اکھلیش حکومت کا درجنوں مولویوں پر احسان

حفیظ نعمانی
عربی فارسی مدرسہ بورڈ کے امتحانات کے لئے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ سرکاری اسکولوں میں کرائے جائیں گے۔ عربی فارسی بورڈ کے امتحان تو شروع سے ہورہے ہیں۔ لیکن وہ پہلے ان مدرسوں میں ہوتے تھے جہاں درس نظامی کے بھی امتحان ہوتے تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے اب دارالعلوم ندوہ کے لڑکے ندوہ کے امتحانات کے ساتھ ساتھ جو یونیورسٹی کے امتحان بھی دے دیتے ہیں۔ لیکن جب سے مدرسے ہر کاروبار سے زیادہ منفعت بخش کاروبار ہوگئے ہیں۔ اس وقت سے گاؤں گاؤں مدرسے قائم ہوگئے ہیں اور بے ایمانی، بدعنوانی، جھوٹ اور فریب کا مقابلہ ہوگیا ہے کہ دیکھیں کون سب سے زیادہ جھوٹ بولتا ہے؟
ہم کیسے کہیں کہ ہم نے دیکھا ہے؟ لیکن جو سنا ہے وہ اتنے معتبر حضرات سے سنا ہے کہ قسم کھائی جاسکتی ہے کہ وہ مولوی جن کے پیچھے نماز پڑھنے کی سب کوشش کرتے تھے وہ اب اتنے بے ایمان ہوگئے ہیں کہ اگر مسجد میں برابر آکر نماز میں کھڑے ہوجائیں تو اللہ کا نیک بندہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ وہ نیّت توڑکر پچھلی صف میں کھڑا ہوجائے۔ عربی کے مدرسے پہلے بھی تھے۔ ہر شہر ہر قصبہ میں بھی تھے اور اگر مسلمانوں کا کوئی گاؤں بڑ اتھا تو وہاں بھی کوئی عالم بچوں کی دینی تعلیم کے لئے مدرسہ قائم کردیتا تھا۔ ہم نے عمر کے چلیس برس پریس کا کاروبار کرنے میں گذارے ہیں۔ مدرسوں کی ہزاروں رودادیں، نقشہ افطار و سحر اور چندہ کی رسیدوں کی تو کوئی گنتی ہی نہیں۔ لیکن وہ سب مدرسے تھے۔ بڑے نہ سہی چھوٹے ہی تھے لیکن تھے۔ آج تو بعض مدرسے مولوی کے تھیلے میں ایسے ہی ہیں جیسے اردو اور ہندی کے بعض اخبار کے پورے دفتر جاہل مالک کے جھولے میں ہوتے ہیں کہ وہ جہاں بیٹھ گئے دفتر بھی وہیں بیٹھ گیا اور نقل ایسے نہیں ہوتی ہے جیسے ہائی اسکول اور انٹر میں چوری چھپے ہوتی ہے۔ بلکہ ایسے ہوتی ہے جیسے مدھیما پرتھما میں دیکھا ہے کہ ٹانگ سے ٹانگ ملاکر زمین میں بیٹھے ہیں اور موبائل سے سوال جارہے ہیں اور جواب آرہے ہیں اور ان کی بندر بانٹ ہورہی ہے۔
ہر سینٹر پر نقل کرانے کا مولانا معاوضہ لیتے ہیں اور وہ لاکھوں ہوجاتا ہے۔ مولانا عبداللہ بخاری صاحب نے فرمایا ہے کہ اس فیصلہ سے مدرسے توہین محسوس کررہے ہیں۔ اللہ اللہ وہ مدرسے جن کے پاس ایک بیت الخلاء کے برابر بھی نہ اُن کے بیٹھنے کی جگہ ہے نہ دوسروں کے۔ نہ کوئی استاذ ہے نہ شاگرد جو کسی وزیر یا ایم ایل اے کے خادم خاص ہیں۔ آج ان کی یہ ہمت کہ وہ کہیں کہ توہین ہورہی ہے؟ مدارس عالم بناتے ہیں یعنی دین کے عالم جن کے پاس علم نبوت کی میراث ہوتی ہے جن کے حلق میں اتفاق سے غیرارادی طور پر لقمۂ حرام چلا جاتا ہے تو وہ قے کردیتے ہیں۔ اور جو سرکاری مدرسے چلا رہے ہیں ان میں سے اکثریت وہ ہے جو صرف لقمۂ حرام ہی کھاتے ہیں۔ مولانا بخاری نے کہا ہے کہ محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے ذمہ داران انٹر کالجوں میں امتحانات کراکے اپنی نااہلی کا ثبوت دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوپی بورڈ کے امتحانات میں آئے دن نقل ہونے اور منا بھائیوں کی گرفتاری کی خبریں آتی ہیں لیکن مادھیمک بورڈ نے اس کے حل کے طور پر دوسرے بورڈ کے کالجوں میں امتحان کرانے پر کبھی غور نہیں کیا۔
ہمیں اعتراف ہے کہ ہم مولانا بخاری صاحب سے واقف نہیں ہیں۔ لیکن خود ہم نے مدرسوں میں کئی برس گذارے ہیں۔ ہمارے دینی مدارس میں جیسے امتحان ہوتے ہیں وہ ایک نمونہ ہیں اور جن دینی مدارس نے بورڈ کے امتحانات کو قبول کرلیا ہے ان مدرسوں کے لڑکوں کو چاہے کسی دوسرے شہر میں لے جاکر امتحان دلایا جائے یا چاہے کسی پارک میں وہ فرسٹ آجائیں گے۔ مولانا بخاری جیسے حضرات تو ان کی فکر میں دبلے ہورہے ہیں جہاں امتحان نہیں ہوتے صرف نقل ہوتی ہے اور نقل کو روکنے کے لئے ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ سرکاری مدرسوں والے مولوی پچاس فیصدی ہی حرام کمائی سے بچ جائیں۔ لیکن انہیں پریشانی تو اس دن ہونا چاہئے جب مدرسہ بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ اب کاپیوں کی جانچ کے لئے سینٹر بنائے جائیں گے۔ اور دیوبند، ندوہ، سہارن پور، بنارس، مبارک پور، مؤ اور دوسرے مدارس سے اساتذہ کو بلاکر کاپیاں جانچی جائیں گی۔
دس پندرہ برس پہلے جب امتحان کی کاپیاں ریلوے کے ذریعہ دوسرے شہروں میں بھیج دی جاتی تھیں تو جنہیں فیل ہونے کا ڈر ہوتا تھا وہ اسٹیشن جاکر معلوم کرلیتے تھے کہ فلاں اسکول کی فلاں سبجیکٹ کی کاپیاں کہاں گئی ہیں؟ رشوت ہمارے ملک کی سب سے طاقتور چیز کا نام ہے۔ اس وقت صرف دس روپئے کلرک لیتے تھے اور بتادیتے تھے پھر وہاں جاتے تھے جس اسٹیشن میں کامیاں پہونچ چکی ہوتی تھیں۔ وہاں کے بابو سے معلوم کرلیا جاتا تھا کہ کس اسکول کا کون ماسٹر لے گیا؟ اور پھر اس ماسٹر کے گھر جاکر جھوٹی کہانی سنائی جاتی تھی اور دو چار کلو عمدہ قسم کی مٹھائی بچوں کے لئے پیش کردی جاتی تھی۔ اور عام طور پر ماسٹر صاحب جان جاتے تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ بندہ اتنی دور سے آیا ہے مٹھائی لایا ہے۔ ہم 5 نمبر کے بجائے اگر 35 دے دیں گے تو اپنا کیا جائے گا؟ اب سرکاری مدرسوں کے مولویوں کو آدھی حرام کی آمدنی پر صبر کرلینا چاہئے اور جس کے پاس کاپیاں جائیں اس کی تحقیق کرکے اس سے سودا کرلینا چاہئے۔
ایک عالم جو مولانا کہے جائیں بجائے یہ بیان دینے کے کہ محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود نے جھولے والے مدرسوں کے فریب کو ختم کرنے کے لئے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ وہ یہ کہیں کہ امتحانات وہیں کرائے جائیں جہاں یہ ریٹ ہو کہ اگر پوری کاپی لکھوانا ہے تو ایک ہزار روپئے فی کاپی اور پاس ہونے بھر کا لکھوانا ہے تو پانچ سو روپئے فی کاپی۔ تاکہ ثابت ہوجائے کہ اگر مقابلہ بے ایمانی کا بھی ہو تو مسلمانوں کا مولوی سب سے آگے مانا جائے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ مولانا عبداللہ بخاری صاحب کے کتنے مدرسے ہیں؟ سنا یہ ہے کہ اب بات صرف ایک مولوی ایک مدرسہ کی نہیں ہے بلکہ جتنا بڑا شاطر مولوی ہے اس نے اتنے ہی مدرسے منظور کرالئے ہیں۔ اور اللہ جانے سچ ہے یا جھوٹ کہ مدرسہ کو لسٹ پر چڑھوانے کے لئے لاکھوں روپئے رشوت دی جاتی ہے اور پڑھانے والوں کی تنخواہیں اور پڑھنے والے فرضی بچوں کے لئے حکومت کی طرف سے جو کچھ دیا جاتا ہے وہ سب ان کے گھر میں خرچ ہوتا ہے یا بلیک کرلیا جاتا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا نصاب بناتے وقت حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا قاسم نانوتوی اور دوسرے بزرگوں نے یہ پیش نظر رکھا تھا کہ مدرسہ کے لڑکے فارغ ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے کام کے علاوہ کسی کام کے نہ بنیں۔ اگر ان بزرگان دین کو اس کا ذراسا بھی اندازہ ہو تاکہ مدرسہ سے نکلنے والے مولوی مدرسوں کے نام پر اتنا حرام کمائیں گے کہ شیطان بھی مولوی کو اپنا امام ماننے لگے تو شاید یہ بزرگ مدرسہ کے بجائے کچھ اور ایسا کام سوچتے جس سے اسلام کی حفاظت ہوسکے۔
یہ واقعہ ہر بزرگ عالم کے علم میں ہے کہ دیوبند کے فارغ کچھ لڑکے حیدر آباد کی ریاست میں ملازم ہوگئے۔ ایک سال کے بعد اس شعبہ کے سربراہ نے مہتمم صاحب کو خط لکھا کہ ایک آپ کے مدرسہ کے لڑکے جیسی صلاحیت کے ہیں ایسا ہمارے پورے دفتر میں کوئی نہیں ہے۔ بس وہ حساب میں کمزور ہیں۔ اگر آپ اپنے نصاب میں حساب شامل کرلیں تو دارالعلوم دیوبند کے ہر فارغ لڑکے کو ریاست میں ملازمت مل جائے گی۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اس خط کو لئے ہوئے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے پاس گئے اور روتے ہوئے فرمایا کہ حضرت ہمارا تو سب کچھ خاک میں مل گیا۔ ہمارے طلبہ سرکاری ملازم ہونے لگے۔ اسی دیوبند کے مدرسہ کی شاخوں جیسے مدرسوں میں کیا ہورہا ہے؟ کیا کوئی نہیں ہے جو یہ سوچے کہ ان بزرگوں کی روحیں کیسے تڑپ رہی ہوں گی؟
ہم مدرسہ بورڈ کو اس فیصلہ پر مبارکباد دیتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ 2017 ء میں جیسے بھی ہو کاپیوں کے جانچنے کے سینٹر قائم کردیئے جائیں تاکہ مولوی اور عالم کہے جانے والوں کو پوری طرح حرام سے بچایا جاسکے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری اس لئے ہے کہ اس نے ہی انہیں حرام کا راستہ دکھایا ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اگر مدرسہ ہو تو وہ عمارت میں ہو چاہے چھپر ہو۔ استاذ ہوں، کتابیں ہوں اور لڑکے پڑھنے والے ہوں۔ ان سرکاری مدرسوں کی اسلامیت تو اسی دن ختم ہوگئی تھی جب کچھ حرام خور مولوی ہائی کورٹ جاکر لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے پڑھنے کی اجازت لے آئے تھے۔ وہ اجازت ہے حکم نہیں۔ یہ فیصلہ مدرسہ کے مالک مولویوں کو کرنا ہے کہ وہ کسے پڑھائیں؟ رہی بات حرام کی تو اس پر لعنت ہے لیکن جو حرام مدرسہ کے نام پر کھایا جائے وہ اس لئے زیادہ حرام ہونا چاہئے کہ وہ مدرسہ جیسے دین کے قلعہ کے نام پر کھایا جارہا ہے۔
فون نمبر: 0522-2622300