سچی باتیں۔۔۔سب کے حصے میں دو گز زمین۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

06:17AM Fri 5 Nov, 2021

21-10-1927

آج مدت کے بعد اپنے ہاں کے قبرستان میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ سامنے کس کا ڈھیر ہے؟ یہ چمیلی لونڈی کی قبر ہے۔ ساری عمر خدمتگزاری میں تمام کردی۔ پیداکرنے والے نے اسے بھی دل دیاتھا، دماغ دیاتھا، ہاتھ پَیر دئیے تھے، آنکھ کان دیئے تھے، ناک نقشہ، صورت شکل میں کوئی عیب نہ تھا۔ پہلو میں دل تھا، اور دل میں حوصلے تھے اور ولولے، ارمان تھے اور امنگیں۔ پر پیدا باندی کے پیٹ سے ہوئی تھی، ساری عمر باندی ہی بنی رہی۔ صحن، دالان، کمرہ، کوٹھری، کوٹھا، ہر جگہ جھاڑو دینا، برتن مانجنا، کھانا پکانا، پنکھا جھلنا، بیویوں کے پَیر دابنا، اندرسے باہر باربار کام کے لئے دوڑتے رہنا، ہر قسم کا کام اُس کے ذمہ تھا۔ مجال تھی ، کہ کسی قسم کی خدمت سے، کسی وقت، کسی حال میں انکار کرسکے! سونے، کھانے آرام کرنے کے کسی وقت پر بھی حق نہ تھا۔ سارے کے سارے تین سو پینسٹھ دن، اور دن کے پورے چوبیسوں گھنٹے کے لئے ’’تابعدار‘‘تھی۔ جاڑوں کی کڑکڑاتی ہوئی راتیں ہوں یا گرمیوں کی چلچلاتی ہوئی دوپہریں، عید ہو یا بقرعید، کسی روز، کسی وقت بھی چھٹی کا حق نہ تھا۔ تقریب کے دن کام اور دُگنا کرنا پڑتاتھا۔ جھڑکیاں سُننا، کوسنے سہنا، مارکھانا، شرطِ زندگی تھا۔ بڑے بوڑھوں، اور بڑی بوڑھیوں کا ذِکر نہیں، اپنے گود کے کھلائے ہوئے اور لڑکیوں تک کی گالی اور مار سب کچھ سہی، اس لئے کہ وہ ’’مالک‘‘ کی اولاد تھے! شاید اس کے پہلو میں دل نہ تھا، یا دل میں احساس باقی نہیں رہاتھا!۔

آج اس کی قبر بھی اس کی وضعداری نباہ رہی ہے۔ جس حال میں زندگی کے دن کاٹ دیئے، وہی شان قبر کی بھی ہے۔ کچی مٹی کا ایک ڈھیر ہے، جو پہلی ہی برسات میں بیٹھ گیاہے۔ اس پر نہ کوئی چبوترہ ہے نہ قُبّہ ، نہ کوئی کتبہ ہے نہ چراغاں، نہ اس کی قبر پر کوئی حافظ قرآن مقرر ہے، نہ اُس کے فاتحۂ سالانہ میں پُلاؤ تقسیم ہوتاہے، نہ اس کا جنازہ دھوم دھام سے اُٹھایاگیا، نہ کسی نے خیرات تقسیم کی۔ نہ کسی نے اس کی رحلت کا حال اخباروں میں چھپوایا، نہ کسی نے اس کے ’’انتقال پُرملال‘‘ پر کوئی مرثیہ کہا۔ نہ اِس کی تاریخ وفات کے لئے کسی نے ’’بحرِ فکر‘‘ میں غوطہ لگایا، اور نہ کسی کے کان میں آکر حضرت ہاتف نے مصرعۂ تاریخ سنایا۔ ’’شریفوں‘‘ کے بھائی اور بیٹے، دوست اور عزیز، کبھی کبھی اُن کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے کے لئے آنکلتے ہیں۔ اس بیچاری کے ڈھیر کی جانب کوئی بھی رُخ نہیں کرتا۔ کیا مرنے کے بعد بھی لونڈی لونڈی، اور باندی باندی ہی بنی رہتی ہے؟ اس کی روح فریاد رس کے دربار میں فریادکررہی ہے، اور بایّ ذنبٍ قُتِلْتْ کے ارشاد فرمانے والے کے دربار میں اس کا مقدمہ درپیش ہے!َ۔

اسی احاطہ میں چمیلی کی ’’مالکہ‘‘ بستی کی مشہور بیگم صاحبہ کا سنگین مزار بھی ہے۔ آج آقا وغلام، رئیس ورعایا، بیگم اور ماما، بیوی اور باندی کے فرق مٹ چکے ہیں، دونوں کے حصہ میں کُل دو دوگز زمین ہے، خاک کا بسترہے، کفن کی چادر ے۔ غفلت کا متوالا، انسان آج بھی امیری اور غریبی کا فرق ظاہر کرنے پہ مٹاہواہے، ایک کے سنگین مقبرہ پربجلی کا قمقمہ رات کو دِن بنائے ہوئے ہے، دوسرے کی کچے ڈھیر کو ٹمٹماتا ہوا چراغ بھی نصیب نہیں۔ لیکن اُجالے کی ضرورت آج قبر کے باہر نہیں، قبر کے اندر ہے۔ چمیلی سے آج اس کا سوال نہیں ہوگا، کہ خود کیا پہنا، اوراپنی لونڈیوں کا کیا پہنایا، خود کیاکھایا، اور اپنی باندیوں کا کیا کھلایا، اپنے آپ کو اپنی پیشخدمتوں کی زبان سے کیا کیا کَہلایا، اور خود اُن بے زبانوں کو ’’مردار‘‘ اور ’’چڑیل‘‘ ، ’’شیطان کی بچی‘‘ اور ’’حرامزادی‘‘ کہہ کر اپنی زندگی  میں کتنی  ہزار بارپُکارا! اور جس نے اِن سوالات سے امان پالی، اُس نے بہت بڑی امان پالی۔