مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبران کو لڑانے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال۔۔۔۔۔از: قاسم سید

Bhatkallys

Published in - Other

12:39PM Thu 15 Feb, 2018
ارکان سے گفتگو ریکارڈ کرکے ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی مذموم کوشش، تدبر و تحمل کے مظاہرہ کی ضرورت مولانا سلمان ندوی کے معاملہ نے ملی سیاست میں طوفان برپا کردیا ہے۔ ایک طرف مولانا سلمان ندوی کو ہر قسم کی صلواتیں سنائی جارہی ہیں اور ہر طرح کے غیر مہذب الفاظ سے حملہ کیاجارہا ہے۔ وہیں مولانا سلمان ندوی کے عقیدت مندوں اور خیر خواہوں کی جانب سے بورڈ کے فیصلہ کو بہانہ بناکر اسے مطعون کیاجارہا ہے اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ذاتی طور پر کی گئی فونک باتوں کو ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر ڈالا جارہا ہے ۔ جہاں یہ صریح بددیانتی اور راز داری کے خلاف ہے وہیں اس کا سوشل میڈیا پر استعمال غیر اخلاقی حرکت ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس معاملہ میں کسی کو بھی نہیں چھوڑا جارہا ہے۔کئی بزرگ ہستیوں سے کی گئی گفتگو بھی اس کی زینت بن رہی ہے۔ ایسے موقع پر جب سرکار اور آر ایس ایس کی طرف سے مسلمانوں کی صفوں میں پائی جانے والی کمزوریوں پر کلہاڑا چلایا جارہا ہے۔ ہمارے بعض خیر خواہوں کے رویہ نے اس مثال کو درست ثابت کرنے کی زحمت اٹھائی ہے کہ آپ جس شاخ پر بیٹھے ہیں اس پر آرا چلا رہے ہیں، حالانکہ نازک اور آزمائش کن حالات میں زیادہ تدبر، تحمل زیادہ صبرو ضبط کے مظاہرہ کی ضرورت تھی۔ موجودہ صورت حال سے تشویش میں مبتلا لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی سے گفتگو کے وقت یہ اجازت لی جائے کہ وہ اس کو ریکار ڈ کرکے سوشل میڈیا پر ڈالنا چاہتا ہے تو کوئی برائی نہیں، لیکن اسے اندھیرے میں رکھ کر گفتگو کو ریکارڈ کرنا اور بغیر اجازت لئے سوشل میڈیا کے حوالہ کردینا اخلاقی گراوٹ کا ایک نمونہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحافت ہر قسم کی نچلی سطح کے پائیدان پر آگئی ہے۔ مولانا سلمان ندوی اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے درمیان تنازع کچھ لوگوں کے لئے تفریح کا سامان بن گیا ہے اور یہ فتنہ میں تبدیل کیا جارہا ہے، جس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ جو لوگ کام کررہے ہیں وہ اپنی نیت اور ارادوں میں مخلص ہوں اور ان کا ارادہ آگ میں گھی ڈالنے کا نہ ہو۔ شک کا فائدہ انہیں ملناچاہئے لیکن ان کے عمل سے اختلاف وانتشار کی آگ کس کس سمت میں پھیلے گی اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ اس وقت وہاٹس اپ اور فیس بک وغیرہ پر اس طرح کے آڈیو گردش کر رہے ہیں، جو ذاتی گفتگو پر مبنی لگتے ہیں۔ اب یہ دشمن نما دوست ہیں یا دوست نما دشمن کہنا مشکل ہے، مگر اس خطرناک رجحان پر روک نہ لگائی گئی تو یہ ملت کی جڑوں میں تیزاب کی طرح کام کرے گا اور ملت جو پہلے ہی مختلف قسم کی آزمائشوں میں مبتلا ہے اس رویہ کو ڈھو نہیں سکے گی۔ ہمارے سربرآوردہ رہنمائوں کو اس پر سخت گرفت کرنی چاہئے، کیونکہ یہ معصوم لوگ جو کسی وجہ سے استعمال ہو رہے ہیں یا کئے جارہے ہیں، کل ان کے لئے بھی وبال جان بن سکتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا دودھاری تلوار ہے اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ دائرہ اور پھیلے گا اور ان لوگوں کی موج آجائے گی جو سوشل میڈیا کو کیچڑ اچھالنے اور ذہنی عیاشی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کیچڑ اچھالنے اور اسے پھیلانے کا یہ مشغلہ ذہنی تلذذ تو فراہم کرسکتا ہے لیکن اس سے امت کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا۔ اختلاف دائرہ کے اندر ہوناچاہئے اس کے کچھ اخلاقی تقاضے ہیں۔ میڈیا کا کام ہے کہ وہ اندر کی خبروں کو باہر لائے الزام اور انکشافاتی حقائق میں بہت فرق ہوتا ہے۔سوشل میڈیا اس دور کی بہت بڑی طاقت ہے مگر یہ کردار کشی کا ذریعہ بن جائے تو ہلاکت خیز ہے۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ کیا کوئی کرا رہا ہے یا صرف ایک بھیڑچال ہے یہ بھی جلد سامنے آجائے گا اور یہ کام بھی سوشل میڈیا ہی کرے گا مگر جب تک بہت دیر ہوجائے گی اور نہ جانے اس سیلاب بلاخیز میں کیا کیا بہہ جائے، اس لئے ارباب حل و عقد کو اس پر باندھ لگانے کی ضرورت ہے اور نوجوان نسل کو صبر و تحمل اور حلم سے کام لینے کی تلقین، تعاون علی البر والتقویٰ کے ساتھ موجودہ حالات کی نزاکتوں، پردے کے پیچھے آنے والے طوفان اور ملک کو درپیش سنگین مسائل سے آگاہ کرانے کی ترجیحی بنیاد پر ضرورت کو محسوس کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے ہمارے معززین نے نوجوانوں کے سامنے مستقبل کا کوئی روڈمیپ نہیں رکھا، ان کے سامنے کوئی ایسا ہدف نہیں رکھا جس پر مشترکہ انداز میں مل کر کام کیا جائے۔ یہ بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ مودی بھکتوں کی طرح ہمارے یہاں بھی مختلف قسم کے بھکتوں کی فوج تیار ہوگئی ہے جو سوشل میڈیا پر ہر وقت لڑنے، مسالک کی بنیاد پر ایک دوسرے پر تنقید کرنے میں اخلاقی حدود سے تجاوز کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، یہ المیہ ہے۔