Suhail Anjum Article
’اب کی بار چار سو پار‘ کے وزیر اعظم نریندر مودی کے نعرے کی خوب پیروڈی ہو رہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ”اب کی بار بخش دو یار“ تو کوئی کہتا ہے ”اب کی بار تڑی پار“۔ دراصل یہ پیروڈیاں عوامی نبض کا پتہ دیتی ہیں۔ ان سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کیا سوچتے ہیں اور وہ کیا فیصلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم کے اس نعرے کا جائزہ بھی خوب لیا جا رہا ہے اور یہ جاننے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ کیا واقعی یہ نعرہ قابل عمل ہے اور کیا بی جے پی کی قیادت والا این ڈی اے اس بار چار سو سے زیادہ سیٹیں لے آنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے وزیر اعظم جہاں این ڈی اے کو چار سو سے زیادہ سیٹیں دے رہے ہیں وہیں بی جے پی کے لیے 370 نشستیں مخصوص کر رہے ہیں۔ یعنی باقی جو بھان متی کا کنبہ ہے وہ صرف تیس سیٹیں ہی لا سکتا ہے۔
ایک طرف یہ دعویٰ ہے اور دوسری طرف دوسری پارٹیوں کو توڑ توڑ کر لوگوں کو اپنی پارٹی میں لایا جا رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کانگریس یا کسی دوسری پارٹی کا کوئی لیڈر بی جے پی میں شامل نہ ہوتا ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام پارٹیوں میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے اور اب لے دے کر صرف ایک پارٹی بچی ہے اور وہ ہے بی جے پی۔ گویا اس طرح ملک کو کانگریس مکت کیا جا رہا ہے۔ اب تو بہت سے مبصرین مذاق میں کہنے لگے ہیں کہ ملک ”کانگریس مکت“ ہو یا نہ ہو لیکن بی جے پی ”کانگریس یُکت“ ہو گئی ہے۔ سیاست کی یہ کیسی زوال پذیری ہے کہ اپوزیشن کے جس لیڈر پر آج کرپشن اور مالی بدعنوانی کا الزام زور شور سے لگایا جاتا ہے کل کو اسی کو اپنی پارٹی میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ گویا اپوزیشن میں رہتے ہوئے جو داغدار تھا وہ بی جے پی میں آتے ہی صاف شفاف ہو گیا۔ سارے داغ دھبے دھل گئے۔
جو اپوزیشن لیڈر بی جے پی میں شامل ہونے یا اپنی پارٹی کو خیرباد کہنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس کے پیچھے ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس کے محکمے لگا دیے جاتے ہیں۔ اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حکومت تو اپوزیشن کو اس لائق بھی نہیں چھوڑنا چاہتی کہ وہ الیکشن لڑ سکے۔ اس کی سب سے بڑی مثال پہلے کانگریس کے بینک اکاونٹس کو منجمد کرنا اور پھر اس کو کروڑوں روپے کے انکم ٹیکس کا نوٹس جاری کرنا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن بنیادوں پر کانگریس کو انکم ٹیکس کے نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں انہی بنیادوں پر بی جے پی کے خلاف بھی جاری ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایجنسیاں اس کی طرف پیٹھ کیے ہوئے کھڑی ہیں۔ ان میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ بی جے پی کو نوٹس جاری کر سکیں۔ جبکہ کانگریس کو جن معاملات میں قصوروار بتایا جا رہا ہے بی جے پی بھی انہی معاملات میں قصوروار ہے۔
پچھلے دنوں کانگریس کے تین اعلیٰ رہنماؤں موجودہ صدر ملکارجن کھڑگے اور سابق صدور سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کی اور کہا کہ حکومت کانگریس پارٹی کو مالی اعتبار سے بے دست و پا اور معذور بنا دینا چاہتی ہے تاکہ وہ الیکشن ہی نہ لڑ سکے۔ انھوں نے بتایا کے پارٹی کے پاس پیسوں کی زبردست قلت پیدا ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے رہنماؤں کے لیے جہاز اور ٹرین کے ٹکٹ ہی نہیں خرید پا رہی ہے۔ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ الیکشن میں پیسہ پانی کی طرح بہانا پڑتا ہے۔ وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر ہر جگہ بی جے پی ہی کے بینر اور ہورڈنگس کیوں نظر آ رہے ہیں۔ کیا کوئی اور پارٹی الیکشن نہیں لڑ رہی ہے۔ آج دہلی اور دیگر شہروں میں سڑکوں کے کنارے صرف اور صرف بی جے پی کے پوسٹر دکھائی دے رہے ہیں۔
اسی درمیان دہلی کے وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال کو مبینہ دہلی شراب پالیسی اسکینڈل میں گرفتار کر لیا گیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے جب کسی موجودہ وزیر اعلیٰ کو گرفتار کیا گیا ہو۔ دراصل عام آدمی پارٹی اور کانگریس نے دہلی میں سیٹوں پر تال میل کر لیا جس سے بی جے پی کو زبردست پریشانی ہے۔ دہلی کی تو ساتوں سیٹیں بی جے پی کے ہاتھوں سے نکل گئی ہیں۔ پنجاب میں بھی اس کی حالت خستہ ہے۔ ہریانہ میں بھی کوئی بہت اچھی حالت نہیں ہے۔ گجرات میں بھی عام آدمی پارٹی کی پوزیشن بعض سیٹوں پر بہت اچھی ہے۔ وہاں کئی امیدواروں نے بی جے پی کے ٹکٹ پر لڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ کئی ریاستوں میں بی جے پی کا کانگریس سے براہ راست مقابلہ ہے جہاں بی جے پی کی حالت پتلی ہے۔
اس لیے حکومت یہ کوشش کر رہی ہے کہ اپوزیشن کو اس لائق ہی نہ چھوڑا جائے کہ وہ انتخابی مہم چلا سکے۔ ان کی افرادی قوت بھی چھین لی جائے اور مالی قوت بھی۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ لیکن اس کا اصل نشانہ کانگریس ہے۔ اس کے لیڈروں کو آئے دن پارٹی جوائن کروا کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کانگریس ختم ہو گئی ہے۔ لیکن حکومت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کانگریس ایک صدی سے بھی زائد پرانی پارٹی ہے۔ اس کی اپنی تاریخ ہے، اپنی قدریں ہیں، اپنے اصول و نظریات ہیں۔ ٹھیک ہے آج کچھ لوگ حکومت سے ڈر کر یا لالچ میں آ کر کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی میں جا رہے ہیں لیکن وہ بی جے پی کے بھی نہیں ہوں گے۔ کل کو جب بی جے پی کی سیاسی قوت کمزور ہوگی تو وہ اسے بھی خیرباد کہہ دیں گے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ جمہوریت کے سراسر خلاف ہے۔ ایک جمہوری ملک میں ایک طاقتور اپوزیشن بہت ضروری ہے۔ ملکی سالمیت اور اتحاد و یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تال میل کر کے چلنا پڑتا ہے۔ اگر کسی ملک میں جمہوریت کو ختم کیا جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ملک آمریت یا ڈکٹیٹر شپ کے راستے پر چل پڑا ہے۔ اسے اس راستے سے جمہوریت کے راستے پر واپس لانا ضروری ہو جاتا ہے۔ راہل گاندھی اسی لیے بار بار کہتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوریت نہیں رہی اور اگر یہ حکومت تیسری بار آ گئی تو جمہوریت کا مکمل طور پر جنازہ نکل جائے گا۔
بیشتر مبصرین اور تجزیہ کار اس خیال کے حامی ہیں کہ بی جے پی کے لیے تیسری بار اقتدار میں واپس آنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ 2019 کے انتخابات میں وہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ اب اس کے سامنے اس سے آگے جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ مزید برآں یہ کہ اب عوام بھی سب کچھ سمجھ گئے ہیں۔ ان کو دس سال سے بیوقوف بنایا جا رہا ہے وہ اب مزید بیوقوف بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس بات کا احساس بی جے پی کو بھی ہے اور آر ایس ایس کو بھی ہے۔ ان کی اندرونی سروے رپوٹیں بتاتی ہیں کہ بی جے پی کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ہڑبڑاہٹ میں انتقامی کارروائی پر اتر آئی ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ایسی کوششوں کا برعکس نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ اس لیے حکومت اپوزیشن کو ختم کرنے کے لیے جو چالیں چل رہی ہے کوئی ضروری نہیں کہ ان کے حسب خواہ نتائج برآمد ہوں۔
(مضمون میں درج کسی بھی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ادارہ)