Suhail Anjum Article

Suhail Anjum

Published in - Other

08:31PM Sun 15 Dec, 2024

الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے خلاف عوامی بداعتمادی بڑھتی جا رہی ہے۔ دہلی میں اس کے خلاف بعض وکلا اور سیاست دانوں کی جانب سے تحریک بہت پہلے سے چل رہی ہے۔ اب اس تحریک کو گاؤں دیہات کی حمایت بھی ملنے لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تحریک جلد ہی ایک انقلاب کی شکل اختیار کر لے گی اور حکومت اور الیکشن کمیشن کو مجبور ہو کر بیلٹ پیپر سے ووٹنگ کرانی پڑے گی۔ ای وی ایم کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی پٹیشنز داخل کی گئی تھیں۔ جن پر سماعت کرتے ہوئے عدالتی بینچ نے ان کو رد کر دیا اور بیلٹ پیپر سے پولنگ کرانے سے انکار کر دیا۔ جب عدالت میں کہا گیا کہ تمام ترقی یافتہ ملکوں میں ای وی ایم بند ہو گئی ہے تو عدالت نے کہا کہ ہندوستان کو ان سے الگ ہونا چاہیے۔ یہ دلیل کسی کے گلے نہیں اتری۔ کانگریس نے بھی ای وی ایم کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے اعلان کر دیا ہے کہ ای وی ایم سے پولنگ ناقابل قبول ہے۔

گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے شولاپور کے مالشیرس اسمبلی حلقے میں آنے والے مرکڈواڑی گاؤں میں ای وی ایم کے خلاف ایک ایسی تحریک اٹھی تھی جو انتخابی تاریخ میں ایک مثال بن گئی۔ اس حلقے سے این سی پی شرد پوار گروپ کے اتم راؤ جانکر نے بی جے پی کے رام ستپتے کو شکست دے دی۔ مرکڑواڈی گاؤں جانکر کا حمایتی ہے اور تقریباً پورے گاؤں نے ان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ لیکن جب ووٹوں کی گنتی کی گئی تو جانکر کو ستپتے سے کم ووٹ ملے۔ اس پر گاؤں کے لوگ حیران رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نے جانکر کو ووٹ دیا تو بی جے پی کے امیدوار کو زیادہ ووٹ کیسے مل گئے۔ انھیں ای ویایم پر شک ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ ای وی ایم میں گڑبڑ کی گئی ہے۔ لہٰذا انھوں نے پہلے تحصیلدار سے ملاقات کی اور کہا کہ وہ اپنی تسلی کے لیے بیلٹ پیپر سے نقلی پولنگ کرانا چاہتے ہیں تاکہ وہ خود کو جانچ سکیں کہ کس کو زیادہ ووٹ پڑے۔ لیکن تحصیلدار نے بیلٹ پیپر سے نقلی پولنگ کرانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے ضلع کے افسران سے ملاقات کی۔ لیکن انھوں نے بھی انکار کر دیا۔

اس کے بعد انھوں نے اپنے طور پر پولنگ کرانے کا فیصلہ کیا۔ بالکل الیکشن کمیشن ہی کی طرح بیلٹ پیپر چھپوائے گئے۔ بیلٹ باکسوں کا انتظام کیا گیا۔ پریزائڈنگ افسر مقرر کیے گئے۔ بینر لگوائے گئے۔ گاؤں میں ایک بڑا سا پنڈال لگایا گیا جہاں مرد و خواتین آکر بیٹھ گئے تاکہ اپنا نمبر آنے پر ووٹ دیں۔ بالکل الیکشن کمیشن کی طرح سارے انتظامات کیے گئے۔ لیکن اس سے پہلے ہی پولیس گاؤں والوں کو دھمکانے لگی۔ جس دن پولنگ ہونی تھی اس دن سیکڑوں کی تعداد میں پولیس والے پہنچ گئے اور دھمکی دینے لگے کہ اگر پولنگ ہوئی تو سب کے خلاف مقدمہ کر دیا جائے گا۔ پولنگ کے پہلے سے ہی وہاں حکم امتناعی نافذ کر دیا گیا۔ جب معاملہ بہت زیادہ بگڑ گیا تو این سی پی کے ایم ایل اے نے گاؤں والوں کو سمجھایا کہ اگر پولنگ کرائی جاتی ہے تو پولیس کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وہ گاؤں والوں کو فرضی مقدمات میں پھنسا دے گی لہٰذا پولنگ نہ کرائی جائے۔ اس طرح پولیس نے پولنگ نہیں ہونے دی۔ بعد میں خبر آئی کہ دو سو افراد کے خلاف مقدمہ قائم کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ ہم نتیجے پر اثرانداز ہونے کے لیے ایسا نہیں کر رہے ہیں بلکہ صرف اپنی تسلی کے لیے کر رہے ہیں۔ لیکن بہرحال پولیس نے اجازت نہیں دی۔ اس گاؤں سے لے کر دہلی تک ایک ہنگامہ برپا رہا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی کہ حکومت اور الیکشن کمیشن کو اپنی پول کھل جانے کا خطرہ تھا۔ حکومت کے ذمے داروں کا کہنا ہے کہ چونکہ الیکشن کمیشن کے ضوابط میں اس طرح پولنگ کرانے کا کوئی انتظام نہیں ہے لہٰذا یہ غیر قانونی ہے۔

ادھر اب یہ خبر آئی ہے کہ مہاراشٹر کے ستارا ضلع کے کولے واڑی گاؤں سبھا کے لوگوں نے ایک قرارداد منظور کر کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ لوگ آئندہ ای وی ایم سے ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ ووٹ ڈالیں گے تو صرف بیلٹ پیپر سے۔ یہ گاؤں کراڈ اسمبلی حلقہ( جنوب) کے تحت آتا ہے۔ یہاں سے کانگریس کے سابق لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوہان نمائندگی کرتے تھے۔ انھیں حالیہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی امیدوار سے شکست ہوئی ہے۔ کولے واڑی گاؤں کے لوگوں نے بھی ای وی ایم پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ ان کا بھی خیال ہے کہ مشین میں گڑ بڑی کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ عوامی جذبات کا خیال کرتے ہوئے بیلٹ پیپر سے الیکشن کرانے کا عمل دوبارہ نافذ کرے۔ تاہم مقامی انتظامیہ کی جانب سے فی الحال اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

دراصل ایک عرصے سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ای وی ایم میں گڑ بڑ کی جاتی ہے۔ ایسی بیشتر شکایتیں سامنے آئی ہیں کہ جتنے ووٹ پول نہیں ہوئے گنتی میں اس سے زیادہ نکلے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن حلقوں میں بی جے پی کا کوئی اثر نہیں ہے وہاں سے بھی بی جے پی جیت جاتی ہے۔ یہ شکایت بھی کی جاتی ہے کہ الیکشن کمیشن پولنگ ختم ہونے کے بعد جو ٹرن آوٹ بتاتا ہے چند گھنٹوں کے بعد اس میں کافی اضافہ دکھاتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ایک ایک ہفتے کے بعد بھی کمیشن کی جانب سے پول ہوئے ووٹ میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جبکہ مشین سے گننے میں کوئی وقت نہیں لگتا۔ کمیشن تھوڑی دیر ہی میں بتا سکتا ہے کہ حتمی ٹرن آوٹ کیا ہے۔ جب بیلٹ پیپر سے پولنگ ہوتی تھی تو اسی دن شام میں چھ بجے بتا دیا جاتا تھا کہ فلاں حلقے میں اتنا ٹرن آوٹ ہوا ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ مشین سے گننے میں بھی ہفتوں لگ جاتے ہیں۔

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ووٹنگ مشینوں کو ہیک کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی مشین ایسی نہیں جس میں گڑبڑ نہ کی جا سکے۔ لیکن الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ اس کی مشینوں کو ہیک نہیں کیا جا سکتا۔ جب بہت زیادہ شکایات آنے لگیں تو مشینوں میں پرچیوں کا انتظام کیا گیا۔ یعنی وی وی پیٹ لگایا گیا۔ اس نظام کے تحت ووٹر ووٹ ڈالنے کے بعد یہ دیکھ سکتا ہے کہ اس نے جس کو ووٹ دیا ہے پرچی پر وہی نشان آیا ہے یا کچھ اور۔ وی وی پیٹ کا مقصد یہ تھا کہ ان پرچیوں کا مشین میں پڑے ووٹوں سے ملان کر کے دیکھا جائے کہ وہ ایک جیسے ہیں یا ان میں فرق ہے۔ لیکن تمام پرچیوں کو گننے سے انکار کر دیا گیا۔ کچھ پرچیوں کو چیک کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ شبہ ہے کہ مشین میں ایسی گڑبڑ کی جاتی ہے اور اس کے پروگرام میں ایسی تبدیلی کر دی جاتی ہے کہ چند گھنٹوں کے بعد جو ووٹ ڈالے جائیں وہ ایک مخصوص پارٹی کو پڑیں۔ حالانکہ الیکشن کمیشن نے تمام قسم کی شکایات کو مسترد کر دیا ہے۔ لیکن جس طرح بی جے پی کے خلاف ہوا ہونے کے باوجود اسی کی جیت ہوتی ہے اس سے شبہے کا پیدا ہونا فطری ہے۔

حالیہ دنوں میں اس لیے بھی شبہ ظاہر کیا گیا کہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی بہت خراب رہی۔ اسے اکثریت نہیں مل سکی۔ لیکن ہریانہ میں وہ جیت گئی۔ جبکہ وہاں بی جے پی کے خلاف آندھی چل رہی تھی۔ اسی طرح مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی کے حق میں کوئی ہوا نہیں تھی لیکن اسے حیرت انگیز طور پر زبردست کامیابی ملی۔ اسی لیے لوگوں کو شبہ ہے کہ مشینوں میں کچھ نہ کچھ کیا جاتا ہے جس سے نتیجہ تبدیل ہو جاتا ہے۔