سچی باتیں۔۔۔ اسلام کی گنگوتری۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

1925-08-28
فرض کیجئے ، کہ خدانخواستہ آپ بیمار ہیں، اور طبیب کی رائے کہ دریائے گنگا کا صاف ومفید پانی آپ کے مرض کا علاج ہے، تو آپ اس پانی کو کہاں تلاش فرمائیں گے، کیا، اس کے لئے بنارس تشریف لے جائیں گے، جہاں کے گھاٹ ایک سے ایک بڑھ کر خوشنما ہیں، اور جہاں خوشنما کشتیوں پر سوارہوکر سیر دریا کا پورا لطف حاصل کیاجاسکتاہے؟ کیا آپ الہ آباد کا قصد فرمائیں گے، جہاں گنگا اور جمنا کا سنگم آنکھوں کے سامنے ایک دلکش منظر پیش کرتاہے، اور جہاں ہزاروں لاکھوں جاتریون کا میلہ ہرسال ماگھ کے مہینے میں لگتاہے؟ کیا آپ کلکتہ کا رخ کریں گے ، جہاں دریائے گنگا سمندر میں گرتاہے، اور جہاں کا خوشنما منظر آپ کے لئے بہترین سیروتفریح کا حکم رکھتاہے؟ کیا اپنے مقصد کے لئے آپ ان میں سے کسی مقام کو پسند فرمائیں گے؟ کیا صاف وشفاف پانی، ان مقامات سے کہیں بھی آپ کو مل سکے گا؟ کیا خالص وبے آمیز پانی کے چند قطرے بھی آپ ایسے مقامات میں پاسکیں گے؟
ان مقامات کے علاوہ، ایک جگہ اور بھی ہے، جسے گنگوتری کہتے ہیں، یعنی وہ پہاڑی مقام جہاں سے گنگا نکلی ہے۔ یہاں کوئی خوشنما گھاٹ موجود نہیں، یہاں کسی خوشنما کشتی یا اسٹیمر کا پتہ نہیں، یہاں کوئی بڑا میلہ نہیں لگتا، یہاں تک پہونچنے کے لئے انسانی ہاتھ کی بنائی ہوئی پختہ سڑک اور انسانی دماغ کی ایجاد کی ہوئی ریل موجود نہیں، یہاں کوئی بڑا بازار ، کوئی وسیع پارک، کوئی شاندار کوٹھی موجود نہیں، لیکن پانی اگر بالکل قدرتی حالت میں مل سکتاہے تو یہیں، پانی اگر انسانی آبادی کے تمام کثافتوں، غلاظتوں، اور آلائشوں سے پاک وصاف دستیاب ہوسکتاہے، تو صرف یہیں۔ پانی اگر اپنی خالص نفع بخش تاثیروں کے ساتھ بہم پہونچ سکتاہے تو صرف اسی مقام پر۔ کانپور وکلکتہ ، ہردوار والہ آباد، بنارس وگیا میں انسانی صنعتوں، ہُنرمندیوں، اور کاریگریوں کے پورے اور بہترین نمونے آپ کی نظروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے والے بے شک آپ کو بہت ملیں گے، لیکن اگر ان ظاہری خوشنمائیوں ، آراستگیوں، اور نظر فریبیوں سے الگ ہوکر آپ کو خالص پانی کی تلاش ہے، اگر بالکل صاف اور پاک پانی کی جستجوہے، اگر واقعی صحت مطلوب ہے، اگر اپنا علاج کرنا دل سے مقصود ہے، تو آپ اس امر پر مجبور ہیں، کہ اسی کوہستانی علاقہ کی جانب رُخ کریں، یہی خشک ودشوار گزار سفر اختیار کریں (جو قدرتی مناظر کا مزہ پڑجانے کے بعد آپ کے لئے بے حد پُرلطف ودلچسپ بھی ہوجائے گا)، اور اسی پاک گنگاجل کے حاصل کرنے کے لئے ہر طرح کی محنت وتکلیف برداشت کریں۔
یہ ایک مادی مثال آپ کے سمجھنے کی غرض سے پیش کی گئی ہے۔ اب اپنے دل میں سوچئے کہ اگر اسلام کی سچائی پر آپ کو دل س یقین ہے، اگر آپ اپنی دینی ودنیاوی فلاح وبہبود کے لئے اسلام کو سب سے بہتر، سب سے یقینی، اور سب سے محفوظ ذریعہ سمجھ چکے ہیں، اگر آپ اپنی زبان ہی سے نہیں ، بلکہ دل سے بھی اسلام کی تصدیق کرسکتے ہیں، تو آپ کو یہ روحانی اورآسمانی گنگاجل، اپنی اصلی اور قدرتی ، اپنی خالص وبے آمیز، اپنی بالکل پاک وصاف حالت میں کہاں ملے گا؟ کیا چودہویں صدی ہجری کے کسی فقیہ کے اوراق ہیں؟ کیا تیرہویں صدی کے کسی درویش کے حجرہ میں؟ کیا بارہویں صدی کے کسی واعظ کی زبان میں؟ اسلام کی گنگوتری ہماری پاک وپاکیزہ ’’کتاب مبین‘‘ ہے، جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں، اور ہمارے راہ دکھانے والے کی (جس پر اللہ کی بے شمار رحمتیں ہوں) پاک وپاکیزہ سیرت، جسے اللہ نے معصوم بناکر دنیا کی کامل ترین ہدایت کے لئے بطور نمونہ کے بھیجا۔ اگر صحیح وسادہ دین فطرت، اگر قطعی ویقینی مرضی الٰہی، اگر خالص وبے آمیز پیام حق کی تلاش ہے ، تو اس کے لئے خوب مضبوطی کے ساتھ کتاب اللہ وسنت رسولؐ کو دلیل راہ بنا لینا چاہئے، اور پوری ہمت واستقلال کے ساتھ اسی پر قائم ہوجانا چاہئے۔
اگر یہ بات بالکل صاف اور روشن ہے، اگریہ نتیجہ بالکل واضح ویقینی ہے، تو پھر یہ کیا ہے کہ خدا کے حکم اور رسول کریم کی ہدایت کے موجود ہوتے ہوئے آپ مختلف انسانوں کے قول وفعل کی جانب دوڑتے ہیں، آسمانی فیصلہ کی موجودگی میں ، زید، عمر، بکر کی رائے وعمل پر تکیہ کرتے ہیں؟ اس ساڑھے تیرہ سوسال کی مدت میں امت اسلامیہ نے جتنے نیک وبرگزیدہ افراد پیداکئے، اُن کی بزرگی وعظمت سے ذرّہ بھر بھی انکار نہیں، اُن کے صالح ہونے میں ذراشک نہیں ، لیکن کیا ان میں سے کسی پر آنکھ بند کرکے اُسی طرح آپ اطمینان اور بھروسہ کرسکتے ہیں، جس طرح قرآن کریم کی لفظی اور حامل قرآن ﷺ کی عملی ہدایتوں پر؟ محدثین ہوں یا فقہاء، مجاہدین ہوں یا صوفیہ، سب اپنے اپنے درجہ ومرتبہ کے لحاظ سے آپ کی عزت وتعظیم کے حقدار ہیں، لیکن کیا ان میں سے کسی کی زندگی رسول خداﷺ کی طرح معصوم ، اور کسی کا قول کلام الٰہی کی طرح چوں وچرا کی گنجائش سے بالا ہوسکتاہے؟ گنگا کا پانی ہزاروں میل بہ رہاہے، لیکن گنگوتری کی خالص وبے آمیز حیثیت تو اور کسی مقام کے نصیب میں نہیں۔ وہاں کے شفاف اور اعلی درجہ کے قابل اطمینان پانی کو چھوڑ کر دوسری جگہوں سے پانی کی تلاش ، آپ خود فیصلہ کریں کہ عقل ودانش کے کہاں تک مطابق ہے؟