ویکسی نیشن یا ٹیکے لگانا کیوں ضروری ہے !(قسط نمبر ۱)

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
از: ڈاکٹر محمد حنیف شباب
ویسے تو مجھے اس ہفتے کیلنڈر کی کہانی سیریز سے متعلقہ قسط پیش کرنی تھی اور مضمون تیار بھی تھا، مگرچونکہ ملک بھر میںآج کل خسرہ اور روبیلا MRکے خلاف ٹیکے لگانے کی مہم شروع ہوگئی ہے او ر اس کے خلاف خاص کر مسلمانوں میں غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔اور عجیب عجیب قسم کے منفی تبصروں والے پیغامات سوشیل میڈیا پر وائرل ہورہے ہیں۔ اس لئے سوچا کہ کیلنڈر کی کہانی والے مضمون کو مؤخر کرکے ویکسی نیشن یا ٹیکے لگانے کے مسئلہ پر کچھ بات کی جائے۔ عام زبان میں اگر کہا جائے تو ویکسی نیشن یا ٹیکے لگاناوبائی اور جان لیواامراض کی پیشگی روک تھام کا ایک کارآمد اور موثر ذریعہ ہے۔ طبی زبان میں اگر بات کریں توٹیکہ کسی بھی تعدیہ وتعفنinfectionکی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری کے نتیجے میں انسانی ہلاکت کو روکنے یا صحت بنائے رکھنے والے قدرتی عمل دفاع یا قوت مدافعت immunity کوبیرونی ذریعے سے بہتر بنانے کا طریقہ ہے ۔ ٹیکہ یا ویکسن ہوتا کیا ہے؟: ٹیکہ یا ویکسن میں ایک حیاتیاتی biologicalمادہ ہوتا ہے جس کے اندر کسی خاص مرض کے ہلاک شدہ یا کمزور طاقت والے جراثیم ہوتے ہیں، جنہیں antigensکہا جاتا ہے۔ جب انہیں ٹیکے کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے، تو ہمارے جسم کا قدرتی نظام دفاع immunity systemحرکت میں آجاتا ہے اور اس بیماری کے خلاف لڑنے والی فوج antibodiesبڑی تیز رفتاری سے پیدا کرنا شروع کرتا ہے۔اس اندرونی جنگ میں اینٹی باڈیز کی جیت اور اینٹی جنس کی ہارہوجاتی ہے توپھر کچھ ہی دنوں میں جس بیماری کا ٹیکہ لگایا گیا تھا، اس مخصوص بیماری کے خلاف جسم کے اندر دائمی دفاع پیدا ہوجاتا ہے۔ جسے باہر سے حاصل کیا گیا دفاعadaptive/acquired immunityکہا جاتا ہے۔ قدیم طریقہ ہائے علاج: دنیا میں امراض کا سلسلہ روزاول سے چلا آرہا ہے۔ جنگلی اور پتھروں کے دور میں بھی انسان جڑی بوٹیوں اور قدرتی وسائل سے اپنی بیماریوں کا علاج کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر قدیم تہذیب کا اپنا طریقۂ علاج(pathy)رہا ہے۔ جس میں چینی، ہندوستانی، مصری، یونانی وغیرہ مشہور طریقہ ہائے علاج مانے جاتے ہیں اور آج بھی یہ طریقے دنیا بھرمیں محدود پیمانے پر رائج ہیں۔اس کے علاوہ جدید دنیاکے دو طریقہ ہائے علاج مشہور ہیں ان میں ایک ہومیوپیتھی ہے اور دوسراایلوپیتھی یا ماڈرن میڈیسن ہے۔ہومیوپیتھی تو خیر یونانی طریقہ علاج کی ایک شاخ "علاج بالمثل"کے اصول پر مبنی ہے جسے جرمنی کے ڈاکٹرسیموئیل ہینی من Samuel Hahnemannنے ماڈرن میڈیسن کے مقابلے میں اٹھارویں صدی عیسوی میں ایجاد کیا تھا۔ موجودہ زمانے میں سب سے قابل اعتماد اورمقبول عام طریقہ ایلوپیتھی ہی ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اس ایلوپیتھی یا جدید طریقۂ علاج کی اصل بنیاد یونانی طریقۂ علاج ہی ہے جس کا باواآدم بقراطHippocrates کو ماناجاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے لئے اخلاقی پابندیوں کا جو عہد نامہ ہے وہ بھی بقراط کا وضع کردہ ہے، اس لئے اسے Hippocratic Oath کہا جاتا ہے۔ایلوپیتھی میں میڈیسن، سرجری، آپتھالمولوجی جیسے شعبوں میں بو علی سینا،الزہراوی ، زکریا رازی، ابن الہیثم جیسے درجنوں مسلم اطباء اور حکماء کا کردارآج بھی اساسی حیثیت رکھتا ہے۔ بو علی سینا اور ابوالقاسم الزہراوی کا احسان : قدیم زمانے کے ان مسلم اطباء نے خاص کر اسپین کے سنہرے اسلامی دور اقتدار میں جو ریسرچ اور تحقیقات کی ہے اور طب کے میدان میں انہوں نے جو خدمات انجام دی ہیں، اسی پر آج کے ماڈرن میڈیسن کی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔حالانکہ تمام جدید طبی ایجادات کا سہرا یوروپی اسکالرس کے سر باندھا جاتا ہے ، لیکن سچائی یہی ہے کہ طبی میدان کے مختلف شعبہ جات میں advance ریسرچ کے لئے بنیادیں مسلم اطباء نے ہی فراہم کی تھیں۔جیسے میڈیسن کی وہ کتاب جو ابتدائی ایم ایم بی ایس کورس کی بنیاد بنی تھی وہ بوعلی سینا(جسے انگریز Avicennaلکھتے ہیں)کی "القانون "تھی جسے انگریزوں نے The Canon of Medicineبنالیا ۔جبکہ سرجری میںآج بھی ابولقاسم الزہراوی(جسے انگریزی میںAbulcasisلکھا جاتا ہے) کے اصول اور ڈیزائین کردہ آلات استعمال کیے جارہے ہیں۔تقریباً ایک ہزار سال قبل تصنیف کردہ اس کی "کتاب التصریف"علاج و معالجہ کا انسائیکلو پیڈیا مانی جاتی ہے جو 30تیس جلدوں پر مشتمل ہے اور اس میں جراحی یا سرجری کے موضوع پر تین جلدیں مخصوص ہیں۔اس کتاب کوعربی سے لاطینی اور پھر فرانسیسی میں ترجمے کے بعد انگریزی میں منتقل کیا گیا اور اٹھار ویں صدی تک (The Method of Medicine) کی شکل میں اسے یوروپ کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے نصاب میں رائج رکھا گیا۔بہرحال مسلم سائنسدانوں اور اطباء نے جو contributionجدید علمی و تحقیقی دنیا کے لئے دیا وہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر پھر کبھی تفصیلی گفتگو کرتے ہیں ۔ ضمنی طور پر آئی ہوئی اس بحث کو یہیں چھوڑتے ہوئے فی الحال ٹیکے کے تعلق سے گفتگو آگے بڑھاتے ہیں۔کیونکہ:
کوئی گلشن ہی نہ تھا میرے گلشن کا جواب اب یہ سنتے ہیں کہ ایسا کوئی ویرانہ نہیں
ٹیکے یا ویکسین کی ایجاد : جیسا کہ شروع میں کہا گیاقدیم زمانے سے ہی بیماریاں، اس کے علاج اور اس ضمن میں تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ جدید زمانے میں بیماریوں علاج اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے طریقوں میں پیتھالوجی،بیکٹریولوجی، مائکروبایولوجی اور وائرولوجی کی شاخوں نے انقلابی اضافہ کیا۔ جس کا سہرا روڈولف ورکاؤRudolph Virchow، رابرٹ کاخRobert Koch، لوئی پاسچرLouis Pasteur،ڈبلیو ایم اسٹینلیWM Stanleyکے سر بالترتیب باندھا جاتا ہے۔ انہوں نے جراثیم bacteriaاور وائرس جیسے خوردبینی عناصر کی نشاندہی کی جو انسانوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔پھر ان خورد بینی عناصر یا جراثیم کو ختم کرنے کے مختلف طریقے تلاش کیے گئے جس میں ایک طریقہ توتعدیہ infectionسے لڑنے کے لئے جراثیم کُش یعنی اینٹی بایوٹکس دوائیں استعمال کرنے کا تھا۔ اور دوسرا طریقہ خاص کرکے وبائی امراض پھیلانے والے جراثیم کے خلاف صحتمند جسم میں مصنوعی ذریعے سے مستقل دفاع یا immunityپیدا کرنے کا تھا۔ جس کے لئے انسانی جسم میں چمڑی پر یا گوشت کے اندر انجکشن کے ذریعے یا پھر منھ کے راستے مخصوص بیماریوں کے اینٹی جن داخل کرنے کا عمل اختیار کیا جاتا ہے اور یہ ویکسی نیشن کہلاتا ہے۔ اس تحقیق کا سہرا ایڈورڈ جینرEdward Jennerکے سر جاتا ہے ۔
(ویکسی نیشن کی ابتدا۔۔۔۔ فائدے اور نقصانات۔۔۔۔ غلط فہمیاں۔۔۔۔۔۔ آئندہ قسط میں ملاحظہ فرمائیں)