پاکستان میں بھی قرآن عظیم کی بے حرمتی۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی

گذشتہ 35 سال سے میرے بڑے بیٹے شمعون نعمانی مدینہ منورہ میں ہیں وہاں ان کے ایک دوست بھی تھے جو اب کویت میں ایک ذمہ دار افسر ہیں۔ وہ جب مدینہ میں تھے تب بھی پابندی سے نیٹ پر اودھ نامہ پڑھتے تھے اور اب کویت میں بھی ان کی دلچسپی برقرار ہے۔ انہوں نے میاں شمعون کو تراویح سے متعلق ہمارے مضامین پڑھ کر ایک عبرت ناک واقعہ اس فرمائش کے ساتھ لکھ کر بھیجا ہے کہ وہ اسے میرے پاس بھیج دیں اور اودھ نامہ میں شائع کردیں۔ ہم نے جو لکھا ہے اس میں ایک مرتبہ پاکستان کو شامل کیا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ تراویح میں قرآن عظیم پڑھنے کا جیسا سودا ہندوستان میں ہوتا ہے ویسا ہی پاکستان میں ہوتا ہے۔ اس بات سے ہر کوئی واقف نہیں ہے کہ ملک کی تقسیم سے پہلے پانی پت اور سونی پت مسلم اکثریت کے قصبے تھے جہاں کا رواج تھا کہ ہر گھر کا لڑکا اور لڑکی حافظ قرآن ہوتے تھے۔ پانی پت میں جو قاری صاحبان تھے وہ پورے ملک میں قرأت کے امام مانے جاتے تھے۔ یہ تقسیم کی لعنت تھی کہ سب پاکستان چلے گئے اور وہاں جاکر بکھر گئے۔ اور اب وہاں بھی پانچ پارے تین پارے اور طے کئے ہوئے وقت میں پڑھنے کی بیماری آگئی۔ کویت سے آیا ہوا یہ خط اس کا ثبوت ہے۔ حفیظ ہماری تراویح کویت میں ایک پاکستانی حافظ کے ساتھ پیش آنے والا عبرت آمیز واقعہ کویت میں کچھ رہائشی مکانات کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا جہاں بھارت، جنوبی کوریا کی تعمیراتی کمپنیوں کو ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ ایک پاکستانی تعمیراتی کمپنی N.C. کو بھی چند سو مکانات کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ وہاں کام کرنے والے پاکستانی مزدوروں اور ملازموں نے اپنے رہائشی کیمپ میں ایک عارضی مسجد بنالی تھی جس میں باجماعت نماز ہوتی تھی چار پانچ ماہ کے بعد رمضان المبارک آگیا اور وہاں تراویح پڑھانے کا مسئلہ پیش ہوا۔ اگرچہ ان پاکستانی مزدوروں اور ملازمین میں ایک حافظ قرآن موجود تھے مگر وہاں کے قانون کے مطابق تراویح پڑھانے والا حافظ، عالم حکومت کی طرف سے مقرر ہونا چاہئے تھا۔ اس قانونی کارروائی میں چند دن لگ گئے اور جب وہ آئے تو ایسے وقت آئے کہ پاکستانی حافظ حافظ تراویح پڑھا رہے تھے۔ سرکاری حافظ خاموشی سے تراویح میں شریک ہوگئے اور جتنی رکعات رہ گئی تھیں وہ اسی حافظ کی امامت میں انہوں نے پڑھیں۔ تراویح کے بعد جب لوگ باہر نکلنے لگے تو سرکاری حافظ نے پاکستانی حافظ کو روکا اور کہا۔ ’’من اعطاک صلاحیۃ لقلب حع کتابنا قرآن الکریم‘‘ یعنی ’’تمہیں کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ تم ہماری کتاب قرآن کریم سے کھیل کھیلو؟‘‘ ’’ہل ترید تخلص المصحف فی لیلۃ الواحدہ‘‘ ’’کیا تم اسے ایک ہی رات میں ختم کرنا چاہتے تھے؟ پاکستانی حافظ حیران و پریشان ہوکر اِدھر اُدھر تاکنے لگے۔ ایک پاکستانی جو تھوڑی بہت عربی جانتا تھا قریب آیا اور اس نے ترجمہ کرکے پاکستانی حافظ کو بتایا کہ عرب مولوی کیا پوچھ رہا ہے؟ پاکستانی حافظ نے جواب دیا کہ مجھ سے کہاں غلطی ہوئی ہے؟ عرب مولوی نے جواب دیا کہ ’’ہل تقرؤن القرآن بہاذاشکل‘‘ پھٹ پھٹ پھٹ تم تو قرآن کو اسطرح پڑھ رہے تھے جیسے بائک اور مجھے یہ تو بتاؤ کہ جب تم تو میری بات عربی زبان میں سمجھ نہیں پارہے تھے تو تم نے قرآن کیسے یاد کرلیا؟ بولو کیا تم نے قرآن میں قرآن پڑھنے کے اصول نہیں دیکھے کہ کیسے قرآن پڑھنا چاہئے؟ کیا تم نے یہ آیت نہیں دیکھی ’’وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا ( الإسراء 106) یعنی اور ہم نے قرآن کو وقتاً فوقتاً اس لئے اتارا کہ تم مہلت کے ساتھ اسے لوگوں کو پڑھ کر سناؤ اور اس کا مطلب انہیں ذہن نشین کراؤ۔ اسی مقصد کے لئے ہم نے قرآن کو ایک بار میں ہی اتارنے کے بجائے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا تاکہ تم اسے لوگوں کو تھوڑا تھوڑا کرکے پڑھاؤ اور ذہن نشین کراتے جاؤ۔ اور پھر ایک اور آیت تم نے نہیں دیکھی کہ ’’ورتل القرآن ترتیلا‘‘ (سورۂ مزمل آیت 4) اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہرکر پڑھو؟ پھر تم کیسے بگٹٹ بھاگے چلے جارہے ہو۔ تم نے قرآن کو مقتدیوں کو ذہن نشین تو کرایا نہیں تم تو اُسے ایک ہی رات میں ختم کرنے پر تلے ہوئے نظر آئے۔ پاکستانی حافظ بہت شرمندگی محسوس کررہا تھا اسی لئے ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا کہ واللہ یا شیخ اناما عرب۔ قسم سے یا شیخ میں کچھ نہیں سمجھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ عرب مولوی نے جواب دیا کہ جب تم کچھ سمجھتے ہی نہیں تو لوگوں کے آگے کیوں کھڑے ہوتے ہو؟ مزید عربی میں کہا کہ۔ تم بہت تیز رفتاری سے قرآن پڑھتے ہو یہ جو لوگ تمہارے پیچھے کھڑے تھے یہ سنتے ہوں گے مگر سمجھتے نہیں ہوں گے۔ پاکستانی حافظ نے اپنے ترجمان ساتھی کی طرف دیکھا اور اُردو میں کہا کہ اب اس عرب بدّ و کو کون سمجھائے؟ سمجھتا تو میں بھی نہیں کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ عرب مولوی نے کہا کہ اگر آئندہ تم نے قرآن کے ساتھ کھیل کھیلا تو میں تمہیں پولیس کے حوالے کردوں گا۔ یہ ایک حقیقی واقعہ ہے جو عرب ملک کا ہے پاکستان اور ہندوستان میں تو گھر گھر کی یہی کہانی ہے۔ عہد رسالت میں جب قرآن پڑھا جاتا تھا تو سننے والوں کی جو کیفیت ہوتی تھی اسے سورۂ مائدہ آیت 83 میں بیان کیا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ۔ اور جب یہ لوگ وہ کتاب سنتے ہیں جو ہم نے نازل کی ہے تو ان کی آنکھوں سے کیسے آنسو رواں دواں ہوتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے۔ اور جب پاکستان اور ہندوستان میں ’قرآن پڑھا جاتا ہے‘ تو سننے والوں پر غنودگی طاری ہوتی ہے۔ والسلام (کویت میں جس عرب حافظ کا یہ واقعہ پیش آیا یہ بالکل ممکن ہے کہ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ جب پاکستانی حافظ سمجھتا نہیں تو اس نے یاد کیسے کرلیا۔ اور ہم اسے اللہ قادر و قدیر کا معجزہ مانتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان میں لاکھوں بچے 12 سال کی عمر کے قریب کلام پاک حفظ کرلیتے ہیں اور وہ سینوں میں محفوظ رہتا ہے اس لئے کہ پروردگار نے فرمایا ہے کہ ہم نے ہی نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ اگر قرآن کا حفظ صرف عربوں تک محدود رہتا تو شاید وہ بھی تورات اور انجیل کی طرح ہوجاتا ایک زمانہ عرب میں ایسا بھی ہمارے بزرگوں نے دیکھا ہے کہ عرب ہاتھ میں لے کر قرآن پڑھتے تھے اور ان میں حافظ آسانی سے نہیں ملتا تھا۔) حفیظ آخری مسئلہ یہ ہے کہ میں کیا بتاؤں کہ کس کس مسجد میں تراویح میں قرآن عظیم ایسا ہی پڑھا جارہا ہے جیسا اسے پڑھنے کا حکم ہے۔ سنا ہے وکاس نگر کی ایک مسجد میں ندوی عالم پڑھ رہے ہیں ندوہ میں تو ہونا ہی چاہئے پھول باغ کی مسجد کے بارے میں بھی ایک مسجد کی اچھی رپورٹ ہے اور وہ مسجد جس میں راقم حفیظ ایک کرسی پر چلا جاتا ہے اور رائے اوماناتھ بلی ہال کے سامنے اور محمود آباد ہاؤس کے قریب قیصر باغ میں ہے جہاں انشاء اللہ 25 رمضان کو ختم ہوگا۔ جن لوگوں نے تین پارے یا دو پارے کہیں سنے ہوں گے وہ آکر سن لیں کہ میں جس طرح پڑھنے پر زور دے رہا ہوں وہ بہت حد تک ویسا ہی ہے۔ میرے پاس نہ جانے کتنے فون آئے لیکن خوشی اس کی ہے کہ ان کے بھی آئے جو مسجد میں قرآن سنا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے بجائے مسجد کے متولیوں سے کہئے۔ ہم تو جیسے اور جتنے وقت میں وہ کہتے ہیں اتنا کرتے ہیں۔ Mobile No. 9984247500