گورنر کا انتخاب کہ نامزدگی

Bhatkallys

Published in - Other

10:13AM Sat 2 Apr, 2016
از: کلدیپ نیئر آزادی کے بعد بھارت کی آئین ساز اسمبلی میں ایک کلیدی بحث گورنروں کی تقرری کے بارے میں تھی۔ بہت سے ارکان کا خیال تھا کہ ریاستی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بوقت ضرورت یہ نمائشی کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ اتنی ہی شدت سے یہ مطالبہ بھی اٹھایا گیا کہ گورنر کا بھی انتخاب ہونا چاہیے نامزدگی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ جمہوری سیاست میں ریاست کا سربراہ بھی ایسا شخص ہونا چاہیے جس کو عوام منتخب کر کے بھیجیں۔ یہ ایک دلیل تھی۔ وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اس موقع پر مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اگر گورنر کا بھی انتخاب کیا جائے تو وہ منتخب وزیراعلیٰ کے متوازی ایک اتھارٹی بن جائے گا جس سے ریاست کے معمول کے مطابق کاروبار چلانے میں رکاوٹ پیدا ہو گی۔ تاہم نہرو یہ ضرور کہتے تھے کہ گورنر کوئی معروف و مشہور شخصیت ہونی چاہیے جس کی اپنے شعبے میں بہت عزت ہو خواہ وہ تعلیم کے شعبے سے لیا جائے یا سائنس اور آرٹس کے شعبے سے۔ البتہ نہرو نے سیاسی نامزدگی کی حمایت نہیں کی یعنی ایسا شخص نہیں ہونا چاہیے جس کو حکمران جماعت اس منصب پر تعینات کرنا چاہتی ہو۔ مگر نہرو نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک آئینی سربراہ کو بھی سیاسی جماعت اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر لے گی۔ اصل میں یہ آئین کا آرٹیکل 356 تھا جس نے مرکزی حکومت کو یہ اختیار دیدیا کہ اگر ریاست میں امن و امان کی صورت حال خراب ہو جائے تو وہ حکومت کو برطرف کر سکتی ہے جب کہ معمول کے مطابق طریق کار یہ تھا کہ مرکز کو کوئی کارروائی کرنے سے پہلے گورنر کی رپورٹ کا انتظار کرنا ہو گا۔ لیکن آج یہ بات صرف کاغذ پر لکھی رہ گئی ہے۔ نہرو کے خواب کو ان کی بیٹی اندرا گاندھی نے منتشر کر دیا جب 1959ء میں انھیں کانگریس کی صدر بنایا گیا۔ وہ کیرالہ کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف تھیں جس نے تعلیم کے بارے میں ایک مسودہ قانون منظور کر لیا جسے نمبودری پال کی حکومت نے پیش کیا تھا۔ اندرا گاندھی نے ریاستی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ شروع کر دیا اور وزیر اعظم نہرو سے اپیل کی کہ اس قانون کو ختم کرایا جائے۔ نہرو کو چاہیے تھا کہ اپنی بیٹی سے بات کرتے اور اسے احتجاج ترک کرنے پر زور دیتے لیکن نہرو نے نجی طور پر بھی اور سرکاری طور پر بھی نمبودری پر کو بتایا کہ وہ اس معاملے میں بے بس ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کانگریس کی صدر نے کیا ہے جس پر عمل درآمد کے وہ پابند ہیں کیونکہ اندرا کو پارٹی نے نامزد کیا تھا۔ اس پر ریاست میں صدارتی حکمرانی نافذ کر دی گئی اور جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے یہ ایک مثال بن گئی اور منتخب حکومت کو ختم کرنے میں جو ہچکچاہٹ ہو سکتی تھی وہ رفتہ رفتہ دور ہو گئی۔اب سیاسی صورت حال اسقدر دگرگوں ہو چکی ہے کہ اگر مرکز میں حکومت کرنے والی پارٹی کسی کو قتل بھی کر دے تو اس کا کوئی مواخذہ نہیں کیا جا سکتا حالانکہ یہ صریحاً غیر جمہوری بات ہے کیونکہ وفاقی نظام کے تحت ریاستی حکومت کو مکمل خود مختاری حاصل ہے لیکن اگر مرکز ریاستی حکومت کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا تہیہ کر لے تو وہ ریاست کچھ نہیں کر سکتی۔ مثال کے طور پر آپ ریاست اترکھنڈ کا معاملہ دیکھیں جہاں کانگریس کی حکومت ہے۔ وہاں 9 اراکین اسمبلی منحرف ہو گئے جس کے بعد کانگریس پارٹی اقلیت میں تبدیل ہو گئی۔ اس پر سپریم کورٹ نے ایک تاریخ مقرر کی تا کہ حکومت اسمبلی کے ایوان میں اپنی اکثریت کو ثابت کرے لیکن مرکز میں نریندر مودی کی حکومت کو اس بات کا پورا یقین نہیں تھا کہ کانگریس کے منحرف ہونیوالے اراکین مرکز کا ساتھ دیں گے یا دوبارہ کانگریس میں شامل ہو جائیں گے۔ لہٰذا ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کے وقت سے24 گھنٹے پہلے ہی حکومت کو برطرف کر دیا گیا جب کہ اسمبلی کو نہ توڑا گیا۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی حکومت کا خیال تھا کہ وہ منحرف اراکین کی مدد سے ریاست میں اپنی حکومت قائم کر لے گی تاہم پھر کانگریس کی حکومت ہائی کورٹ میں چلی گئی اور اپنے حق میں فیصلہ لے آئی۔ اس سارے واقعے سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ گورنر کا عہدہ بھی سیاست زدہ ہو گیا ہے۔ اب گورنر کی اپنی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں رہی بلکہ وہ وہی کرنے پر مجبور ہے جو مرکزی حکومت اس کو کہتی ہے۔ وزیر داخلہ گوبند ولبھ پنت نے ایک دفعہ کہا تھا کہ گورنر ایک سول سرونٹ (سرکاری ملازم) ہوتا ہے اور اسے مرکزی حکومت کی بات ماننا ہوتی ہے کیونکہ اس کا تقرر ہی مرکز کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جب گورنر اپنی تعیناتی کی مدت پوری نہیں کر سکا کیونکہ مرکزی حکومت اپنے بھروسے کے کسی وفادار شخص کو تعینات کرنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم نہرو نے آئین ساز اسمبلی میں جس بات پر زور دیا تھا کہ گورنر ایک بہت ممتاز اور معروف شخص ہونا چاہیے لیکن اب یہ محض خواب و خیال کی بات بن کر رہ گئی ہے۔ ایک سیاسی جماعت ریاستوں میں اپنے بھروسے کے شخص کو مقرر کرنا چاہتی ہے بالخصوص ان ریاستوں میں جہاں اس پارٹی کی حکومت نہیں ہوتی۔ اب تو یہ بات بھی کوئی راز نہیں رہی کہ حکمران پارٹی کسی بھی گورنر کا اپنی پارٹی کے ارکان کے ذریعے گھیراؤ کروا کر اسے نکال باہر کرتی ہے۔ کانگریس پارٹی جس نے کہ پنڈت نہرو کے دور میں بڑی اعلیٰ روایات قائم کی تھیں لیکن اب وہ بھی اتنی ہی قصوروار ہے جتنی کہ دوسری پارٹیاں۔ غالباً حکمران جماعت پر اس بات کے لیے زور نہیں دیا جا سکتا کہ وہ غیر سیاسی آزاد خیال شخص کو گورنر مقرر کرے لہٰذا ملک کو سنجیدگی کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 356 کو منسوخ کرانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ وہ بالکل غیرجمہوری ہے۔ اصولاً جمہوری طور پر منتخب ہونے والی ریاستی حکومت کو صرف وہی لوگ برطرف کر سکتے ہیں جنہوں نے اسے منتخب کیا ہوتا ہے۔ بصورت دیگر ایک وفاقی نظام حکومت میں جیسا کہ ہمارے ملک میں رائج ہے ریاستیں اپنی حدود میں مکمل آزادی کا حق رکھتی ہیں۔ لہٰذا جن لوگوں نے آئین کی تشکیل کی تھی اگر وہ ریاستوں کی خود مختاری نہیں چاہتے تھے تو پھر انھیں صدارتی نظام حکومت قائم کرنا چاہیے تھا لیکن اس کے بجائے انھوں نے پارلیمانی نظام کو ترجیح دی جس میں مختلف سیاسی پارٹیاں اور ریاستوں کو اشتراک عمل کی اجازت دیتی ہیں۔ جب ایوان زیریں میں کوئی پارٹی اپنی اکثریت کھو دیتی ہے تو اس کے پاس برطرفی کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔ ایک نیا انتخاب نہ صرف یہ کہ بہت مہنگا کام ہے بلکہ وہ خاصا باعث زحمت بھی ہوتا ہے۔ آخر نئے انتخابات کتنی دفعہ کرائے جا سکتے ہیں؟ اگر آئین میں استصواب رائے کی گنجائش ہوتی تو یہ رخنہ بھی دور ہو جاتا۔ جب جسٹس ہدایت اللہ ملک کے نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین تھے تو انھوں نے شکوہ کیا تھا کہ ہمارے آئین سازوں نے کوئی ایسا طریقہ نہیں بتایا جس کے ذریعے عوام کی خواہشات کے مطابق آئین میں کوئی ترمیم کی جا سکے۔ انھوں نے درحقیقت استصواب رائے کی تجویز پیش کی تھی لیکن سیاسی پارٹیوں نے اسے مسترد کر دیا لہٰذا قوم اب بھی اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں سے اس نے آغاز کیا تھا۔ (ترجمہ: مظہر منہاس)