یہ جو ہوا ناانصافی تو نہیں ہے؟

Bhatkallys

Published in - Other

01:37PM Sat 13 Feb, 2016
حفیظ نعمانی 09 فروری کو خبر آئی کہ جو سیاچن برفانی پہاڑوں پر ملک کے بہادر سپوت کسی بھی حملہ کا مقابلہ کرنے کے لئے پہرہ دے رہے تھے اور ایک برفانی طوفان کے دباؤ میں آکر ان میں دس جوان برف میں دب گئے تھے۔ ان میں سے ایک لانس نائک ہنومن تھپا زندہ نکل آیا ہے جسے بہادر جوانوں نے آندھی طوفان کی طرح دہلی کے آرمی اسپتال پہونچا دیا ہے۔ اس خبر کا آنا تھا کہ پورے ملک میں فتح کا جیسا جشن برپا ہوگیا۔ ہر کسی کی زبان پر تھا کہ ’’جاکو راکھیں سائیاں مار سکو نا کوؤ‘‘ یا ’’ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘ یہ سب اس کے باوجود ہوتا رہا کہ اسپتال کی طرف سے جو میڈیکل بلیٹن جاری ہوا اس میں ہنومن تھپا کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ بیہوشی کی وجہ سے اسے مصنوعی زندگی دفاعی سسٹم پر رکھا گیا ہے۔ اس کے جسم کے ٹھنڈے پڑچکے جسم کے حصوں میں خون کی روانی قائم کرنے میں پیچیدگیوں کی وجہ سے 48 گھنٹے خطرے کے ہیں۔ بلیٹن میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ تھپا کو نمونیہ ہے اور اس کا جگر اور گردے معمول کے مطابق کام نہیں کررہے ہیں۔ اس بلیٹن کے بعد بھی اس کے گاؤں میں خوشی کی لہر دوڑنا، اس کے گھر والوں کا دہلی کی طرف روانہ ہوجانا اور پورے ملک میں ہر ہاتھ اس کی زندگی اور صحت کے لئے اُٹھنا تو ہر اعتبار سے مناسب بات تھی لیکن اس کی بہادری کے قصیدے پڑھنا اور کہنا کہ وہ برف میں 144 گھنٹے دبے ہونے کے باوجود موت کو شکست دے کر زندہ نکل آیا۔ اور یہ ثابت کرنا کہ جیسے اس کے جو دوسرے 9 ساتھی تھے وہ تو بزدل نکلے انہوں نے موت کے آگے ہتھیار ڈال دیئے لیکن ہنومن تھپا چھ دن تک موت سے لڑتا رہا اور اسے مات دے کر زندہ نکل آیا۔ جیسے ہی وہ بہادر جوان اسپتال پہونچا اس آرمی اسپتال کی طرف بھیڑ چل پڑی فوج کے سربراہ اور دوسرے بڑے افسر اسپتال پہونچے۔ وزیر دفاع بھی آگئے اور سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ وزیر اعظم بغیر کسی باجے گاجے کے صرف تین گاڑیوں کے قافلہ کے ساتھ پہونچ گئے اور ثابت کردیا کہ وہ اپنے جوانوں سے محبت کرنے والے وزیر اعظم ہیں اور جو بڑے سے بڑا ڈاکٹر ہوسکتا تھا اس نے تین دن تک رات اور دن کی پرواہ کئے بغیر اسے کھڑا کرنے کی کوشش میں اپنی جان لڑادی لیکن تین دن کے بعد سب نے ہار مان لی۔ ہر سمجھدار آدمی یہ کیوں بھول گیا کہ چھ دن منوں ٹنوں برف میں دبے رہنے کے بعد کوئی انسان کیسے موت سے لڑسکتا ہے؟ دنیا میں زلزلے آنا اور ان کے اثر سے ہزاروں انسانوں کا مرنا عام بات ہے۔ اور یہ بھی ہر جگہ سننے میں آتا ہے کہ کوئی مرد یا عورت پانچ دن کے بعد زندہ نکلا اور کوئی آٹھ دن کے بعد نکلا جبکہ اسی چھت کے نیچے چار لاشیں نکلیں۔ یہ صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ جو ہندی میں ’’سائیاں‘‘ کہے جاتے ہیں اور عربی میں اللہ تعالیٰ زندگی اور موت ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ اسی چھت کے نیچے چار کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں اور کسی کو ہوش کی حالت میں یا بیہوشی کی حالت میں زندہ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ چار جو مرگئے وہ بزدل تھے اور وہ جو زندہ ہے وہ موت کو مات دے کر زندہ رہ گیا؟ ان تین دنوں میں جن میں ہنومن اسپتال میں رہا کسی ایک دن بھی ڈاکٹروں نے یہ اشارہ نہیں دیا کہ ہم نے مرض پر قابو پالیا۔ اصل لڑائی موت سے تھپا نے نہیں لڑی بلکہ ان انتہائی ماہر ڈاکٹروں نے لڑی جو یہ کوشش کررہے تھے کہ وہ اپنے پیروں پر چلتا ہوا باہر آئے، وزیر اعظم کے پاؤں چھوئے، اپنے افسروں کو سلوٹ کرے اور اپنے گھر جاکر آرام کرے۔ کرناٹک کے جس گاؤں میں اس کا خاندان تھا وہاں بھی جشن منایا جانے لگا۔ انتہا یہ کہ اس کی جواں سال بیوی نے کہہ دیا کہ یہ تو اس کا پنرجنم (iqutZUe) ہے۔ اور یہ سب اس لئے ہوا کہ ہر کسی نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ہنومن تھپا جب برف کی قبر سے نکل آیا تو بس بچ گیا اور کسی نے ڈاکٹروں کے بیانات پر توجہ ہی نہیں دی۔ اور جب کل دوپہر کو اس کی تصدیق کردی گئی کہ اب اس نے آخری سانس لے لی تو پورے ملک میں سوگ منایا جانے لگا۔ اس کے گھر میں صدمہ سے بدحال گھر والوں کو دکھایا گیا غم کا پیکر بنی بیوی کو دکھایا اور گاؤں کو سوگ میں ڈوبا ہوا دکھانے کے بعد یہ بھی دکھانا ضروری سمجھا کہ آخری رسوم کہاں ادا ہوں گے اور کون کون شریک ہوگا؟ اسپتال کے باہر جب تھپا کا تابوت آیا تو فوجی بینڈ باجہ بجایا گیا۔ فوج کے سربراہ، اس کے بڑے افسر، وزیر دفاع دہلی کے وزیر اعلیٰ سب نے پھول چڑھائے اور سب کچھ وہ ہوا جو یاد نہیں کہ اب تک کسی بھی جوان کا دیکھا ہو۔ صرف اس لئے کہ وہ چھ دن بعد برف کے پہاڑ سے زندہ نکلا اور جو صرف سائیاں یا اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی وہ تھپا کی بہادری نہیں تھی۔ ہنومن تھپا کے لئے جو کچھ تین دن میں ہوا اور آج ہوا وہ ان میں سے کسی ایک کے لئے کیوں نہیں ہوا جو برف کے اندر سے مردہ نکلے؟ ہم ضروری خبروں کی تلاش میں شام کو اور رات میں ٹی وی دیکھ لیتے ہیں۔ ہم نے تو ایک دن بھی تھپا کے ساتھ برف کے طوفان میں دبنے والے 9 ساتھیوں میں سے کسی ایک کا نہ گاؤں دیکھا نہ کسی کو ان کے گھر جاتا ہوا دیکھا نہ یہ ذکر سنا کہ وی آئی پی افسروں اور وزیروں کے لئے سڑک چوڑی کی جارہی ہے۔ نہ کسی کے رشہ داروں کو سینہ پیٹتے دیکھا نہ کسی کی بیوی کو اس کی آتما کی شانتی کے لئے مندر جاتے دیکھا۔ اور حد یہ ہے کہ کسی کی زبان سے ان کے نام بھی نہیں سنے؟ سیاچن وہ برف کا پہاڑ ہے جس پر ڈیوٹی دینے والا ہر جوان سونے میں تولنے کے لائق ہے۔ جہاں کی سردی میں ہر منٹ پانی جم جاتا ہو ٹوتھ پیسٹ تک پتھر ہوجاتا ہو وہاں زندگی گذارنا ہر لمحہ موت سے کھیلنا ہے۔ وزیر دفاع نے خود کہا ہے کہ یہ سوچا سمجھا فیصلہ اور قومی سلامتی سے منسلک ہے۔ اس علاقہ میں ہم نے ہزاروں فوجی کھوئے ہیں اور اب دس کے مرنے کے بعد صرف ایک کے گن گانا اور نوجوانوں کا ذکر بھی نہ کرنا ان کی توہین اور وہ جو ڈیوٹی دے رہے ہیں انہیں یہ جتانا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی سانس لیتا ہوا نکلا تو وہ ہیرو ہوگا اور مرا ہوا نکلا تو زیرو۔ ہنومن تھپا ان دس میں سے ایک تھا جو برف کے طوفان میں دب گئے تھے وہ کسی ایسی پوزیشن میں ہوگا کہ وہ سانس لے سکتا ہوگا۔ دوسرے جو نوجوان تھے انہیں اس کا موقع نہ مل سکا ہوگا تو اس میں بہادری اور بزدلی کی بات کہاں سے آگئی؟ ہنومن تھپا کی موت کی خبر پر وزیر اعظم، وزیر دفاع، وزیر اعلیٰ اکھلیش سنگھ، سونیا گاندھی اور راہل سب نے غم کا اظہار کیا لیکن ان کے علاوہ جو 9 اسی طوفان میں دبے ان کو ایک بار رسمی پرسہ دے کر دفتر لپیٹ دیا جبکہ اپنے ملک کو چین اور پاکستان کی شرارتوں سے بچانے کی خاطر سب نے جان دی۔ ہنومن تھپا کو حکومت نے 25 لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ہم نے نہیں سنا کہ دوسرے نوجوانوں کو اتنا ہی دیا یا اس سے کم؟ بات قربانی کی ہے اور قربانی سب نے دی ہے۔ اس لئے سب کے ساتھ سلوک بھی ایک جیسا ہونا چاہئے۔ نہیں تو یہ ناانصافی ہے۔