Suhail Anjum Article
ہندوستان میں اب یہ ایک عام بات بن گئی ہے کہ جب بھی کہیں الیکشن ہونے والا ہوتا ہے تو اس سے پہلے ہی نفرت انگیز بیانات اور اقدامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ممبئی کے ٹاٹا کینسر ہاسپٹل کے سامنے ایک شخص کے لنگر میں جے شری رام بلوا کر کھانا دینے کا معاملہ تو خوب وائرل ہوا ہے۔ اس سے قبل بی جے پی رہنما اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ بہار کے بعض مسلم علاقوں میں یاترا نکال کر ماحول کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرنے کی مہم چھیڑ چکے ہیں۔ ادھر اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ کا نعرہ لگا کر اس ماحول کو اور گرم کر دیا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ آر ایس ایس نے بھی اس خطرناک نعرے کی تائید کر دی ہے۔ اسی درمیان دیوالی کو بھی نفرت انگیزی کا ایک ذریعہ بنانے کی کوشش کی گئی اور اس میں بھی گری راج سنگھ کا نام آیا ہے۔ اس مہم میں اردو زبان کو بھی ملوث کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اب تو کوئی بھی ایسا واقعہ جس کا تعلق کسی بھی طرح مسلمانوں سے ہو یا کوئی بھی نام جو اردو زبان میں ہو اس کو فوراً نفرت انگیزی کا ایک ہتھیار بنا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اردو زبان مسلمانوں کی نہیں ہے اور نہ ہی غیر ملکی ہے۔ وہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کی ہے اور تمام مذاہب کے ماننے والوں نے بلا امتیاز و تفریق اس زبان کی خدمت کی ہے۔ یہ گنگا جمنی تہذیب کی زبان اور ایک وقت میں تمام اہل وطن کی مادری زبان رہی ہے۔ اردو ادب و صحافت کو پروان چڑھانے میں غیر مسلموں کی خدمات مسلمانوں سے کم نہیں ہیں۔ لیکن اسے بھی فرقہ واریت کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ جن شہروں کے نام اردو میں ہیں ان کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود اردو زبان ہے کہ سر چڑھ کر بول رہی ہے۔
اردو مخالفت کے نام پر مسلم دشمنی کا تازہ مظاہرہ اس دیوالی پر بھی ہوا۔ کانپور کے ایک باوقار تعلیمی ادارے آئی آئی ٹی کے طلبہ کے ایک گروپ نے دیوالی سے چند روز قبل جشن منانے کا پروگرام بنایا اور اس کا نام انھوں نے ’جشن روشنی‘ رکھا۔ انھوں نے جو لائٹنگ کی اس میں جشن روشنی کو بلبوں سے سجایا گیا اور یہ نعرہ دور سے ہی روشن نظر آ رہا تھا۔ لیکن کچھ طلبہ اور اساتذہ نے اس کی مخالفت کی اور جشن اردو کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ طلبہ نے کسی تنازعے سے بچنے کے لیے مجبوراً جشن روشنی کی لائٹ بند کر دی۔ حالانکہ طلبہ کا کہنا ہے کہ جشن روشنی ایک خوبصورت نام ہے۔ اردو زبان مکمل طور پر ہندوستانی ہے۔ لیکن جو لوگ اس کی خوبصورتی اور دلکشی کو نہیں سمجھتے وہ اسے مغلوں کی زبان بتاتے ہیں۔
بعض طلبہ اور اساتذہ نے اردو الفاظ کی مخالفت کی جس سے ایک تنازع پیدا ہوا۔ لیکن اس میں بھی گری راج سنگھ کود پڑے۔ انھوں نے اسے ہندو تہوار کا اسلامی کرن کرنا قرار دیا۔ حالانکہ دیوالی کا تہوار مسلمان بھی مناتے ہیں۔ وہ بھی اپنے گھروں میں دیے جلاتے اور روشنی کرتے ہیں۔ پٹاخہ بازی میں بھی وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ لیکن اس خوبصورت تہوار کو بھی جو کہ بدی پر نیکی کی فتح سے عبارت ہے، ایک تنگ دائرے میں قید کرنے اور اس کو مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کوشش ہونے لگی ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ دیوالی پر اردو الفاظ کے استعمال کو مسلم دشمنی میں بدل دیا گیا۔ اس سے پہلے بھی ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔
اس سے قبل جب سی اے اے کے خلاف تحریک چل رہی تھی تو آئی آئی ٹی کانپور کے طلبہ نے بھی ایک احتجاجی مارچ نکالا تھا۔ اس میں بھی فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ گائی گئی تھی۔ لیکن طلبہ کے ایک گروپ نے جن کا تعلق اے بی وی پی سے تھا اس کی مخالفت کی اور یہ نظم بند کروا دی گئی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس نظم کے پڑھنے پر قانونی کارروائی بھی کی گئی تھی۔ اب تو تعلیمی اداروں کے ماحول کو فرقہ واریت کی بارود سے مسموم کر دیا گیا ہے۔
چند سال قبل ملبوسات کے ایک مشہور برانڈ ’فیب انڈیا‘ کو اپنا ایک اشتہار محض اس وجہ سے ہٹا دینا پڑا تھا کہ اس میں اردو کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ بی جے پی رہنما اور رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریہ نے اس اشتہار پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دیوالی جشن رِواز (رواج) نہیں ہے‘۔ انھوں نے اسے ہندو تہواروں کے ’ابراہیمی کرن‘ سے تعبیر کیا اور کہا کہ اس ’جرم‘کی پاداش میں مذکورہ کمپنی کو مالی نقصان سے دوچار ہونا چاہیے۔ اس کے بعد فیب انڈیا کے خلاف ایک مہم چل پڑی اور اسے مجبور ہو کر اپنا یہ اشتہار واپس لینا پڑا۔
جہاں تک اس اشتہار کا تعلق تھا تو وہ دیوالی سے متعلق نہیں تھا۔ اس کی وضاحت کمپنی نے بھی کی اور بتایا کہ دیوالی کلکشن بعد میں آنے والی ہے۔ دوسرے یہ کہ اردو لفظ کا املا غلط تھا۔ اسے ’رِواز‘ لکھا گیا تھا جبکہ اصل لفظ ’رواج‘ ہے۔ اشتہار میں جو زبان استعمال کی گئی اس سے بھی نہیں لگتا تھا کہ وہ دیوالی کلکشن کا اشتہار تھا۔ البتہ اس میں روشنیوں کی بات کی گئی تھی۔ اور سب سے اہم اور خطرناک بات یہ ہے کہ اردو لفظ کی مخالفت کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے۔ اعتراض میں کہا گیا کہ ’یہ ابراہیمی کرن‘ کی کوشش ہے۔ جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان تو اردو تھی ہی نہیں۔ بلکہ اس وقت تک تو اردو پیدا بھی نہیں ہوئی تھی۔ تو پھر اسے ابراہیمی کرن کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب بہت صاف ہے کہ مذکورہ اصطلاح کا استعمال کرکے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
جس طرح اس معاملے کو اٹھایا گیا اور اسے ہندووں کے تہوار کی تضحیک قرار دیا گیا ہمیں ڈر ہے کہ کہیں مسلمانوں پر یہ الزام عاید نہ کر دیا جائے کہ وہ ’شاعری جہاد‘ اور ’لٹریچر جہاد‘ چھیڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اردو ادب و شاعری میں نہ صرف دیوالی بلکہ ہندووں کے دیگر تہواروں پر بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ہندو مذہب کی مہان ہستیوں کی شان میں قصیدے لکھے گئے اور مضامین قلمبند کیے گئے ہیں۔ اگر تعصب اسی طرح بڑھتا رہا تو یہ نہ کہہ دیا جائے کہ اقبال نے یہ شعر لکھ کر کہ ’ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز، اہل وطن سمجھتے ہیں اس کو امام ہند‘ مریادا پرشوتم کی توہین و تذلیل کی ہے۔ احتجاجی تحریکوں میں گرمی اور جوش پیدا کرنے کے لیے ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور یہ نعرہ سبھی لگاتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آگے چل کر اسے بھی مسلمانوں کا نعرہ قرار دے دیا جائے۔ ہندو مذہب کی بہت سی مقدس کتابوں جیسے کہ وید، پران اور گیتا کے اردو میں بے شمار تراجم ہوئے ہیں۔ کہیں یہ نہ کہہ دیا جائے کہ مسلمانوں نے ان تراجم کی مدد سے ہندووں کے پوتر گرنتھوں کو اَپوتر کر دیا ہے۔
اردو کے متعدد شعرا نے ہولی، دیوالی، دسہرہ اور دیگر تہواروں پر نظمیں لکھی ہیں ، کیا اردو کی مخالفت کرنے والے اسے نظرانداز کر سکیں گے۔ ہندوستان مشترکہ تہذیب و ثقافت کا ملک ہے۔ یہاں ہر مذہب کے تہوار ہر مذہب کے پیروکار مل کر مناتے ہیں۔ کیا پریم چند کے افسانے ’عید گاہ‘ کو کوئی شخص فراموش کر سکتا ہے۔ ہندو تہواروں پر نظمیں لکھنے والوں میں نظیر اکبرآبادی سرفہرست ہیں۔ انھوں نے دیوالی پر بھی نظم لکھی ہے۔ جس کا پہلا بند یوں ہے:
ہر اِک مکاں میں جلا پھر دیا دیوالی کا
ہر اک طرف کو اجالا ہوا دیوالی کا
سبھی کے دل میں سماں بھا گیا دیوالی کا
کسی کے دل کو مزا خوش لگا دیوالی کا
عجب بہار کا ہے دن بنا دیوالی کا
شاد عارفی کی نظم دیوالی کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں:
ہو رہے ہیں رات کے دیوں کے ہر سو اہتمام
صبح سے جلوہ نما ہے آج دیوالی کی شام
ہو چکی گھر گھر سپیدی دھل رہی ہیں نالیاں
پھرتی ہیں کوچوں میں مٹّی کے کھلونے والیاں
دوسرے متعدد شعرا نے بھی دیوالی پر نظمیں لکھی ہیں۔ کس گنگا جمنا میں ان نظموں اور اشعار کا جل پرواہ کیا جائے گا؟
(ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج تمام باتیں مضمون نگار کے ذاتی رائے پر مبنی ہیں اس سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)