Suhail Anjum Article
اس وقت میڈیا میں اگر کوئی موضوع زیر گفتگو ہے تو وہ پارلیمنٹ کے مکر گیٹ پر ہونے والا دھکا مکی کا واقعہ ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے معزز ارکان نے پارلیمنٹ کے وقار کا کوئی خیال نہیں رکھا اور اپنے کردار سے اس کے وقار کو ملیامیٹ کر دیا۔ وہاں جو کچھ ہوا وہ تو شرمناک ہے ہی لیکن اس کے بعد حکمراں جماعت کی طرف سے جو بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ بھی کم شرمناک نہیں ہیں۔ بی جے پی کے رہنما اور ترجمان گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ بتا رہے ہیں کہ قائد حزب اختلاف اور کانگریس پارٹی کے سینئر رکن راہل گاندھی نے دھکا مار کر دو معزز ارکان کو زخمی کر دیا۔ وہ دونوں تادم تحریر رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل ہیں اور بی جے پی کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔
اس درمیان جو واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ بڑے مضحکہ خیز ہیں اور خود حکومت اور بی جے پی کی رسوائی کا سامان بن رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ایسا کبھی سنا نہ دیکھا کہ کسی نے کسی کو دھکا مار دیا اور وہ اس دھکے سے اتنی بری طرح زخمی ہو گیا کہ اسے اسپتال کے آئی سی یو میں داخل کرانا پڑا اور اس کی حالت نازک ہو گئی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ دھکا جسمانی تھا یا کسی ہتھیار کا تھا۔ ظاہر ہے وہاں تو کوئی ہتھیار لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ بی جے پی کے ممبران نے جو تختیاں اٹھا رکھی تھیں ان میں موٹے موٹے ڈنڈے لگے ہوئے تھے۔ کیا پتہ اس ہنگامہ آرائی میں کسی بی جے پی ایم پی کا ڈنڈا دانستہ یا نادانستہ ایک ایم پی پرتاپ سارنگی کو لگ گیا ہو اور ان کی پیشانی سے خون بہہ نکلا ہو۔
یہ بھی خوب مضحکہ خیز ہے کہ پارلیمنٹ کے باہر جب پرتاپ سارنگی کو چوٹ لگی تو جو لوگ ان کی پیشانی پر کپڑا یا کاٹن لگائے ہوئے تھے وہ جگہ بڑی مختصر تھی۔ یعنی ان کو زیادہ بڑا زخم نہیں لگا تھا۔ اسپتال میں صرف دو ٹانکے لگے۔ آجکل تو معمولی چوٹ پر بھی ٹانکے لگائے جاتے ہیں۔ دوپہر ہوتے ہوتے پیشانی پر بندھے بینڈیج کی لمبائی بڑھنے لگی۔ شام میں پانچ بجے تک وہ بینڈیج تقریباً پوری پیشانی تک پہنچ گیا۔ لیکن اس کے بعد تو اور کمال ہو گیا کہ پورے سر پر پٹی بندھی نظر آنے لگی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسپتال کے ڈاکٹروں کے پاس زخم کو سکھانے کے بجائے اسے ہرا کرنے کی کوئی دوا ہو اور وہ دوا کھاد کا کام دے رہی ہو۔ یعنی صبح پٹی دو انچ، شام میں چار انچ اور رات میں پورا سر۔ واہ ایسا کیس تو کبھی دیکھا نہ سنا۔ بی جے پی کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ دوسرے زخمی ایم پی مکیش راجپوت کی حالت نازک ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ ان کو کہاں چوٹ لگی ہے۔ سر میں یا دل میں۔ آخر ان کی حالت نازک کیسے ہو گئی۔ اگر حالت نازک ہے تو ڈاکٹر ان کی صحت بلیٹن کیوں نہیں جاری کر رہے ہیں۔
اسی کے ساتھ ’عیادت تماشہ‘ بھی چلتا رہا۔ سب سے پہلے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے مکیش راجپوت کو فون کیا اور کہا گیا کہ اسپیکر آن کرو (تاکہ پورا ملک سن سکے)۔ وزیر اعظم نے ان کی خیریت پوچھی جس پر انھوں نے بتایا کہ وہ ٹھیک ہیں۔ لیکن وزیر اعظم نے کہا کہ اپنا خیال رکھنا اور جلد وہاں سے مت نکلنا خوب اچھی طرح اپنا علاج کرانا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک اشارہ تھا کہ بھلے ٹھیک ہو جاؤ مگر اسپتال سے چھٹی مت لیا۔ کیونکہ اگر دونوں مریض ڈس چارج ہو گئے تو پورا کھیل ہی ختم ہو جائے گا۔ اس لیے ممکن ہے کہ ڈاکٹروں سے بھی کہا گیا ہو کہ انھیں جلد چھٹی مت دینا۔ عیادت کرنے والے مرکزی وزرا کا تانتا لگ گیا۔ شیو راج سنگھ چوہان نے تو میڈیا کے سامنے پرتاپ سارنگی کی حالت کا ایسا نقشہ کھینچا کہ لگا کہ کہیں وہ پرلوک نہ سدھار جائیں۔ ان کی حالت بتاتے بتاتے چوہان کی حالت نازک ہو گئی۔
ادھر میڈیا والے دونوں بی جے پی ممبران کی چوٹ کا تو ذکر کر رہے ہیں لیکن کانگریسی ممبران بالخصوص پارٹی صدر ملکارجن کھڑگے کو لگنے والی چوٹ کا ذکر نہیں کر رہے ہیں۔ کانگریس کی ممبر پرینکا گاندھی نے اس سلسلے میں میڈیا کے سامنے کافی تفصیلی بیان دیا اور بتایا کہ کس طرح بی جے پی ممبران نے نہ صرف ان کا راستہ روکا بلکہ ان لوگوں کو دھکا بھی دیا۔ کئی کانگریسی ایم پی گر پڑے اور اسی دوران ملکارجن کھڑگے کا گھٹنا چھل گیا۔ کسی طرح سے ایک کرسی لا کر ان کو بٹھایا گیا۔ لیکن چونکہ کانگریسیوں کو ڈرامہ کرنے کا فن نہیں آتا اس لیے وہ اپنی تکلیف بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر ملکارجن کھڑگے کسی اسپتال میں داخل بھی ہو جائیں تو ان کی خبر کوئی میڈیا والا نہیں دے گا۔ وہ بیچارے وہیں تن تنہا پڑے رہیں گے۔
خود راہل گاندھی نے بھی پریس کانفرنس کر کے صورت حال میڈیا کے سامنے رکھی۔ انھوں نے میڈیا نمائندوں سے کہا کہ آپ لوگوں کے کیمرے میں بھی سب کچھ قید ہوگا اس کو چیک کیجیے۔ لیکن لگتا ہے کہ ان لوگوں کو اس موقع کا فوٹیج جاری کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ اسی درمیان بی جے پی کی ایک خاتون راجیہ سبھا ممبر نے راہل گاندھی پر ان کے بہت قریب ہو جانے کا الزام لگا دیا اور کہا کہ اس سے ان کو بڑی پریشانی محسوس ہوئی تھی۔ کیا یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ جب کہیں دھکا مکی ہوتی ہے تو لوگ ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں۔ جب وہاں یہ سب ہو رہا تھا تو خاتون ایم پی کو بھیڑ میں کھڑے رہنے کی کیا ضرورت تھی۔ ویسے ہمیں راہل گاندھی سے یہ بالکل توقع نہیں ہے کہ وہ کسی خاتون کی پریشانی کا باعث بنیں گے۔ ان میں اتنی شرافت ہے کہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے فوراً ایک بیان میں کہا کہ میں راہل گاندھی کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ وہ انتہائی شریف اور مہذب آدمی ہیں۔ وہ کسی کو دھکا نہیں مار سکتے۔
لیکن بہرحال دھکے بازی تو ہوئی ہے۔ تاہم تادم تحریر یہ واضح نہیں ہے کہ دھکا باز لوگ کون ہیں۔ کیونکہ نہ تو حکومت کی جانب سے ان واقعات کا سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کیا جا رہا ہے اور نہ پارلیمنٹ سکریٹریٹ کی جانب سے ہی۔ جبکہ وہاں چاروں طرف کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ راہل گاندھی نے دھکا مارا۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس کا فوٹیج جاری کرنے میں کیا پریشانی ہے۔ تاکہ عوام کو معلوم ہو کہ قصور وار راہل گاندھی ہی ہیں۔ لیکن فوٹج کیسے جاری کیا جائے! کیا پتہ یہ اندیشہ ہو کہ اس سے ڈھول کا پول کھل جائے گا اور یہ معلوم ہو جائے گا کہ قصوروار راہل گاندھی نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔ کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کا فوٹیج جاری کیا جائے۔ لیکن کوئی فوٹیج ہو جب تو جاری کریں!
راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تاکہ اڈانی کا معاملہ دبایا جا سکے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے بابا صاحب امبیڈکر کی جو توہین کی ہے اس معاملے کو ٹھنڈا کرنا مقصد تھا۔ اسی لیے ایک منصوبے کے تحت یہ سب کچھ کیا گیا۔ تاکہ امت شاہ کو بچایا جا سکے اور اس پورے معاملے کا رخ کانگریس کے ممبر اور قائد حزب اختلاف راہل گاندھی پر دھکا مارنے کا الزام لگا کر دوسری طرف موڑ دیا جائے۔