رئیس الشاکری:اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل (۳)۔۔۔  محمد اویس سنبھلی

Bhatkallys

Published in - Other

08:00AM Sun 9 May, 2021

اردو غزل کے گیسو سنوارنے اور نعتیہ شاعری میں اپنا ایک خاص مقام بنا لینے کے بعد رئیس الشاکری صاحب نے رباعی کی ِصنف میں خصوصی محنت کی اور ان کی محنت کا اندازہ ’’القاء‘‘ کے مطالعہ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔فنی لحاظ سے رباعی بہت ہی مشکل فن ہے اس فن سے عہدہ برا ہونے کے لیے فنی بصیرت و نظر کی وسعت کے ساتھ ساتھ کافی مشقِ سخن اور پختگی عمر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس صنف میں کامیابی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب شاعر معمر ہوجاتا ہے۔ جوش نے کہا تھا:

’’رباعی ایسی کمبخت ِصنف ہے جو سارا جوبن کھالے تو ایک بالک پالے کی طرح چالیس برس کی مشاقی کے بعد کہیں جاکر قابو میں آتی ہے‘‘۔

صنف رباعی کے سلسلہ میں جوش کا یہ قول ’’سارا جوبن کھالے تو ایک بالک پالے‘‘ شاکریؔ کو بھی قبول ہے۔؎

ہر لفظ ہو فنکار رباعی کے لئے

جب ذہن ہو تیار رباعی کے لئے

یارانِ سخن اچھی طرح جانتے ہیں

اک عمر ہے درکار رباعی کے لئے

’’القاء‘‘ رئیس الشاکریؔ کا چھٹا مجموعہ کلام ہے۔اس میں پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی کی تقریظ بھی شامل ہے، جو رئیس الشاکری کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ فاروقی صاحب نے لکھا ہے:

’’رئیس الشاکری کا انداز نظر اخلاقی اور حکیمانہ ہے لیکن وہ شعرکے تقاضوں کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، جگہ جگہ تلمیحات اور قرآنی فقروں کی گونج ان کے کلام کو مزید قوت اور گیرائی بخشتی ہے‘‘۔

رئیس شاکری نے شعر کی وادی میں اپنا راستہ خاصی لگن اور ریاضت کے ساتھ طے کیا ہے۔ ان کی زندگی اب تک جن پر پیچ راہوں سے گزری ہے ان سب کی جھلک ان کی شاعری کے آئینے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے جگہ جگہ انسانوں اور انسانی زندگی کے مسائل کو ابھارا ہے اور اسے انتہائی سادہ اور دلکش انداز میں بیان کیا ہے:

مشکل ہو تو جینے کا مزا ملتا ہے

ہر سانس میں پیغام بقا ملتا ہے

دشوار سہی کوئے ملامت لیکن

اک سلسلۂ اہل وفا ملتا ہے

٭

بچوں سے جو مجبور ہوئے ہیں ماں باپ

دیوار کے نقش بن گئے ہیں ماں باپ

بھائی سے لڑے بھائی تو جائیں بھی کدھر

خاموش کھڑے دیکھ رہے ہیں ماں باپ

رئیس الشاکریؔ نے زندگی کے مختلف پہلوئوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا لیکن رومانی عناصر اور عشقیہ موضوعات پر انہوں نے زیادہ شاعری کی مگر ان کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ موضوعات روایتی ہیں پھر بھی ان میں ایک نیا پن ہے۔ ان کے عشقیہ مضامین میں جذبہ کی سچائی اور خلوص نظر آتا ہے۔ وہ عشق اور محبت کی زبان میں گفتگوکرتے ہیں۔ ان کی شاعری دبستان لکھنؤ کی نمائندہ ہے، ملاحظہ ہو۔    ؎

آنکھوں کی نگارش کا اثر کیا ہوتا

اشکوں کی سفارش کا اثر کیا ہوتا

پتھر کو سماعت کا سلیقہ ہی نہیں

پھر میری گزارش کا اثر کیا ہوتا

٭

جب ذہن کو یادوں نے جگایا ہوگا

پہروں مجھے اُن آنکھوں نے سوچا ہوگا

آنگن آنگن اداسیوں کا باعث

گھر کے در و دیوار نے پوچھا ہوگا

 رئیس الشاکریؔ کی شاعری نہ صرف ہماری نئی نسل کو بلکہ عہد حاضر کے اربابِ نظر کو بھی خوب خوب متاثر کرے گی اورمجھے امید ہے کہ مستقل میںان کی شاعری پر سنجیدگی کے ساتھ گفتگو ہوگی ۔

یوں تو رئیش الشاکریؔ کی شخصیت اور ان کی شاعری پرکہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے۔لیکن آج ان سے متعلق بہت سی یادیں اور ان کی باتیں رہ رہ کر ذہن کے پردے پر گردش کررہی ہیں۔میں اکثر ان سے ملاقات کے لیے ندوۃ العلما ء کی علامہ شبلی نعمانی لائبریری جایاکرتا تھا۔ کافی دیر ان کے پاس بیٹھتا ۔۔۔کبھی کبھی ندوہ میں ان کے کمرے پر بھی جانا ہوا۔ وہ بڑی دلچسپ گفتگو کرتے ۔۔اشعار سناتے۔۔۔۔بزرگوں کے واقعات اور ان کی مجالس کا تذکرہ کرتے۔ لیکن افسوس ! وہ آخری زمانے میں اپنے گھر سیـ’ ہار‘ چکے تھے۔ گھر جانے کے بجائے ندوہ کے کمرے میں پڑے رہنا زیادہ بہتر سمجھتے تھے۔ اس کا اثر ان کی صحت پر پڑنے لگا تھا۔ ذہنی طور پر بھی کافی کمزور ہوگئے تھے۔ آخری ملاقات کا حال تو یہ ہے کہ میں بھائی احرار الہدیٰ کے ساتھ ان سے ملنے لائبریری گیا ۔۔۔میں اسی انداز میں ان کی طرف بڑھا جیسے ہمیشہ بڑھتا تھا۔۔۔لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اس مرتبہ انھوں نے بس سلام کا جواب دیا! احرار نے تعارف کرانے کی کوشش کی ، میں نے روک دیا۔۔۔۔پھر میں نے خود پوچھا کہ پہچانا نہیں؟۔۔۔۔مایوسی بھرے لہجے میں کہا کہ نہیں! میں نے تعارف کرایا تو کہنے لگے معاف کرنا ! یادداشت بہت متاثر ہوچکی ہے۔پھر یکایک جیب میں ہاتھ ڈالا اور کہا کہ چائے ۔۔۔یہ ان کا ہمیشہ کا معمول تھالیکن اس مرتبہ میں نے معذرت کی۔۔کچھ دیر ان کے پاس بیٹھا۔اور واپس آگیا۔ اس کے بعد ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور اب اس دنیا میں ہونا ممکن بھی نہیں۔۔۔۷۸؍برس کی بھرپور زندگی گزارکر رئیس الشاکری صاحب مالک حقیقی سے جاملے۔

موت سے کس کو رستگاری ہے۔ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ محترم رئیس الشاکری صاحب بھی ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔اب بس ان کی یادیں ، ان کی باتیں ہیں جو  انھیں ہمارے دلوں میں زندہ رکھیں گی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ بال بال ان کی مغفرت فرمائے۔ ان کی لغزشوں اور کوتاہیوں کو درگزرفرمائے۔ پسمندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین

اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل

لاکھ ڈھونڈے کوئی جلتی ہوئی شمعیں لے کر

٭٭٭

رابطہ: 9494593055