Suhail Anjum Article

Suhail Anjum

Published in - Other

07:40PM Sun 25 Aug, 2024

سال 2014 کے بعد ملک میں مسلم دشمنی کا جو ایک دور شروع ہوا تھا وہ اپنے اختتام کو پہنچتا نظر نہیں آ رہا۔ کبھی کبھار حالات کی نزاکت کے تحت اس رجحان میں کچھ کمی آ جائے تو الگ بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم منافرت کا دیو اب بھی دندناتا پھر رہا ہے اور حکومت اس کی ناک میں نکیل ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مسلم منافرت کا یہ کاروبار نجی سطحوں پر بھی چل رہا ہے اور سرکاری سطح پر بھی۔ مرکزی حکومت میں ایسے کئی وزرا ہیں کہ جب تک وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی نہ کر لیں ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ اسی طرح متعدد وزرائے اعلیٰ بھی ہیں جو مسلم دشمن ایجنڈے کو سرکاری سطح پر آگے بڑھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ نجی سطح پر دیکھیں تو آئے دن کوئی نہ کوئی شخص مسلمانوں، اسلام اور یہاں تک کہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرتا نظر آتا ہے۔ اور اگر مسلمان اس گستاخی کے خلاف احتجاج کریں تو انہی کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔

یوں تو اس معاملے میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما پیش پیش رہے ہیں اور کبھی کبھار ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر بھی اس میں شامل ہو جاتے رہے ہیں لیکن اب اس صف میں ایک نیا وزیر اعلیٰ شامل ہو گیا ہے اور اس وزیر اعلیٰ کا نام ہے ڈاکٹر موہن سنگھ۔ قارئین اس بات سے باخبر ہوں گے کہ مہاراشٹر کے ایک سادھو مہاراج گری نے جو خود کو سنت کہلاتے ہیں، پیغمبر اسلام اور امہات المومنین کی شان میں گستاخی کی۔ اس گستاخی کے خلاف مہاراشٹر میں ایف آئی آر درج تو ہوئی لیکن ابھی تک اس شخص کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ اس واقعے کے خلاف اور سنت گری کے خلاف ایف آئی درج کرانے کی نیت سے مدھیہ پردیش کے چھترپور کے مسلمان ایک تھانے پر گئے اور انھوں نے ایف آئی آر درج کرنے اور مذکورہ شخص کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

رپورٹوں کے مطابق اس وقت بڑے افسر تھانے میں موجود نہیں تھے۔ لیکن اسی درمیان کچھ لوگ مشتعل ہو گئے اور پولیس پر پتھراؤ کرنے لگے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں کئی پولیس والے زخمی ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس کی جانب سے بھی پتھراؤ کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایف آئی آر درج کرنے میں ہونے والی تاخیر پر پتھراؤ کرنے کی حمایت کوئی نہیں کر سکتا۔ جن لوگوں نے ایسا کیا ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن پولیس نے ایک سماجی و سیاسی کارکن اور ضلع چھترپور کے سابق نائب صدر حاجی محبوب علی کی عالیشان حویلی کو بلڈوزروں سے زمین بوس کر دی اور پوری عمارت کو جو کہ بیس ہزار مربع فٹ میں پھیلی ہوئی تھی، جس کی قیمت بیس کروڑ بتائی جا رہی ہے اور جو پانچ سال سے بن رہی تھی، ملبے میں تبدیل کر دیا گیا۔ صرف حویلی ہی نہیں بلکہ وہاں کھڑی تین کاریں بھی توڑ تاڑ کر کباڑ بنا دی گئیں۔

اس واقعے پر احتجاج ہو رہا ہے اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر پولیس کارروائی کی مذمت کی جا رہی ہے۔ مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سینئر کانگریس رہنما دگ وجے سنگھ نے بھی اس کارروائی کی مذمت کی ہے۔ دوسرے رہنما بھی مذمت کر رہے ہیں۔ کانگریس اقلیتی سیل کے صدر اور رکن راجیہ سبھا عمران پرتاپ گڑھی نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ اسی درمیان جب وزیر اعلیٰ سے اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص قانون ہاتھ میں لے گا تو قانون اس کے گھر جائے گا۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ قانون کی کس کتاب میں لکھا ہے کہ اگر کسی نے پتھراؤ کیا ہے تو اس کا مکان توڑ دیا جائے۔ اگر قانون اس کی اجازت دیتا ہے تو جھارکھنڈ میں ریلی نکالنے والے بی جے پی کے ان کارکنوں کے مکان بھی بلڈوزر سے توڑ دیے جانے چاہئیں جنھوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس میں کئی پولیس والے زخمی ہوئے۔

جہاں تک حاجی شہزاد علی کی حویلی کی بات ہے تو وہ پانچ سال سے بن رہی تھی لیکن کارپوریشن کو خیال نہیں آیا کہ وہ ناجائز قبضہ کر کے بنائی جا رہی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس عمارت کا کتنا حصہ ناجائز قبضے میں تھا کیا پوری عمارت تھی۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر وہ زمین پر ناجائز قبضہ کر کے بنائی گئی تھی تو اس کو توڑنے سے قبل نوٹس کیوں نہیں دیا گیا۔ جب پولیس پر پتھراؤ ہوا جبھی کیوں حکومت کو خیال آیا کہ وہ عمارت غیر قانونی ہے۔ اور پھر حاجی شہزاد کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ تشدد شروع ہو گیا ہے تو انھوں نے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور جب لوگ نہیں مانے تو وہ وہاں سے ہٹ گئے۔ یعنی وہ پتھراؤ میں شامل نہیں تھے۔ لیکن حکومت نے دیکھا کہ شہزاد کی عمارت سب سے عالیشان ہے لہٰذا اسی کو بلڈوز کیا جائے۔

ادھر آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اپنی مسلم دشمنی کی راہ پر آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنا لوجی میگھالیہ (یو ایس ٹی ایم) کے تعلیم یافتہ طلبہ کو آسام میں سرکاری ملازمت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے یونیورسٹی کے گیٹ پر بنے تین گنبدوں کے بارے میں کہا کہ ان سے دہشت گردی کی بو آتی ہے اور یونیورسٹی سیلاب جہاد میں مصروف ہے۔ حالانکہ خود ہیمنت بسوا سرما اور بی جے پی کے متعدد مرکزی وزرا اس یونیورسٹی کا دورہ کر چکے اور وہاں کا معائنہ کر چکے ہیں۔ اس یونیورسٹی کو ابھی ابھی پہلا انعام ملا ہے۔ اس میں اسلام کی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ جدید علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ طلبہ میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے۔ مسلم طلبہ کی تعداد بمشکل پچیس تیس فیصد ہوگی۔ لیکن ہیمنت بسوا سرما نے اس پر دہشت گردی کا الزام کیوں لگایا یہ بات ناقابل فہم ہے۔ البتہ کچھ لوگ شبہ کر رہے ہیں کہ چونکہ اس کو ایک مسلمان محبوب الحق نے قائم کیا ہے جو علیگیرین ہیں اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں اس لیے اس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تو کیا اس سے پہلے ہیمنت بسوا کو یہ بات نہیں معلوم تھی۔ جب وہ انہی وائس چانسلر کے ساتھ دورہ کر رہے تھے اور تصاویر کھنچوا رہے تھے تو انھیں نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک مسلمان ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ذہن و دماغ میں مسلم منافرت کا جو کیڑا ہے وہ رینگنے لگا اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا۔

انھوں نے بنگلہ دیش میں حالیہ بغاوت کے بعد کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش سے ہندو بھارت میں داخل نہیں ہو رہے ہیں البتہ بہت سے مسلم درانداز پکڑے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہند بنگلہ سرحد پر بی ایس ایف کا زبردست پہرہ ہے ایسے میں کوئی سرحد پار کر کے کیسے آسام میں داخل ہو سکتا ہے۔ دراصل یہ وہی ذہنیت ہے جو این آر سی کروا رہی تھی۔ این آر سی کا نتیجہ جب سامنے آیا تو سولہ لاکھ ہندو اس سے باہر ہو گئے تھے۔ ایسے مسلمانوں کی تعداد صرف چھ لاکھ تھی۔ دریں اثنا ایک غیر مسلم طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور اس سلسلے میں ایک مسلمان کو پکڑا گیا تھا جو پولیس سے بچنے کی کوشش میں ایک تالاب میں چھلانگ لگا بیٹھا اور ہلاک ہو گیا۔ اس واقعے کی آڑ میں بھی وزیر اعلیٰ نے مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کی ہے۔ اس سے قبل وہ سیکڑوں مدارس کو بند کر چکے اور انھیں اسکولوں میں تبدیل کر چکے ہیں۔

ادھر اترپردیش میں مدارس کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ حالانکہ حکومت نے جو ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی اس نے مدارس کے حساب کتاب میں کوئی گڑبڑی نہیں پائی اور نہ ہی ہندوستان نیپال سرحد پر واقع مدارس کا کوئی تعلق دہشت گردی سے ثابت ہو سکا۔ اس کے باوجود مختلف بہانوں سے ان کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کے حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ سیاسی فائدے کے لیے ہندوستان کا بہت بڑا نقصان کر رہے ہیں۔ اس ملک میں ہندو مسلم بھائی چارہ اور پیار محبت صدیوں سے رہا ہے۔ کبھی بھی ان کو ایک دوسرے سے خطرہ اور ڈر محسوس نہیں ہوا لیکن اب ان دونوں بڑے فرقوں کو ایک دوسرے کے بالمقابل صف آرا کیا جا رہا ہے اور جو پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں ہندوؤں کی بہت بڑی اکثریت مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگی ہے۔ یہ صورت حال ہندوستان کے مستقبل کے لیے بہت سنگین ہے اور اس کے انتہائی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔