردیا۔لاکھوں علماء کرام،صحافیوں اور دانشوروں کو انگریزوں نے قتل کیا اس کے برعکس زعفرانی طاقتیں انگریزی حکومت کی دلالی کرتی رہی۔سماجی انصاف میں مزید کہ مسلمانو ں کو دوسرے درجہ کے شہری کے نظریہ سے دیکھا جا تا رہا ہے۔ریزرویشن ،دہشت گردی کے معاملات میں مسلم قوم کو اس طرح الجھا دیا گیا کہ وہ بجائے مستقبل کی فکر کرتے اسی پر مرکوز ہو گئے۔مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزمات میں اس قدر پھنسایا گیا کہ عدالتوں میں اس کی تہہ کھلتے کھلتے کئی سال گذر گئے اور بالآخر ان بے کس و بے بس نوجوانوں کو باعزت بری کیا گیا۔حکومتوں کو رویہ یہی تک محدود نہیں رہا یہ بات تو ہوئی با عزت بری ہونے کی ۔لیکن ان دہشت گرد کارروائیوں کے اصل مجرم کون ہیں ؟ اس کا پتہ لگانا بھی کیا ضروری نہیں ؟معاشی انصاف میں حکومتی وزارتیں ،سرکاری ملازمتوں میں تناسب،خودکفیل و روزگار بنانے کے مواقع شامل ہیں لیکن انتخابات میں عوام بالخصوص مسلمانو ں کو جھوٹے وعدے کیے گئے ۔جیسے ہی انتخابات ختم ہوئے مسلمانوں سے رویہ سابق طرز کارہا۔ملک میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے کتنی فیصد وزارتیں دی گئیں؟ کتنے فیصد ملازمتیں دی گئیں؟ کیا مسلمان کو ریزرویشن نہیں دیا جانا چاہیے؟ صنعتوں میں کتنے فیصد مسلم ہیں؟ کتنے فیصد مسلم نوجوان آج بھی بیروزگاری کے دہانے پر کھڑے ہیں؟سیاسی انصاف میں تو کانگریس کی دوغلی پالیسی کی جتنی مثالیں دی جائیں اتنی کم ہیں۔مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرکے انہی پر وار کرنا کانگریس کا شیوہ رہا ہے۔کیوں آزادی کے بعد سے مسلم کانگریس کو ووٹ دیتے رہے؟ کیوں کانگریس کو مسلمانو ں نے ہمیشہ مضبوط کیا؟ کیونکہ وہ ایک ’’سیکولر ‘‘ حکومت تھی بھلے ہی نام نہاد ہو۔اور متبادل سیاسی تنظیم نہ ہونے کا فائدہ بھی کانگریس نے ہمیشہ اٹھایا۔کیوں مسلم سیاستدانوں کو ہمیشہ اہم قلمدانوں سے دور رکھا گیا؟انتخابات کے دوران کیوں مسلم شخصیات کو ٹکٹ سے محروم کرکے اسے دیگر افراد کو دیا جاتا رہا ؟کیاکسی بھی قومی پارٹی کو ایک قوم (جو کہ اس کے نام پر آنکھیں بند کرکے ووٹ دیتی تھی )کے ساتھ یہ رویہ دستوری حقوق کے عین مطابق تھا؟اسی طرح دستور میں آزادی کا لفظ استعمال ہوا ہے جو انتہائی جامع مفہوم کے ساتھ سمایا ہوا ہے۔آزادی کے زمرہ میں بنیادی طور پر جو نکات شامل ہیں اس میں خیالات،اظہار رائے،عقیدہ،ایمان اور عبادت کی آزادی شامل ہے۔ویسے آزادی کے بعد سے مسلمانو ں کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کا تعصب پرستی کا رویہ رہا ہے۔اولین طور پر خیالات کی آزادی کے تناظر میں سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہے جس میں تشدد پسند زعفرانی تنظیموں کو یکطرفہ کھلی چھوٹ دی جاتی ہے ۔ان کے بیانات سے ملک کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا بلکہ بقول حکمرانوں کے وہ اکثریتی قوم کی ترجمانی کرتے ہیں۔حقیقی سیکولر کے تانے بانے کو مضبوط کرنے کی کوشش کوئی کرتا ہے تو اسے مہاتما گاندھی،ایڈوکیٹ شاہد اعظمی ،نریندر دابھولکر،کلبرگی ،گووند پانسرے کی مثالیں دے کر ان جیسا حشر کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ملک میں بڑھتی عدم تحمل کی لہر نے مودی حکومت کا خیمہ ڈھیلا کردیا ہے جس سے ہندتو کے خواب دیکھنے والے شدت پسند وں کی راتیں بھی لمبی ہو گئی ہیں اور وہ دن رات میڈیا اور سوشل نیٹورکنگ سائٹس پر اقلیتیوں اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی جڑوں کو کمزور کرتے نظر آرہے ہیں۔اسی ضمن میں شاہ رخ،عامر خان صرف آئینہ دکھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو انہیں جان سے مارنے کی تک دھمکی دی جاتی ہے۔کیایہی ’تحمل اور اخوت ‘ہے ؟کیا آئین ہند پر حلف بردای لے کر اسی کی پامالی اخلاقی و قانونی لحاظ سے جائزہے؟ آزادی کے مفہوم میں عقیدہ،ایمان اور عبادت کی آزادی کا شمار ہے لیکن اس آزادی کو چھیننے اور حقوق کو سلب کرنے کی کوششیں بھی تیز ہوئی ہیں۔عوام کے ذریعہ منتخبہ ممبر آف پارلمنٹ ووٹ دینے کے حق کو چھیننے کی بات کرتا ہے تو اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔۳ فیصد سے بھی کم آبادی تناسب رکھنے والے فرقہ کی مذہبی و عقیدہ کی آزادی کو مد نظر رکھتے ہوئے گوشت پر پابندی لگائی جاتی ہے۔گائے کے نام پر گوشت خوروں کو ان کے کھانے سے محروم کر دیا جاتا ہے۔کسانو ں کے اے ٹی ایم کہلائے جانے والے بیلوں کے ذبیحہ پر بھی پابندی لگائی جاتی ہے لیکن انہیں متبادل راستے اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ایمان و عقیدہ کی آزادی کا ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے لیکن روزہ رکھنے کے باوجود ملازم کے منہ میں جبراً روٹی ٹھونسی جاتی ہے ۔اسی وجوہات کے باعث ملک کے حقیقی سیکولر ادیبوں ،شاعرو ں،دانشوروں،سیاستدانوں نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف(نہ کے حکومت کے خلاف) آواز اٹھائی تو انہیں پاکستان ،بنگلہ دیش بھیجنے جیسے بیانات شائع ہوتے ہیں۔کیا ملک کی رواداری کو ان فاشسٹ طاقتوں سے خطرہ نہیں چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں؟ مساوات جمہوری حکومت کی بنیاد ہوتی ہے جسے فراہم کرنے میں کانگریس مسلسل ناکام رہی اور اسے کا خمیازہ اسے 60سال کے لمبے عرصے بعد ملا کیونکہ مسلمانوں کو آبادی کے مطابق سماجی و سیاسی مقام نہیں دیا گیا۔سہولتوں،اسکیمات،مراعات تو خوب تیار ہوئے لیکن نفاذ کے نقطہ نظر سے 90فیصد نظر انداز کیے گئے اور انہی غلط سیاسی پالیسیوں کے باعث ہمارے شیر و شکر ،متحد کہلائے جانے والے ملک کی عبارت بے معنی سی ہو گئی۔ہر ریاست،ہر مذہب،ہر زبان،ہر گروہ کے مسائل دن بہ دن بڑھتے چلے گئے جو اب مرکزی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں۔بی جے پی وزراء و زعفرانی لیڈروں کے حالیہ بیانوں سے ان کے نہ صرف ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ ملک میں موجود انفرادی و اجتماعی بنیادی حقوق کو سلب کرنے کی سازشوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔مسلمانوں کے سیاسی و سماجی حالات کی ایک جھلک سچر کمیٹی اور محمود الرحمن کمیٹی میں دکھائی گئی لیکن خود کانگریس کے رویہ سے صاف تھا کہ دیکھو ہم نے مسلمانوں کا کیا حشر کردیا۔آزاد ہند کے خواب دیکھنے والے مہاتما اندھی،مولا نا ابوالکلام آزاد،نہرو ،دستور تیار کرنے میں مرکزی کرداد ادا کرنے والے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ جس آزاد بھارت کیلئے وہ انتھک محنت کر تے رہے اور اس خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کے بعد انہی شہریوں کو دیگر ذرائعوں اور پالیسیوں سے اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا جائے گا۔بی جے پی نے ’ سب کا ساتھ ۔سب کا وکاس ‘ کا نعرہ لگا کر حکومت تو حاصل کرلی لیکن اس کے بعد سے دستوری حقوق کی پامالی بھی انتہائی شرمناک طریقہ سے جاری ہے۔کسیملک کی سب سے بڑی اکثریت قوم کو نظر انداز کرکے ،ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کرکے اور حقوق نہ دیے جانے سے ملک کی ترقی و خوشحالی ممکن ہی نہیں۔مسلمانوں کے بنیادی مسائل کے حل انہی دستوری حقوق میں پوشیدہ ہیں جسے عطا کرکے ملک کی فلاح و تعمیر کی راہ ہموار کرکے تاریخ رقم کی جا سکتی ہے۔حالانکہ مسلمانوں کی جانب سے ان دستوری حقوق کی فراہمی کا مسلسل مطالبہ ہوتا رہا لیکن مفاد پرستی اور ووٹ بینک کے نظریہ سے اب تک ہندوستانی رہنماء اوپر نہیں جا سکے اور ا س کی ضرب بالراست ملک کو ہی اٹھانی پڑ رہی ہے۔مستقبل قریب میں دیکھنا تو یہ ہو گا کہ محض 31فیصد ووٹوں کی بنیاد پر ملک پر قابض حکومت ملک کے 100فیصد آبادی کیلئے دستور میں کس طرح تبدیلی کرتی ہے جس سے سب کے اچھے دن آجائیں۔