کانگریس صرف اپنی خبر لے دوسروں پر نہ برسے

حفیظ نعمانی
مرکزی حکومت میں توسیع نئے وزیروں کی شمولیت اور 6 وزیروں کی چھٹی پارٹی کا ذاتی مسئلہ ہے۔ اور یہ بھی سیاسی روایت ہے کہ مخالف پارٹیوں کو ہر حال میں اعتراض کرنا ہے۔ کانگریس نے اسے ووٹ بٹورنے کی تیاری بتایا ہے اور مس مایاوتی نے کہا ہے کہ یہ انتخابی ڈرامہ ہے۔ کانگریس کو کم از کم ایسا تبصرہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس لئے کہ اس ملک میں ہر حکومت کے لئے سب سے اہم کام ووٹ بٹورنا ہی رہ گیا ہے۔ اور اس کی ذمہ دار بھی کانگریس ہے جس نے 1967 ء کے بعد صورت حال ایسی بنادی کہ اب ملک میں صرف الیکشن ہوتے ہیں اور پارٹیوں کا کام صرف الیکشن جیتنے کے لئے جوڑتوڑ کرنا رہ گیا ہے۔ دو مہینے پہلے شری مودی نے جنرل الیکشن دوبارہ کرانے کی بات کی تھی۔ دوسری پارٹیوں اور صحافیوں کی بات ہم نہیں کہہ سکتے۔ لیکن ہم نے پورے زور شور سے اس کی تائید کی تھی۔ کیونکہ حکومت کے وزیر بن جانے کے بعد انسانوں کے دماغ دو نہیں ہوجاتے اور جب ایک ہی رکھتا ہے تو وہ ایک ہی کام کریں گے۔ یاتو اپنے علاقہ کے تمام ووٹ پارٹی کو دلوانے کی کوشش کریں گے یا عوام کی بھلائی کے منصوبوں پر عمل کریں گے۔ عوام ان سے بھلائی کے کام چاہتے ہیں اور وزیراعظم یا ان کی پارٹی ان سے ووٹ چاہتی ہے۔ ظاہر ہے وہ حکومت کی اور پارٹی کے حکم کی تعمیل کریں گے۔
1967 ء کے بعد کانگریس نے بھی یہی کیا ہے۔ اگر وہ خود ہی اندرا گاندھی کی اس غلطی کو سدھار دیتی تو آج کوئی یہ نہ کہتا کہ مودی جی نے وزارت میں ردّوبدل صرف ووٹ بٹورنے کے لئے کیا ہے۔ اور نہ کانگریس کو صرف ووٹ کے لئے دہلی کی شکست خوردہ وزیر اعلیٰ مسز شیلا دکشت کو لانا پڑتا اور نہ ان کے منھ سے یہ کہلانا پڑتا کہ میں اُترپردیش کی بہو ہوں۔ اوماشنکر دکشت کانگریس کے بزرگ لیڈروں میں رہے ہیں۔ اور وہ بھی اس خاندان کے دکشت تھے جو اُترپردیش کے اس وقت وزیر داخلہ تھے جب ویربہادر وزیر اعلیٰ تھے اور جس وقت میرٹھ میں وزیراعظم راجیو گاندھی کو خوش کرنے کے لئے مسلمانوں کو اُڑتے ہوئے پرندوں کی طرف رائفل کی گولیوں سے بھونا گیا تھا اس وقت وہ ویربہادر کے ساتھ میرٹھ کے ڈاک بنگلہ میں جلوہ افروز تھے۔ اور جہاں بزرگ کانگریسی لیڈر اور میرٹھ کی ممبر پارلیمنٹ محسنہ قدوائی کو داخل بھی نہیں ہونے دیا گیا تھا۔ کیونکہ وزیر داخلہ دکشت نے اپنی پولیس کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ نہ آنے پائیں۔
چند روز پہلے سابق وزیر سلمان خورشید صاحب نے جو خوشخبری سنائی تھی کہ جلد ہی ایک ایسی خبر آپ سنیں گے کہ حیرت میں رہ جائیں گے۔ وہ خبر سامنے آگئی کہ اب تک جو گمان کیا جارہا تھا کہ شاید اترپردیش کو فتح کرنے کے لئے سونیا گاندھی اپنی سیاسی بندوق کا وہ کارتوس بھی داغ دیں گی جسے وہ دس پردوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ یعنی مسز پرینکا گاندھی کو اترپردیش کا وزیر اعلیٰ بنانے کا اعلان کرکے میدان میں اتریں گی۔ وہ یہ نکلا کہ شیلا دکشت کانگریس کا چہرہ ہوں گی اور پرینکا گاندھی ان کے لئے ووٹ مانگنے کے لئے ہر اس جگہ جائیں گی جہاں پرشانت کشور مشورہ دیں گے۔ وہ پرشانت کشور جن کو نامعلوم رقم کے عوض اترپردیش اور پنجاب میں کانگریس کو بہار کی طرح کامیاب کرانے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔
ڈیڑھ سو سالہ بوڑھی کانگریس اگر آج اس قابل نہیں رہی ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے کھا نہ سکے اور اپنے پاؤں سے چل نہ سکے تو اسے اب آثار قدیمہ بنا دینا چاہئے اس کے لئے اس سے زیادہ شرم کی کوئی بات نہیں ہے کہ وہ پیشہ وروں کو منھ مانگی رقم دے کر الیکشن کی ترکیبیں معلوم کریں۔ اور پیشہ وروں کے بل پر کامیابی کو قبول کریں۔ اندرا گاندھی اور فیروز گاندھی کی اولاد نے یہ کیوں سمجھ لیا ہے کہ وہ وزیر اعظم سے کم کسی عہدہ کو قبول نہیں کریں گے۔ آج جو وزیر اعظم ہیں وہ بارہ برس ایک چھوٹے سے صوبہ گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔ لیکن اب وزیر اعظم ہیں۔ اور امریکہ کے صدر ہوں یا روس کے فرانس کے صدر ہوں یا برطانیہ کے وزیر اعظم کسی نے نہیں کہا کہ آپ وزیر اعلیٰ سے ترقی پاکر وزیر اعظم بنے ہیں اس لئے کمتر ہیں۔
کانگریس کا یہ فیصلہ کہ وزیر اعلیٰ کی امیدوار تو شیلا دکشت ہوں گی جن کا ہر بال سفید ہوچکا ہے اور ان کی مدد پرینکا گاندھی ایک سرپرست کی طرح کریں گی جن کا ابھی ایک بال بھی شاید سفید نہیں ہوا ہے۔ اس حالت میں انتہائی غلط ہے کہ ہر کانگریس کے ہر لیڈر اور ورکر پر مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ اور وہ آخری سہارا پرینکا گاندھی کو سمجھ رہا ہے اور اس لئے صرف اتنی سی بات پر کہ پرینکا اب رائے بریلی اور امیٹھی کے علاوہ دوسرے شہروں کا بھی دورہ کریں گی، پاگل ہوا جارہا ہے۔ کجریوال جیسے نوآموز سے دہلی میں شکست کھانے والی اور دوبارہ مقابلہ کی ہمت کرنے کے بجائے کیرالہ کی گورنر ہونے کو ترجیح دینے والی خاتون کو ووٹ دلوانے کی ہمت کہاں سے لائے گا۔
اُترپردیش کا الیکشن اس پر نہیں ہوگا کہ دہلی ریاست میں کس نے اچھا کام کیا؟ اور دہلی میں شیلاجی نے کون کون سے قلعے فتح کئے؟ اگر یہ گنایا جائے گا تو ان کے مخالف وہ بھی گنائیں گے جو اس زمانے کے فوٹو بتائیں گے کہ چار دن پہلے بنی ہوئی سڑک لدے ہوئے ٹرک کے بوجھ سے پھٹ گئی ہے اور اس میں ٹرک دھنسا ہوا ہے۔ اور یہ سب سڑکیں شیلا جی نے بنائی تھیں۔ اس کے علاوہ اور نہ جانے کتنی باتیں سامنے آئیں گی۔ کانگریس کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ 2014 ء میں جو داغ اس پر لگے تھے جن کی وجہ سے وہ حکومت کی کرسی سے اترکر 44 پر آگئی تھی۔ اس میں کوئی چیز تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بجائے یہ مزید ہوا ہے کہ ایک کمیشن ہریانہ میں اور ایک راجستھان میں ان الزامات کا جائزہ لے رہا ہے جو پرینکا کے شوہر نامدار پر لگائے گئے ہیں۔ اور پرینکا کا ہر وقت ان کے ساتھ نظر آنا ان کے قد کو چھوٹا کرتا ہے۔ ایسے میں بھی اگر وہ اترپردیش میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو نام ان کا نہیں پرشانت کشور کا ہوگا۔ پھر وہ کروڑوں میں نہیں سیکڑوں کروڑ کے ٹھیکے لیا کریں گے اور رفتہ رفتہ پورے ملک میں پرشانت کشور کی ہی سرکاریں ہوجائیں گی۔ کاش شیلاجی اور کشمیر سے آئے ہوئے مہمان صورت حال کو مضحکہ خیز نہ بننے دیں۔
فون نمبر: 0522-2622300