تبصرہ کتب ۔۔۔ سہ ماہی الصدیق صوابی ۔۔۔ تحریر: ملک نواز احمد اعوان + محمود عالم صدیقی

نام مجلہ:سہ ماہی ’’الصدیق‘‘ صوابی جلد1، شمارہ 4 ،جولائی تا ستمبر مدیر مسؤل:حضرت مولانا عبدالرؤف بادشاہ مدیر:منفعت احمد معاون مدیر:محمد اسلام حقانی صفحات:136 قیمت فی شمارہ 80 روپے ناشر:دفتر سہ ماہی الصدیق معھدالصدیق للدراسات الاسلامیہ بام خیل۔ صوابی، خیبرپختون خوا۔ پاکستان فون نمبر:0313-9803280 ای میل:alsiddiq2016@gmail.com
یہ سہ ماہی ’’الصدیق‘‘ صوابی کا چوتھا شمارہ ہے جو معہد الصدیق سے شائع ہوتاہے۔ معمدالصدیق کا تعارف درج ذیل ہے: ’’جس جگہ بیٹھ کر پڑھا پڑھایا جاتا ہے اسے عربی زبان میں ’’مدرسہ‘‘ کہا جاتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک نوجوان کا گھر ’’دارارقم‘‘ اور مدنی زندگی میں مسجدِ نبویؐ کے قریب ایک چبوترہ ’’صفہ‘‘ نے زمانۂ جاہلیت کے پروردہ اُن افراد کی زندگیاں سنوارنے میں بہت اہم کردار ادا کیا جو بعد میں اپنے وقت کے سب سے زیادہ مہذب اور منتظم قرار پائے، ظاہری اسباب میں یہ مدارس ہی ہیں جنہوں نے ہر طرح کے حالات میں امت کو نہ صرف فکری غذا اور علمی قوت فراہم کی بلکہ عوام کے دین و ایمان کی حفاظت کا بیڑہ بھی اٹھایا، چنانچہ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں مدارس اور مدارس کے تربیت یافتہ افراد ہی تھے جنہوں نے استعماری غلبے اور سازشوں کے باوجود عوام کو اپنے دین و ایمان اور قرآن کے ساتھ جوڑے رکھا۔ معھد الصدیق اس مقدس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کی ابتدا 1992ء میں چند طلبہ سے ہوئی، یہ وہ گلستانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جس سے سینکڑوں کی تعداد میں طلبۂ کرام قرآن کریم کا حفظ و ناظرہ مکمل کرکے مختلف علاقوں میں دین کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اور کتاب اللہ کی تعلیم عام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اس مدرسے میں درسِ نظامی (شعبہ کتب) کا ایک بہترین معیاری نظام موجود ہے جس میں درجہ اعدادیہ (اول، دوم، سوم) سے لے کر درجہ موقوف علیہ تک کے اسباق پڑھائے جاتے ہیں۔ معھدالصدیق میں دارالافتاء کا انتظام بھی موجود ہے جس میں لوگوں کے شرعی مسائل کا حل زبانی و تحریری دیا جاتا ہے۔ معھد میں شعبہ تجوید للعلماء و الحفاظ کا ایک بہترین ایک سالہ اور دو سالہ کورس وفاق المدارس کے زیر نگرانی قائم کیاگیا ہے۔ معھدالصدیق میں مستقل طور پر طلبۂ کرام اور عوام الناس کے لیے اصلاحی بیانات اور مختلف تربیتی پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں۔ نیز طلبہ و علماء کے لیے ایک ڈسپنسری کا نظم بھی موجود ہے جس میں طلبہ و علماء کو بوقتِ ضرورت ابتدائی طبی امداد دی جاتی ہے۔ یہ محض اللہ کا فضل اور معاونین و اراکین کی مخلصانہ توجہات اور انتھک کوشش کا نتیجہ ہے۔ تحقیق میں ندرت اور تنوع کا حامل علمی ، تحقیقی اور اصلاحی مجلے کے اس شمارے میں درج ذیل مقالات و مضامین شامل ہیں۔ اک رند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہ۔ ۔ ۔ جگرمرادآبادی مخلوقِ خدا کی خدمت ایک اہم ذمہ داری۔ ۔ ۔ مدیر شاہ ولی اللہ کے تفسیری مآخذ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی مقاصدِ حاجیہ و تحسینیہ اور رفع تعارض کے کچھ قواعد۔ ۔ ۔ مولانامدثرجمال تونسوی اسلامی تہوار۔ فلسفہ، اثرات، امتیازات۔ ۔ ۔ مولانا محمد طفیل قاسمی مغرب اور سیکولرازم کی دہشت گردی کی تاریخ۔ ۔ ۔ مولانا ابن الحسن فاروقی دورانِ جنگ انسانی حقوق کی بحث۔ ۔ ۔ مولانا سجاد الحجابی استاد سے پڑھے بغیر صرف مطالعہ سے علم حاصل کرنا۔ ۔ ۔ مولانا محمد کامران ہوتی سبیل اللہ کا مطلب اور اس کی تحقیق۔ ۔ ۔ مولانا محب اللہ خبر واحد اور قیاس میں تعارض اوراحناف کا منہج۔ ۔ ۔ مفتی حسین نہاد نظریاتی جنگ (غزوہ فکری) کے اصول۔ ۔ ۔ مولانا اسماعیل ریحان عہدِ جدید اور انسانی احساس کی صورت گری۔ ۔ ۔ مبین مرزا سوء خاتمہ کے اسباب۔ ۔ ۔ مولانا عبدالرؤف بادشاہ قرآن اور سائنس۔ ۔ ۔ مولانا محمد اسلام حقانی یتیموں کی مدد قرآن و سنت کی روشنی میں۔ ۔ ۔ مولانا نثار احمد حصیر قاسمی فرنچائز، تعارف اور شرعی حیثیت۔ ۔ ۔ مفتی شاد محمد شاد بیٹ کوین اور ڈیجیٹل کرنسیز: چند حقائق۔ ۔ ۔ مفتی ثناء اللہ جامعہ کے شب و روز۔ ۔ ۔ مولانا صالح محمد کتاب شناسی۔ ۔ ۔ مبصر کے قلم سے بلاشک و شبہ تمام مقالات و مضامین عمدہ اور تحقیقی ہیں۔ سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوا ہے۔ یہ سہ ماہی ’’الصدیق‘‘ صوابی کا چوتھا شمارہ ہے جو معہد الصدیق سے شائع ہوتاہے۔ معمدالصدیق کا تعارف درج ذیل ہے: ’’جس جگہ بیٹھ کر پڑھا پڑھایا جاتا ہے اسے عربی زبان میں ’’مدرسہ‘‘ کہا جاتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک نوجوان کا گھر ’’دارارقم‘‘ اور مدنی زندگی میں مسجدِ نبویؐ کے قریب ایک چبوترہ ’’صفہ‘‘ نے زمانۂ جاہلیت کے پروردہ اُن افراد کی زندگیاں سنوارنے میں بہت اہم کردار ادا کیا جو بعد میں اپنے وقت کے سب سے زیادہ مہذب اور منتظم قرار پائے، ظاہری اسباب میں یہ مدارس ہی ہیں جنہوں نے ہر طرح کے حالات میں امت کو نہ صرف فکری غذا اور علمی قوت فراہم کی بلکہ عوام کے دین و ایمان کی حفاظت کا بیڑہ بھی اٹھایا، چنانچہ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں مدارس اور مدارس کے تربیت یافتہ افراد ہی تھے جنہوں نے استعماری غلبے اور سازشوں کے باوجود عوام کو اپنے دین و ایمان اور قرآن کے ساتھ جوڑے رکھا۔ معھد الصدیق اس مقدس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کی ابتدا 1992ء میں چند طلبہ سے ہوئی، یہ وہ گلستانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جس سے سینکڑوں کی تعداد میں طلبۂ کرام قرآن کریم کا حفظ و ناظرہ مکمل کرکے مختلف علاقوں میں دین کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اور کتاب اللہ کی تعلیم عام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اس مدرسے میں درسِ نظامی (شعبہ کتب) کا ایک بہترین معیاری نظام موجود ہے جس میں درجہ اعدادیہ (اول، دوم، سوم) سے لے کر درجہ موقوف علیہ تک کے اسباق پڑھائے جاتے ہیں۔ معھدالصدیق میں دارالافتاء کا انتظام بھی موجود ہے جس میں لوگوں کے شرعی مسائل کا حل زبانی و تحریری دیا جاتا ہے۔ معھد میں شعبہ تجوید للعلماء و الحفاظ کا ایک بہترین ایک سالہ اور دو سالہ کورس وفاق المدارس کے زیر نگرانی قائم کیاگیا ہے۔ معھدالصدیق میں مستقل طور پر طلبۂ کرام اور عوام الناس کے لیے اصلاحی بیانات اور مختلف تربیتی پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں۔ نیز طلبہ و علماء کے لیے ایک ڈسپنسری کا نظم بھی موجود ہے جس میں طلبہ و علماء کو بوقتِ ضرورت ابتدائی طبی امداد دی جاتی ہے۔ یہ محض اللہ کا فضل اور معاونین و اراکین کی مخلصانہ توجہات اور انتھک کوشش کا نتیجہ ہے۔ تحقیق میں ندرت اور تنوع کا حامل علمی ، تحقیقی اور اصلاحی مجلے کے اس شمارے میں درج ذیل مقالات و مضامین شامل ہیں۔ اک رند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہ۔ ۔ ۔ جگرمرادآبادی مخلوقِ خدا کی خدمت ایک اہم ذمہ داری۔ ۔ ۔ مدیر شاہ ولی اللہ کے تفسیری مآخذ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی مقاصدِ حاجیہ و تحسینیہ اور رفع تعارض کے کچھ قواعد۔ ۔ ۔ مولانامدثرجمال تونسوی اسلامی تہوار۔ فلسفہ، اثرات، امتیازات۔ ۔ ۔ مولانا محمد طفیل قاسمی مغرب اور سیکولرازم کی دہشت گردی کی تاریخ۔ ۔ ۔ مولانا ابن الحسن فاروقی دورانِ جنگ انسانی حقوق کی بحث۔ ۔ ۔ مولانا سجاد الحجابی استاد سے پڑھے بغیر صرف مطالعہ سے علم حاصل کرنا۔ ۔ ۔ مولانا محمد کامران ہوتی سبیل اللہ کا مطلب اور اس کی تحقیق۔ ۔ ۔ مولانا محب اللہ خبر واحد اور قیاس میں تعارض اوراحناف کا منہج۔ ۔ ۔ مفتی حسین نہاد نظریاتی جنگ (غزوہ فکری) کے اصول۔ ۔ ۔ مولانا اسماعیل ریحان عہدِ جدید اور انسانی احساس کی صورت گری۔ ۔ ۔ مبین مرزا سوء خاتمہ کے اسباب۔ ۔ ۔ مولانا عبدالرؤف بادشاہ قرآن اور سائنس۔ ۔ ۔ مولانا محمد اسلام حقانی یتیموں کی مدد قرآن و سنت کی روشنی میں۔ ۔ ۔ مولانا نثار احمد حصیر قاسمی فرنچائز، تعارف اور شرعی حیثیت۔ ۔ ۔ مفتی شاد محمد شاد بیٹ کوین اور ڈیجیٹل کرنسیز: چند حقائق۔ ۔ ۔ مفتی ثناء اللہ جامعہ کے شب و روز۔ ۔ ۔ مولانا صالح محمد کتاب شناسی۔ ۔ ۔ مبصر کے قلم سے بلاشک و شبہ تمام مقالات و مضامین عمدہ اور تحقیقی ہیں۔ سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوا ہے۔ --------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- نام کتاب:عمراں لنگھیاں (ناول) مصنفہ:جبیں چیمہ صفحات:224 قیمت 230 روپے ناشر:منشورات۔ پوسٹ بکس نمبر 9093 علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور فون:0320-5434909 042-35252210-11 ای میل:manshurat@gmail.com اپنا پیغام دوسرے تک پہنچانے کے لیے بہت سے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ماضی میں خاص طور پر فارسی ادب میں اخلاقی اور فلسفیانہ افکار کو حکایت کی شکل میں بیان کیا جاتا تھا۔ گلستان، بوستان، سعدی شیرازی اس کی مثال ہیں۔ ہمارے ماضی میں جو نصابِ تعلیم تھا اس میں گلستان، بوستان، کریما اور اسی قسم کی کتابیں طالب علم کو پڑھائی جاتی تھیں جن سے ان کی اخلاقی بنیادیں پختہ ہوجاتیں۔ مغرب کے اثر سے یہاں افسانہ اور ناول کا اجراء ہوا اور تمام مشرقی زبانوں میں مغربی فکر کے نتیجے میں ادب میں مغربی اصنافِ ادب کا ظہور ہوا۔ اردو زبان میں بھی بہت سے ناول لکھے گئے ہیں۔ اسی سلسلے میں محترمہ جبیں چیمہ نے یہ عمدہ اور بامقصد ناول تحریر کیا ہے اور اس کا انتساب محترمہ فرزانہ چیمہ کے نام کیا ہے، جس کو منشورات نے اپنے خاص اسلوب میں شائع کیا ہے۔ ناول کا نام پنجابی میں ہے، اردو میں ہم کہیں گے ’’گزری عمریں‘‘۔ جناب سلیم منصور خالد تحریر فرماتے ہیں: ’’زندگی لمحوں کی آمد کا نام ہے۔ جب خالقِ کائنات کے حکم سے یہ لمحاتی سفر تمام ہوگا تو زندگی کا پہیہ رک جائے گا اور وہی لمحہ قیامت کا لمحہ ہوگا۔ انسان کے لیے اس زندگی میں اختیار کی نعمت اور انتخاب کی آزمائش بھی خالقِ کائنات کی عطا ہے، یعنی ہماری زندگی اسی اختیار و انتخاب کی کشمکش کا دوسرا نام ہے۔ عمراں لنگھیاں بظاہر ایک سادہ سی کہانی پر مبنی ناول ہے لیکن فی الحقیقت یہ ایسی کہانی ہے، جس میں کئی کہانیاں اپنے انجام کی شاہراہ پر رواں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ناول ہمارے معاشرے کے تضادات کو آشکارا کرتا ہے اور ان ٹوٹتی پھوٹتی حقیقتوں کو بے نقاب کرتا ہے، جن میں ہم بے سمجھی میں، حماقتوں کی مدہوشی میں بطور تماشائی، بطور گونگے گواہ یا پھر بطور فعال کردار اپنا اپنا حصہ ادا کررہے ہیں۔ ناول کی کہانی کا بہاؤ سادہ بیانی اور فطری شستگی میں قاری کو اپنے ساتھ یوں لیے چلتا ہے، جیسے ایک مہربان ماں اپنے بچے کو انگلی تھامے، زندگی کی تلخیوں سے بچانے کے لیے باوقار بے چینی کی علامت بن جائے۔ اس ناول میں جس جگہ کوئی سبق آموز بات آئی ہے تو وہ کسی تکلف کے کندھے پر سوار ہوکر نہیں آئی، بلکہ ٹھیک اپنے مقام پر انتہائی شائستگی سے بقدرِ ضرورت ہی بیان ہوئی ہے۔ ایسی کیفیت کے لیے حالات میں ڈراما نہیں پیدا کیا گیا، بلکہ حالات کی ٹھوکر سے خودبخود چنگاری نے روشنی پیدا کی ہے۔ یہ ناول، ہمارے نظام تعلیم کے موجودہ چلن، تربیت کے الٹے رویوں اور سماجی تعلقات میں در آنے والی بیماریوں کو ان کے حقیقی پس منظر میں بیان کرتا ہے۔ اس ناول کا یہ امتیاز ہے کہ اس کا مؤثر پلاٹ، ڈرامائی صورتوں میں کہانی کو یوں تھامے رکھتا ہے کہ قاری پہلے اندازہ لگانے سے قاصر رہتا ہے کہ کہانی کون سا رُخ مڑے گی۔ ناول کے کردار کی مناسبت سے، مکالموں کی موزونیت ٹھیک ٹھیک فطرت اور ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی مختلف شیطانی دستاویزات کے زیراثر پیدا ہونے والی بے ہودہ اور باغیانہ ترغیب کا زہر’’زندگی میری ہے‘‘کے پُرفریب نعرے میں ڈھل کر، خاص طور پر نوعمر لڑکیوں کی زندگیوں کو چاٹ رہا ہے۔ اس ناول کے مطالعے سے یہ بات ذہن نشین ہوتی ہے کہ ’زندگی میری نہیں ہے‘ بلکہ زندگی زندوں کے ساتھ ہے اور وہ بھی قدردانوں کے ساتھ، نہ کہ مفاد اور ہوس کے خونخوار جبڑوں میں تڑپنے کا نام۔ ناول نگار نے بچوں کو فلمی اور افسانوی دنیا سے نکال کر حقیقت کی دنیا دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کے دلوں میں اس سچائی کو اتارا اور مؤثر انداز سے ذہن نشین کیا ہے کہ آپ کے لیے، آپ کے حقیقی رشتوں کا کیا مقام ہے؟ کسی کی گمراہی اور جھوٹے نگوں کی چمک میں اندھی راہوں میں دوڑنا، ان بے لوث رشتوں پر کون سی قیامتیں ڈھاتا ہے اور خود فرد کو کن دوزخوں سے گزارتا ہے؟ خصوصا آج کا سوشل میڈیا اور موبائل فون کن کن عذابوں کو لمحے بھر میں آپ کے سامنے لاکھڑا کرسکتا ہے۔ کتاب غیر مجلّد پیپر بیک پر ہے، بامعنی سرورق سے آراستہ ہے۔ اردو زبان میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔
بشکریہ : ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل