ملک جل رہا ہے اور بھاگوت پردہ میں ہیں

Bhatkallys

Published in - Other

02:22PM Thu 15 Dec, 2016

ملک جل رہا ہے اور بھاگوت پردہ میں ہیں

از: حفیظ نعمانی دنیا بھر میں مختلف ایجنسیاں سروے کرنے میں مصروف ہیں۔ ہندوستان میں بھی کوئی ایجنسی یہ دیکھ رہی ہے کہ ملک میں جو طبقے ہیں ان کے ذہن میں حکومت کے لائق کون ہے؟ ہندو رام مندر کے لیے اور مسلمان بابری مسجد کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں؟ ۲۰۰۴ء اور ۲۰۱۴ء کے درمیان ذہنوں میں کتنی تبدیلی آئی ۔انگریزی اخبارات کے علاوہ ہندی اور اردو اخبار پڑھنے والے کیا سوچ رہے ہیں؟ ایک ایجنسی ’’سی ایس ڈی ایس‘‘ برسوں سے ہندوستان میں فرقہ واریت کا سروے کررہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’۲۰۱۴ء کے الیکشن کے بعد فرقہ واریت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم یافتہ ذہن زیادہ آلودہ ہوئے ہیں۔‘‘ایجنسی نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ بہت حد تک صحیح ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کھل کر میدان میں آگئے تھے جواس سے پہلے پردہ کے پیچھے رہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ اپنے کو نہ سیاسی پارٹی کہتے تھے اور نہ کہلانا پسند کرتے تھے۔ ۲۰۱۴ء میں بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ تھے جو شری گڈکری کی بدعنوانیوں کے واضح ہوجانے کے بعد یہ کہہ کر بنائے گئے تھے کہ ذہنی اعتبار سے بی جے پی کی قیادت میں آر ایس ایس کے وہ سب سے زیادہ قریب ہیں۔ موہن بھاگوت صاحب نے راج ناتھ کو احکامات دینے شروع کئے اور ان سے ایڈوانی جی کی سخت مخالفت کے باوجو مودی جی کو تشہیری کمیٹی کا صدر بنوایا۔ اور پھر پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم کا امیدواربھی مودی کو ہی بنوایا جس کی مخالفت میں ایڈوانی جی ، جوشی سشما سوراج اور دوسرے لیڈر بھی تھے۔ لیکن بھاگوت صاحب نے کسی کی پرواہ نہیں کی اور انہیں وزیر اعظم کا امیدوار بنادیا۔ مودی جی نے جن اعلانات اور وعدوں پر الیکشن لڑا وہ سب کو یاد ہے اور آر ایس ایس کی پوری فوج جس طرح سرگرم رہی وہ بھی کون بھولا ہوگا؟مودی جی نے ایک سیاسی لیڈر کے بجائے مذہبی لیڈر کی طرح ا لیکشن لڑا، ملک میں ایسا کوئی مندر نہیں تھا جہاں انھوں نے پوجا نہ کی ہو۔ انھوں نے سورت کے علاوہ اترپردیش کے کاشی کو اپنا انتخابی حلقہ بنایا اور ڈرامائی انداز سے کہا کہ نہ مجھے کسی نے بھیجا ہے نہ میں خود آیا ہوں مجھے تو ماں گنگا نے بلایا ہے۔ اور ماں گنگا کی گود میں بیٹھنے سے پہلے وشوناتھ مندر میں گھنٹوں پوجا کی اور اس مندر کے پجاری کی ہی چھتر چھایا میں وہ ماں گنگا کی گود میں آئے۔ عوام کے اوپر حکمراں کی ذہنیت کا اثر پڑتا ہے۔ موہن بھاگوت کا سامنے آکر احکامات دینا اور مودی کا کھل کر ایک مذہبی ہندو لیڈر بن کر حکومت کی کرسی پر قبضہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر ماتھا ٹیکنا اور ا لیکشن میں ٹکٹ دیتے وقت صرف یہ دیکھنا کہ کون جیت سکتا ہے اور ایسے سادھوؤں اور سادھیوں کو ٹکٹ دینا جو پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے تھے۔ کھلا اعلان تھا کہ اب ہندوستان خالص ہندو دیش بنے گا۔ اور یہ اس کا ہی نتیجہ تھا کہ دادری میں محمد اخلاق کے گھر میں گائے کے گوشت کی رپورٹ تھانے میں لکھوانے کے بجائے مندر میں لکھوائی ۔ اس لیے کہ ہندو بھارت میں تھانے سے زیادہ مندر کے پاس طاقت ہے اور سب نے دیکھ لیا کہ تھانے سے پولیس آتی اور سوال جواب کرکے گوشت لے جاتی۔ لیکن مندر کی رپورٹ نے اس کی جان لے لی، اس کے لڑکے کو ادھ مرا کردیا، سارا گھر تہس نہس کردیا اور گھر کی ہر خاتون کو زخمی کردیا۔ جبکہ گوشت بکرے کا تھا۔ ڈھائی سال کی سیکڑوں مثالوں میں صرف ایک کا ذکر کردیا۔ اس کے علاوہ جو مسلمانوں کے ساتھ ہر جگہ ہورہا ہے اور مودی جی ملک کے سب سے زیادہ ناکام وزیر اعظم ثابت ہونے کے باوجود آج بھی اکثرہندوؤں کو پیارے ہیں وہ صرف اسی وجہ سے کہ جیسے بھی ہیں ہندو نواز تو ہیں۔ اور مسئلہ اگر ہندو مسلمان کا ہو تو آنکھ بند کرکے ہندو کی حمایت تو کرتے ہیں؟ پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی کے زمانہ میں کانگریس کے اندر پرشوتم داس ٹنڈن اور کانگریس سے باہر بلراج مدھوک جیسوں کی کمی نہیں تھی لیکن وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور جو کچھ کرتے تھے سیاست کے لیے کرتے تھے۔ یہ مودی جی کا انتخاب ہے اور اس پر موہن بھاگوت جی کی مہر ہے کہ برسوں سے بابا رام دیو اورالیکشن کے ذریعہ وہ دیویاں جو بے تکلف حرام زادہ بولیں جبکہ عورت ہونے کی وجہ سے وہی جانتی ہیں کہ حرامی اور حرام زادہ کون ہے؟ مرد کیا جانے کہاں کہاں بیج ڈلا اور کہاں پودانکلا؟ یہ بھی مودی جی کو کرنا پڑا کہ وہ ایسی بد زبان ممبر کوگود میں لیکر پارلیمنٹ کے ہر ممبر کے پاس گئے اور درخواست کی کہ انہیں معاف کردیجئے یہ نہیں جانتیں کہ کس لفظ اور کس گالی کا کیا مطلب ہے؟ خیر ہوئی کہ انہیں یہ نہیں کہنا پڑا کہ یہ تو کھیت میں ہلکی ہونے جاتی تھیں وہیں سے پکڑ کر لایا ہوں۔ پارلیمنٹ کو دھرم سنسد بنوانے کی سازش رچنے والے موہن بھاگوت اب پھر پردہ میں جا بیٹھے ہیں وہ شاید نہ گالی کھانا چاہتے ہیں اور نہ اپنا پتلا پھنکوانا چاہتے ہیں۔ اندازہ یہ ہورہا ہے کہ مودی نے انہیں نوٹ بندی کے فیصلہ میں شریک نہیں کیا تھا۔ یہ نہیں معلوم کہ اب ان کی کیا رائے ہے؟ اس لیے کہ ۵۰ دن کی مہلت ختم ہونے میں۱۵ دن باقی ہیں اور وہ جو مودی جی نے کہا تھا کہ ۵۰ دن کے بعد ملک کندن بن کر اور آپ جیسا دیکھنا چاہتے تھے ویسا بن کر نکلے گا۔ لیکن اب انہیں یقین ہوگیا ہے کہ ۵۰ دن کی مار کے بعد وہ قبر سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر نکلے گا۔ اس لیے انھوں نے کہنا شروع کردیا کہ میں تو فقیر ہوں کہیں بھی چلا جاؤں گا اور ۵۰دن کے بعد رفتہ رفتہ حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بینکوں میں لائن بھی رہے گی ’’نوکیش‘‘ کے بورڈ بھی لگیں گے اور اے ٹی ایم کا پیٹ خالی بھی رہے گا مگر روکھی روٹی کے پیسے شاید مل جائیں۔ عوام کو ایک آواز ہو کر موہن بھاگوت صاحب کو طلب کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ سارے فساد کی جڑ وہی ہیں۔