علم وکتاب واٹس اپ گروپ میں مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ فتحپوری رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر آیا ہے، جس نے یادوں کےکئی ایک چراغ روشن کردئے ہیں
ہمیں یاد نہیں کہ حضرت مصلح الامت ؒ کا نام نامی پہلے پہل کب کانوں میں پڑا تھا، لیکن گمان غالب ہے کہ شعور کی سیڑھی کے پائیدان جیسے جیسے بڑھتے گئے، اسی کے ساتھ ہی آپ کا نام بھی ذہن میں پیوست ہونے لگا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی، کہ جس تکیہ محلہ میں ہم نے آنکھ کھولی تھی،اس میں ڈاکٹر علی ملپا مرحوم کی رہائش تھی، اور یہیں نکڑ پر آپ کا دواخانہ بھی تھا، ڈاکٹر صاحب شاہ صاحب کے مرید اور مجاز تھے، آپ سے بیعت کا تعلق علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہجرت کے بعد آپ کے اور مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃُ اللہ علیہ کے مشورہ پر آپ نے قائم کیا تھا، میرے ماموں محمد قاسم حافظ مرحوم جو کے آنکھوں سے معذور ہوگئے تھے، ڈاکٹر صاحب کے دواخانہ میں ان کی بیٹھک تھی،ڈاکٹر صاحب جب نوائط کالونی منتقل ہوئے تو زیادہ تر یہی دواخانہ کھولنے اور بند کرنے کا اہتمام کرتے۔ ڈاکٹر صاحب کا عصر کی نماز قریبی شاہد علی مسجد میں پڑھنے کا معمول تھا، جہاں آپ کا بعد نماز درس ہوتا، جس میں آپ حضرت مصلح الامت علیہ الرحمۃ کی خانقاہ سے جاری مجلہ معرفت حق الہ آباد کے مضامین زیادہ تر پڑھ کرسناتے اور سمجھاتے ،غالبا اس وقت اس مجلے کے مدیر ڈاکٹر صلاح الدین تھے،بعد میں اس مجلے کے بطن سے وصیۃ العرفان نکلا، جو شاید اب بھی جاری ہے۔ اللہ رحمت کرے ماموں جاں کی، نماز کو جاتے ہوئے انگلی پکڑ کر مجھے بھی لے جاتے، اور نمازوں میں میری حاضری کا خیال رکھتے، ایک طویل عرصہ تک لاشعوری کے عالم میں ان مجالس میں حاضری کا شرف اس ناچیز کو حاصل رہا۔ چونکہ شاہ صاحب سال کا بڑا عرصہ ممبئی میں قیام فرماتے تھے تو بھٹکل کے عثمان حسن جوباپومرحوم سابق ہیڈ ماسٹر انجمن ہائی اسکول وغیرہ کئی ایک اہل علم و ذوق کا آپ سے بیعت وارشاد کا تعلق ہوگیا تھا۔ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے قیام میں آپ کی دعائیں شامل رہیں، یہی تعلق تھا کہ جامعہ کی تاسیس ۱۹۶۲ء اور جامعہ آباد کے افتتاح ۱۹۷۴ء کے موقعہ پر حضرت کے خلیفہ مولانا ارشاد احمد فیض آبادیؒ مبلغ دیوبند خاص طور پر مدعو کئے گئے تھے۔
حضرت شاہ صاحب کو دوسرے معاصر بزرگان دین سے چند خصوصیات ممتاز کرتی تھیں، لوگوں کو قریب کرنے کا آپ کو عجیب ملکہ دیا تھا، ان لوگوں کو جنہیں عام طور پر تصوف کے ناقدین میں شمار کیا جاتا ہے،ان کا آپ کی مجالس میں یکساں احترام ہوتا تھا، اور یہ حضرات بھی آپ سے اسی طرح ٹوٹ کر محبت کرتے تھے، اس زمانے میں جب کہ جماعت اسلامی کے حلقہ سے حلقہ علماء کی دوری تھی، مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی رحمۃ اللہ علیہ سابق امیر جماعت وغیرہ کا آپ کی مجلسوں میں شریک ہوتے ، جہاں آپ کا بڑا احترام ہوتا تھا، اور جماعت کے کئی اور لوگ بھی آپ سے سلسلے بیعت وارشاد میں وابستہ تھے، خود ہمارے مولانا شہباز اصلاحی رحمۃُ اللہ علیہ کا ان سے بیعت و ارشاد کا تعلق تھا،جو کہ اس وقت جماعت کے اکابرین میں شمار ہوتے تھے، شہباز صاحب سے ہم نے اس سلسلے میں ایک مرتبہ دریافت بھی کیا تھا، تو فرمایا کہ حضرت کے یہاں یہ سب باتیں نہیں ہوتی تھیں۔
۱۹۷۵ء میں حضرت مصلح الامت رحمۃ اللہ علیہ کے رسائل کے دو مجموعے شائع ہوئے، جنہیں اس وقت بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، ہمارے تایا محی الدین منیری مرحوم کے سرہانے عرصے تک یہ کتاب رکھی رہتی تھی، ہمیں بھی کئی بار انہیں پڑھنے کی آپ نے نصیحت کی ، ایک مرتبہ فرمایا کہ انہیں ڈاکٹر سید انور علی مرحوم نے بھی بہت پسند کیا ہے،اور وہ ان سے بڑے متاثر ہیں، ڈاکٹر صاحب انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج کے پرنسپل اور جماعت اسلامی ہند کے فعال رکن تھے، حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کا آپ نے رد فتنہ کے نام سے جواب لکھا تھا، جو اس وقت کافی مشہور ہوئی تھی۔
۱۹۶۷ء میں جب پانی جہاز پر حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہوئے، تو دو روز بعد ۲۵ نومبر کی صبح نماز تہجد سے فراغت کے بعد جب آذان فجر میں موذن اللہ اکبر کی ندا بلند کررہا تھا، وقت موعود آگیا، تجہیز وتکفین کی گئی ،قوانین کے مطابق جسد خاکی کو سمندر کے حوالے کرنا تھا، خبر جدہ تک پہنچی، سفارتی پیمانے پر میت کو جدہ تک لانے کی کوششیں تیز ہوئیں، اور بات شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچی، اور پراونہ شاہی اس قانون سے آپ کا استثناء کے میت جدہ بندر گاہ لانے کا صادر ہوا، لیکن قدرت کا فیصلہ کچھ اور تھا، اسے آپ کی زبان کی لاج رکھنی تھی، پروانہ شاہی ملنے میں دیری ہوئی اور آپ کے جسد خاکی کو سمندر آغوش میں ڈالنے کے چند لمحوں بعد ہی یہ فرمان جہاز کے عملے تک پہنچا۔
سنا ہے کہ شاہ صاحب مبارک عظیم آبادی کا یہ شعر ہمیشہ گنگنایا کرتے تھے۔
پھول کیا ڈالوگے تربت پہ میری
خاک بھی تم سے نہ ڈالی جائے گی
حافظ اظہر علی (والد ماجد ڈاکٹر عمیر منظر) راوی ہیں کہ ممبئی میں قیام کے دوران وہ ان کی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے. ایک روز بعد فجر شاہ صاحب کسی کو ڈانٹ رہے تھے اور بار بار یہ کہہ رہے تھے تو میرا مزار بنوائے گا، مزار بنوائے گا ارے تو، تو میری خاک بھی نہیں پائے گا. اس کے کچھ دنوں کے بعد معلوم کہ آپ حج پر تشریف لے جارہے ہیں. جب شاہ صاحب کے انتقال کی خبر آئی تب جاکر اس اجنبی کو ڈانٹنے کو عقدہ کھلا.
شاہ صاحب کے ہاتھوں پر آپ کے استاد علامہ ابراہیم بلياوي سابق صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی بیعت کے ذکر پر مولانا حکیم عزیز الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ یاد آگئے، حضرت مولانا حکیم محمد ایوب اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند، مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی مہتمم ندوۃ العلماء لکھنو کے بردار بزرگ ،بڑا عرصہ دیوبند میں گزارا، گزشتہ صدی کے تیس کے دہے کے اواخر میں دارالعلوم سے بحیثیت طالب علم وابستہ ہوئے تھے، پھر یہیں کے ہورہے ،یہاں آپ نے طبیہ کالج کے قیام اور اس کے رجسٹریشن کے سلسلے میں بڑی کوششیں کیں، بڑے خود دار ، عالم فاضل آدمی اور باغ وبہارشخصیت کے مالک تھے، کئی علمی کتابیں اور طبی لغت یاد گار چھوڑی، اہلیہ کے انتقال کے بعد دبی میں اپنے اکلوتے فرزند کے پاس ٹہرے تھے، ان کے پاس ہمارا آنا جانا ہوتا، بڑی محبت کرنے والے ، مستجاب الدعوات بزرگ تھے، جب بھی کوئی مشکل درپیش ہوتی تو آپ سے دعا کی درخواست لے کر خدمت میں ہماری حاضری ہوتی تھی ، کبھی ماہ رمضان المبارک میں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ، مولانا محمد رضوان القاسمیؒ اور مولانا بدر القاسمی صاحب کی دبی آمد ہوتی تو آپ کی رہائش گاہ پر خوب محفل جمتی، اور پرانی یادیں تازہ ہوتیں۔
حکیم صاحب فرمایا کرتے تھے کہ چالیس کے دہے میں تحریک آزادی کے دوران حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان سیاسی مواقف میں اختلافات رونما ہوئے، اس دوران حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم کی سرپرستی سے علحدہ ہوئے ، وہ ایک ہیجانی زمانہ تھا، اس دوران حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ سے دارالعلوم کے اساتذہ وطلبہ کا ربط و تعلق کم ہوگیا تھا، ان کا تھانہ بھون بھی آنا جانا نہیں ہوتا،کافی عرصہ تک یہ صورت حال رہی، لیکن جب حکیم صاحب نے شاہ وصی اللہ رحمت اللہ علیہ سے بیعت و ارشاد کا تعلق قائم کیا، تو کچھ ہی عرصہ بعد شاہ صاحب نے اچانک آپ کو خلافت سے نوازا، تو آپ نے شاہ صاحب سے فرمایا مجھے خلافت دینے سے کیا فائدہ ہوگا، میں تو اس قابل نہین ، نہ ہی میں پیری مریدی کے جھمیلوں کا آدمی نہیں ہوں، میں تو ایک ہنسوڑ ہوں، لوگوں کے دل بہلاتا ہوں، ان چیزوں سے میرا کیا سروکار؟ تو حضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالی ٓپ سے بڑا کام لے گا، اور آپ کا یہ فرمانا درست ثابت ہوا، میرے بعد علامہ بلياويؒ، مولانا معراج الحقؒ نائب مہتمم دارالعلوم ، اور مولانا ارشاد احمدؒ مبلغ دارالعلوم نے حضرت مصلح الامت رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور حضرت تھانوی کے سلسلہ سے از سرنو دارالعلوم مربوط ہوا۔ یہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں، جن میں ہم چھوٹوں کے لئے درس وعبرت چھپی ہوئی ہے۔