وجودہ حالات میں ہمارا دعوتی طریقۂ کار

Bhatkallys

Published in - Other

03:53PM Tue 9 Aug, 2016
از: مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی (بموقع دعوتی سمینار بمقام جامعہ دارالسلام عمر آباد) ہمارے یہاں الحمد للہ دعوتی منصوبے بنتے رہتے ہیں، مگر بعض اوقات وہ اتنے بڑے اور طویل المیعاد ہوتے ہیں کہ سوچنے ہی میں سا لوں لگ جاتے ہیں اورانھیں انجام دینے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔عالم اسلام کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں اب وقت اقدامِ عمل کا ہے، اس لیے سب سے زیادہ توجہ اس طرف دینے کی ضرورت ہے کہ جوبھی دعوتی منصوبہ بنے اس پر فوری عمل ہو۔ اس وقت ملکی اورعالمی حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اس کے پیشِ نظردعوتِ دین کے لیے عملی اقدام میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ دعوتِ دین کے لیے ہم میں سے جس سے جو بن پڑے وہ بعجلتِ ممکنہ کر ے، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب وقت اجل آجائے اور سب سے بڑھ کر ہندوستان کے حالا ت کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے اس وقت ملک کے حالات جس تیزی سے ناسازگار ہوتے جارہے ہیں اس کا اندازہ ہم میں سے ہر باشعور کو ہے، اس کے باوجودیہ حقیقت ہے کہ دعوتِ دین کے لیے اب بھی ہمارے ملک کی فضاء جس قدر سازگار ہے،وہ بات دیگر ممالک میں کم ہی پائی جاتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے ان حالات سے کیافائدہ اٹھایا؟ اگر ہم نے اس سلسلے میں مزید کوتاہی کی تو لمحوں کی خطا سے صدیوں کی سزائیں ہمیں بھگتنی پڑیں گی۔ہم پہلے دعوتِ دین کے عملی پہلوؤں پر غور کرنے کے لیے ایسی تدابیر اختیارکریں کہ دعوتِ دین کا شعور امتِ مسلمہ میں عام ہو اورامت اس کام کے لیے تیار ہوجائے بالخصوص علماء اور مدارس کے فارغین میں اپنے اس فرض منصبی کی ادائیگی کا احساس پیداہو۔ دعوتی شعور پیدا کرنے کی ضرورت :۔ میدانِ دعوت کے غازی محترم جناب سید حسین احمد ملّاصاحب نے مجھے ایک دفعہ بتایا تھا کہ ہندوستانی مدارس کاایک جائزہ لیا گیا کہ کن کن مدارس کے تحت برادرانِ انسانیت میں دعوتِ دین کا عملی کام ہو رہا ہے،لیکن سروے کے بعد نتیجہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ ہندوستان کے پانچ فیصد مدارس بھی ایسے نہیں ہیں جہاں واقعی دعوتِ دین کے عملی کام کے لیے دُعاۃ کی تیاری ہورہی ہو۔ ان سب سے ہٹ کر اصل سوال ہمیں خود ہماری ذات سے کرناہے کہ ہم عملاً دعوتِ دین کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟اور کیاکررہے ہیں، دوسروں کی فکر سے پہلے اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں، اگر ہم یہ کارِ خیر انجام دینا چاہیں تو راستے ہزار بنیں گے، اوراگر نہ کرنا چاہیں تو بھی بہانے ہزار ہیں۔ اس وقت علماء میں دعوتی شعور کو بیدار کرنے کے سلسلے میں ایک عملی تجویز یہ ہوسکتی ہے کہ ایک چھوٹی سی کمیٹی تشکیل دی جائے،اوران کی نگرانی میں پانچ پانچ افراد کی کچھ جماعتیں بنا دی جائیں، جن میں مختلف مکاتبِ فکر کے افراد ہوں، اوران کی یہ یک جائی صرف دعوتِ دین کے لیے ہو۔ یہ افراد ہندوستان کے قابلِ ذکر مدارس کا دورہ کریں اوروہاں کے ذمے داروں سے اجازت لے کر طلبہ کے سامنے دعوتِ دین کی اہمیت وضرورت کی بات رکھیں، اوران کی دعوتی ذہن سازی کی کوشش کریں ، میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل کے ان علماے کرام کی دعوتی ذہن سازی میں اس سے ان شاء اللہ بڑی اہم پیش رفت ہوسکتی ہے، پھر میدانِ دعوت میں ان کو لانے سے پہلے کسی جگہ ایک دوماہ کا تربیتی ورکشاپ بھی ہو،اگر ان کوششوں سے ہر سال کم سے کم ایک سو علما بھی دعوتی کاز کے لیے تیار ہوجائیں اور میدانِ عمل سے وابستہ ہوجائیں تو دس بیس سال کے اندر ہند وستان ہی کا نہیں،بلکہ پوری دنیا کا نقشہ بدل سکتاہے۔ممکن ہے کچھ مدارس کے ذمے داران اپنے یہاں شروع میں کسی مصلحت سے طلبہ سے خطاب کا موقع نہ دیں، لیکن آپ مایوس نہ ہوں، بہرحال ہمیں دعوتِ دین کامزاج بنانے کے لیے کچھ نہ کچھ موثر اورمنصوبہ بند کوشش کرنی چاہیے۔ دعوت اورطریقۂ دعوت میں فرق :۔ ہمیں دعوت اور طریقۂ دعوت میں فرق کرنے کی ضرورت ہے، ایک بڑی کم زوری ہماری یہ ہے کہ جیسے ہم نے دعوتِ دین کو منصوص سمجھا ہے، اسی طرح مروجہ طریقۂ دعوت کو بھی منصوص سمجھا ہے۔ ہمیں معلوم ہوناچاہیے کہ دعوت منصوص ہے، مگر طریقۂ دعوت منصوص نہیں ہے۔دعوتی طریقہ کار حالات اور زمانے کے اعتبار سے بدلتا رہے گا،مفکراسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی حسنی ندوی علیہ الرحمہ فرماتے تھے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ .(ابراہیم:۴) کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ملکِ چین کی زبان بولنے والی قوم میں چینی بولنے والا نبی بھیجاگیا،بلکہ اس کا مکمل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اس قوم کے مزاج اور نفسیات کو سمجھنے والا نبی بھیجا، مثلاً آج کے ذرائع ابلاغ کے زمانے میں اگر کوئی نبی مبعو ث ہوتے تو وہ دعوتِ دین کے لیے حدودِ شریعت میں رہ کرسب سے زیادہ وہ میڈیا کا استعمال فرماتے، کیوں کہ اس وقت لوگوں کی ذہن سازی میں سب سے بڑا کردار میڈیااداکررہا ہے۔ داعی کے لیے بنیادی شرط صفتِ تڑپ:۔ ہمیں یہ سمجھناچاہیے کہ ہدایت صرف توفیقِ الٰہی پر منحصر ہے۔ پوری دنیا مل کر بھی کسی کو ہدایت دینا چاہے تو نہیں دے سکتی، جب تک کہ اللہ کی توفیق شاملِ حال نہ ہو، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ جس طرح ہدایت صرف اور صرف اللہ کی توفیق سے ملتی ہے اسی طرح ہدایت کے لیے کام کر نے کی توفیق بھی صرف اللہ کے فضل سے ملتی ہے ۔ہمیں دعوتِ دین کے لیے بھی اللہ ہی سے توفیق طلب کرتے رہنا چاہیے اوراس کے ساتھ ساتھ پھراپنی حیثیت اورطاقت کے مطابق دعوتی کام میں شریک بھی ہونا چاہیے۔ ان شاء اللہ وہ وقت بہت جلد آئے گا جب اللہ تعالیٰ ہماری ہلکی پھلکی کوششوں کو قبول فرمائے گا اور ہمیں بھی دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے گا۔ دنیامیں کتنے واقعات ایسے پائے جاتے ہیں کہ ایک کم صلاحیت والے داعی نے کسی پر محنت کی اوراللہ نے اس کے ذریعے مدعو کو ہدایت دے دی۔ کتنے لوگ تھے جو دو چار جملے بول نہیں سکتے تھے، لیکن ان کی دعوت سے ایک دنیامتاثر ہوئی۔ تبلیغی تحریک کے بانی حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ کے لیے اچھی تقریر کرنا تو دور کی بات ، دو چار جملے بولنا بھی مشکل تھا،لیکن ان کے دل میں خدمتِ دین کا جذبہ تھا، لوگوں کی ہدایت کے لیے تڑپ تھی، اس سلسلے میں وہ حددرجہ مخلص تھے، ان ہی سب باتوں کی برکت ہے کہ آج ان کی تحریک کے اثرات پوری دنیامیں دیکھے جاسکتے ہیں۔ حضرت مولاناالیاس رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یہ واقعہ مشہور ہے کہ ابتدائی زمانے میں انھوں نے ڈاکٹروں کو جمع کیااور کہا کہ آپ حضرات کو اللہ کے راستے میں نکلنا چاہیے۔ان کی ساری ترغیب کے باوجود کسی نے جماعت میں نکلنے کے لیے نام نہیں لکھوا یا، تو مولاناالیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو مجبوراً بیٹھ جانا پڑا، پھر ان پر درد وتڑپ کی ایسی عجیب کیفیت طاری ہو گئی جسے دیکھ کر مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک ڈاکٹر نے فورًا اپنا نام لکھوادیا۔ لوگوں نے ان سے پوچھا: جب جماعت میں نکلنا ہی تھا تو نام لکھوانے میں اتنی تاخیر کیوں کی؟ انھوں نے جواب دیا: میں امراضِ قلب کا ماہرڈاکٹر ہوں۔ اب مولانا کے دل کی کیفیت یہ ہوگئی ہے کہ اگر کوئی نا م نہ لکھا تا تو ان کے دل کی حرکت بند ہوسکتی تھی،ملت کے لیے ان کی اسی تڑپ نے ان کو اپنے تمام معاصر علماء وبزرگوں میں ممتاز کردیاتھا۔ دعوتِ دین کی راہ میں اللہ کے رسول صلی للہ علیہ وسلم پربڑے سخت آزمائشی حالات آئے۔ بظاہریہ بھی لگتا ہے کہ اس سے زیا دہ سخت حالات بنو اسرائیل کے انبیا ء کرام پر آئے، ان میں سے کسی کو آرے سے چیرا گیاتو کسی کو شہید کردیا گیا، لیکن اس کے باوجو دہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب اور چہیتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ا للہ کے رسول صلی للہ علیہ وسلم کے اند ر وہ کیا بات تھی جس نے آپ اکو اس درجہ تک پہنچایا ،ایک ہی چیز اللہ کے رسول ا کو تمام انبیاء کرام میں ممتاز کر تی ہے، وہ یہ ہے کہ انسانیت کی ہدایت ونجات کے لیے تڑپنے کی جو کیفیت آپ اکے اندر تھی،اس سے زیادہ کیفیت کاکسی کے لیے تصوربھی نہیں کیاجاسکتاتھا،اسی لیے اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا: فلعلک باخع نفسک علیٰ آثا رھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفاً.(اے محمد:۔ ان کے ایمان نہ لانے پرکہیں آپ اپنی جان تک نہ دے دیں) اس کیفیت کاپرتو ہمیں بھی بننے کی ضرورت ہے۔ یہ کیفیت کب پیدا ہوگی؟ اللہ سے مانگنے سے پیدا ہو گی؟کام لینے والی ذات اللہ کی ہے ،لیکن توفیق طلب کرنا اوراس کے لیے کوشش کرنا ہمارا کام ہے۔ ہم صدقِ دل سے دعاکرتے رہیں: اللھم اھدنا واھدبنا واہد الناس جمیعا اللہم اجعلنا سببا لمن اھتدی۔ ’’اے اللہ! مجھے ایمان پر قائم رکھ، مجھے ایمان کی طرف آنے کا ذریعہ بنااورسب لوگوں کو بھی ہدایت دے اور لوگو ں کی ہدایت کا مجھے ذریعہ بنا‘‘۔ مدعوپرفتح دل کے راستہ سے نہ کہ دماغ کے راستہ سے :۔ ایک کیفیت دل کی ہوتی ہے اور ایک دماغ کی ۔آدمی قبولِ اسلام کے لیے اس وقت تیار ہوتا ہے جب دل متاثر ہوتاہے،دل کو متاثر کرنے کی طاقت بھی اللہ کی توفیق سے ملتی ہے، اس کے لیے اخلاص وللہیت اوردعوتی تڑپ کے ساتھ دعاؤں کا اہتمام بھی نہایت ضروری ہے، اگر یہ توفیق حاصل ہوجائے تو بے ربط باتیں بھی آدمی کے دل میں گھر کرجاتی ہیں اوراگر یہ نہ ہوتو انتہائی مرتب تقریر بھی کچھ کام نہیں دیتی۔ داعی کو دعوت کے میدان میں کبھی نتائج سے متاثر نہیں ہو نا چاہیے، حضرت نوح علیہ السلام کی نوسوپچاس برسوں کی کوششوں سے چند گنے چنے لوگ ایمان لائے،قرآن مجید نے کہا: وما اٰمن معہ الا قلیل۔مفسرین نے ان کے متعین کی زیادہ سے زیادہ تعداد اَسّی بتائی ہے،اس کے باوجودوہ اپنے دعوتی مشن سے پیچھے نہیں ہٹے، ان کے مقا بلے میں امت میں ایسے دعاۃ گزرے ہیں جن کے ہاتھوں ہزاروں، لاکھوں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں، لیکن مجھے بتائیے :۔ کیا ایسے دس لاکھ دعاۃ بھی نتیجہ کم برآمدہونے کے باوجود ایک حضرت نوحؑ کے برابر ہو سکتے ہیں ؟ہرگز نہیں، ہمارا کام تو دین کا پیغام انسانیت تک پہنچانا اور ان کی ہدایت کے لیے اپنے دلوں میں نبوی درد وتڑپ پیداکرنا ہے اوراس راہ میں کوئی غفلت نہیں کرناہے۔ دعوتِ دین اللہ کی سب سے بڑی توفیق ہے، اس پر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، کبھی اِترانا نہیں چاہیے اورنہ غرور اور گھمنڈ کامظاہرہ کرنا چاہیے۔ جو لوگ دوسری راہوں سے دین کی خدمت کررہے ہیں، وہ بھی قابلِ قدر ہیں اور ہم سے بہتر اورقابلِ رشک ہیں، انھیں حقیر سمجھنا اوراپنے کام سے ان کے کام کا موازنہ کرنا اوران کے کام کو حقیر باور کرانے کی کوشش کرنا یہ نامناسب ہے، اصل چیز فرضِ منصبی کی ادائیگی اوررضاے الٰہی ہے۔ اللہ ہمارے کام سے راضی ہوجائے یہی ہمارا مطمحِ نظر ہو۔ جو حضرات دعوتِ دین کاکام کررہے ہیں انھیں اپنے کام کو مفید اورموثر بنانے کی فکر اورکوشش بھی کرنی چاہیے۔ ہم دنیاوی معاملات میں اپنے کام کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً: اگر ہم ایک دکان لگاتے ہیں اور وہ ٹھیک سے نہیں چلتی تو ہم ہر لحاظ سے کوشش کرتے ہیں کہ وہ کسی طرح جم جائے، اس کے لیے مختلف تدبیریں کرتے ہیں اورماہرین سے مشورے بھی لیتے ہیں،کبھی اسٹاف بدل دیتے ہیں، کبھی فرنیچرتبدیل کردیتے ہیں اور کبھی گاہکوں کو متاثر کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ اختیار کرتے ہیں، لیکن دعوت کے میدان میں ہم لوگ ایک ہی طریقے پرعام طورپر اکتفا کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں دعوت کا کام جتنا آسان ہے اوراس کے لیے جتنے امکانات پیداہوئے ہیں، شاید پوری انسانی تاریخ میں دعوت کا کام کبھی اتنا آسان نہیں تھا اورنہ اس کے اتنے امکانات تھے۔اسی طرح آج دعوت کے اثرات جتنی جلد دیکھنے میں آتے ہیں ، نتائج میں یہ سرعت کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت برادرانِ وطن ہم پر سب سے زیادہ ظلم کررہے ہیں، مجھے معاف فرمائیں کہ ظا لم وہ نہیں ہم ہیں، سورۂ ملک میں ارشاد خداوندی ہے: کُلَّمَا أُلْقِیَ فِیْہَا فَوْجٌ سَأَلَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ یَأْتِکُمْ نَذِیْرٌ .قَالُوا بَلَی قَدْ جَاء نَا نَذِیْرٌ فَکَذَّبْنَاوَقُلناَ ماَ نَزّل اللّٰہُ مِنْ شَئٍ...(الملک:۸تا۹)’’ہر جہنمی سے، جس کو جہنم میں ڈالا جا ئے گا ایک سوال اس سے ضرور پوچھا جائے گا: کیاتمھارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیاتھا؟وہ جواب دیں گے: ہاں، خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیاتھا، مگر ہم نے ہی اُسے جھٹلادیا اور کہا کہ اللہ نے کچھ بھی نہیں اتارا‘‘۔ ہم سوچیں کہ کیاجن غیرمسلم بھائیوں سے ہمارے تعلقات ہیں اوربرسوں سے ہم جن سے معاملات کررہے ہیں، کم سے کم ان تک ہم نے اسلام کا پیغام پہنچایا؟حقیقت تو یہ ہے کہ اس معاملے میں ہم نے مجرمانہ غفلت برتی ہے، اس کا نتیجہ کیاہوگا؟ ہمارے ان غیرمسلم بھائیوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ ذرا سوچئے کہ وہ جو ظلم ہم پر کررہے ہیں ، وہ بڑا ہے یاہم نے ان پر جو ظلم روارکھاہے وہ بڑاہے؟ دعوت کے امکانی طریقے:۔ اس وقت سوچنے کی ضرورت ہے کہ برادرانِ وطن کے جو مختلف طبقات ہیں، ان تک ہم کس طرح دین کا پیغام پہنچا سکتے ہیں؟ ایک طبقہ تو وہ ہے جو بیس پچیس سال کے بعد حکومت کی باگ ڈور سنبھالے گا، لیکن ان تک بھی دعوت پہنچانے کا کام ہمیں آج ہی سے کرنا ہے، یہ وہ طبقہ ہے جواسکولوں اور کالجوں وغیرہ میں زیرتعلیم ہے،ان تک پہنچنے اوران کی ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام مختلف طریقوں سے ہوسکتاہے،مثلاً موجودہ زمانے میں بچے کارٹون دیکھنے کے شوقین ہیں، سی ڈیس دیکھنے کے شوقین ہیں اورمختلف قسم کے قصے کہانیاں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں، آپ اسلامی دائرے میں رہ کر ایسے پروگرام بنائیے کہ بچوں کی ضرورت بھی پوری ہو اور ان تک صحیح بات بھی پہنچ جائے۔قرآن مجید اوراحادیث وغیرہ میں انبیاکرام کے بے شمار واقعات ہیں، آپ بچوں کے لیے واقعات کی ایسی کتابیں تیار کرسکتے ہیں جو اُن کی ضرورت کو پورا کرے اورا س راہ سے اسلام کی بات ان کے دل ودماغ میں ڈال سکیں۔ ہم نے مولاناابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل کی طرف سے الحمدللہ ایک چھوٹا سا تجربہ کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام،حضرت صالح علیہ السلام،حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام وغیرھم کے واقعات پر مشتمل انگریزی میں خوبصورت ملٹی کلر گرافک کے ساتھ قصوں کی کتابیں تیار کروائیں، ان میں کہیں اسلام اورقرآن کا نام نہیں لیا، اوریہ کتابیں بڑے بڑے تجارتی مال میں رکھوائیں،ایک کٹّراسلام مخالف آدمی کا بیٹا اپنے باپ سے کہتاہے کہ مجھے کارٹون کی کتاب چاہیے۔حضرت ابراہیم ؑ کے سلسلے میں ہماری کتاب کانام تھا:Cool fair ، وہ دیکھتا ہے کہ آگ اور ٹھنڈی یہ کیسے ہو سکتی ہے؟ وہ کتاب خریدتا ہے اورگھر جاکر پڑھتے پڑھتے سو جاتاہے تو اس کا والد کچھ دیر کے بعداسی کتاب کو لے کر پڑھنے لگتاہے ،چند دنوں بعد وہ کہتاہے کہ اس سلسلے کی دوسری کتاب درکار ہے۔WONDER FULL DREAM یعنی حضرت یوسفؑ کا قصہ عجیب وغریب خواب، پھر یہ سلسلہ چلتے رہتاہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان ہی واقعات کی کتابوں سے کئی لوگوں کو ایمان کی توفیق دے دیتے ہیں۔ ایک دوسرا طبقہ ہے جومڈل کلاس کا ہے۔یوں سمجھئے کہ ایک رکشا والا ہے، جواَن پڑھ ہے،روزانہ دوتین سوروپے کمالیتاہے، آپ ایک دن کے لیے تین ساڑھے تین سو روپے میں اس کی خدمات حاصل کرلیجیے۔ اس کے جھونپڑے میں جاکریااس کواپنے یہاں بلاکر باتوں باتوں میں کوئی اچھی سی دعوتی کتاب پڑھ کر سنائیے، جس میں کفر کی بے بسی ،بتوں کی کم عقلی اور اللہ کی وحدانیت کی باتیں اورجنت وجہنم کا تذکرہ وغیرہ ہو۔ بہت جلد وہ وقت آئے گا کہ ہدایت کے لیے اس کا دل نرم ہوگا۔ اگر وہ ہدایت نہ بھی پائے تو کم سے کم کل اللہ کے پاس ہمارے متعلق یہ تو نہیں کہے گا کہ اس نے مجھ تک دین کی دعوت نہیں پہنچائی، حالاں کہ وہ میری خدمات حاصل کرلیتاتھا۔ جو نچلے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں، انسانیت کی بنیاد پر ان کا احترام کیجیے، ان کی تھوڑی سی تواضع کیجیے اورپھر اللہ کا دین ان کے سامنے رکھیے، پھر دیکھیے اس کا اثر کیاہوتاہے۔ ہمیں اکثر بڑے لو گوں اورتعلیم یافتہ افراد کو دین کی دعوت دینے کی تو فکر ہوتی ہے اور ہونا بھی چاہیے، لیکن جو لوگ چھوٹے ہوتے ہیں، ان کی فکر کم ہی ہوتی ہے، جب کہ ان کو دین سمجھانابہت آسان ہوتاہے اوران کے اندر تبدیلی بھی اکثر بہت جلد دیکھنے میں آتی ہے۔ موجودہ دورمقابلے اور مسابقے کادور ہے، بڑی بڑی کمپنیاں بھی مختلف قسم کے مقابلے اپنے مقاصد کے لیے آج کے دورمیں کرواتی ہیں۔ ابھی قریب میں گیتا کا مقابلہ ہوا، ہزاروں آدمی اس میں شریک ہوئے، جس میں ایک مسلمان لڑکی بھی تھی، پلاننگ کے ساتھ اس مقابلے کا اول انعام اس مسلمان لڑکی کو دیا گیا اوراس کا خوب چرچا کیاگیا، یہاں تک کہ اس لڑکی کو وزیر اعظم سے بھی ملایا گیا، اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ آج پورے ہندوستان میں بڑی تعداد میں مسلمان بچے اس انتظارمیں ہیں کہ آئندہ گیتا کا مقابلہ ہوگا تو وہ بھی شریک ہوں گے اورانعام حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے لیے وہ محنت کریں گے، قرآن کی جگہ گیتا پڑھیں گے اوراس سے کچھ نہ کچھ تو ضرور متاثرہوں گے آج سے نوسال پہلے ایک چھوٹا سا تحریری مقابلہ ہم لوگوں نے بھی برادرانِ وطن کے درمیان کرایا۔عنوان دیا:’’محمدا کی امن کی تعلیمات‘‘۔ اس موضوع پر پانچ صفحے کا مضمون لکھنا تھا، پہلاانعام : 25,000 ۔ دوسرا: 15,000 اورتیسرا:10,000رکھاگیاتھا، ہم نے کرناٹک کے اخبارات میں اس کا اعلان کرایا اوربتایا کہ یہ مسابقہ صرف غیرمسلموں کے لیے ہوگا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ تین سو سے زیادہ خطوط ہمیں موصول ہوئے، جو اس مقابلے میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ اس مقابلے میں پہلے انعام کی مستحق ایک کالج کی لڑکی ٹھہری، تقسیمِ انعامات کا اجلاس حضرت مولاناسید محمدرابع صاحب حسنی ندوی مدظلہ العالی کی صدارت میں منعقد ہوا، جب اس لڑکی کو انعام کے لیے بلایا گیاتو اس نے انعام لینے سے انکار کردیا۔ ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی :میں آپ کے شرائط پر پوری نہیں اترتی، آپ نے مسابقے کے لیے شرط لگائی تھی کہ یہ مقابلہ صرف غیرمسلموں کے لیے ہوگا،جب مقابلے میں شریک ہوئی تھی تو غیر مسلم تھی، لیکن آج میں الحمدللہ مشرف بہ اسلام ہوں،مجھے مقابلے میں شریک ہوکر اسلام کی دولت مل گئی، اس سے بڑا انعام میرے لیے اورکیاہوسکتاہے‘‘۔کچھ لو گوں نے ہمیں اس وقت طعنہ دیا کہ لوگ آپ کو خوش کرنے کے لیے مضمون لکھیں گے، میں کہتا ہوں: ۔ ان کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ اگر اس لڑکی نے ہمیں خوش کرنے کے لیے لکھا تھا تو اس نے 25,000 روپے لینے سے انکار کیوں کیا؟ مان لیجیے کہ دس بیس افراد نے ہمیں خوش کرنے کے لیے لکھاہوگا، لیکن اس بہانے سے تو توحید،رسالت اور آخرت سے متعلق کتابیں ان کے مطالعے میں آگئیں جو انھیں مقالہ لکھنے کے لیے دی گئی تھیں،بعد میں انھوں نے ا یسے ایسے تاثرات پیش کیے کہ میں آپ کے سامنے بتانے سے قاصر ہوں۔ الحمدللہ! اس کے بعدسے یہ سلسلہ مختلف صوبوں میں اب بھی جاری ہے۔ چوتھاطبقہ ان لوگوں کا ہے جو اعلیٰ قسم کے لوگوں کا ماناجاتاہے، ان کے پاس انعام وغیرہ کی کچھ خاص حیثیت نہیں ہوتی، ایسے لوگوں تک بھی اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے کچھ نہ کچھ سوچاجاسکتاہے، مثلاً: آپ اعلان کریں کہ ہم بین الاقوامی سطح پر ایک کتاب شائع کرنے جارہے ہیں، جس کا نام ہوگا’’حضرت محمد ﷺ دنیاکی سو عظیم شخصیات کی نظر میں‘‘۔اس کے ترجمے مختلف زبانوں میں چھپیں گے۔ اس کے لیے ہم آپ کے تا ثرات چاہتے ہیں، اب وہ پھول جائے گا کہ بین الاقوامی سطح پر تاثرات شا ئع ہونے والے ہیں،اگر میں نے بھی مقالہ بھیجا تو بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ میرے بھی تاثرات شائع ہوجائیں گے، اس بہا نے وہ مطلوبہ کتابیں منگوائے گا، پھر توجہ سے پڑھے گا اوررسول اللہ ﷺ پر تاثرات لکھنے کے لیے بیٹھے گا، رسول ﷺکی پوری سیرت اس کی نظروں کے سامنے سے گزرے گی، آپ ﷺکا لایا ہوا پیغام اس کے علم میں آئے گا، اوربہت ممکن ہے کہ انشاء اللہ یہی مطالعہ اس کی زندگی میں ایک عظیم تبدیلی کا ذریعہ بھی بنے گا،اخیر میں میں یہ بھی کہناچاہتاہوں کہ یہ بات ہمیں ہمیشہ مستحضر رہنی چأہیے کہ جہنم میں انسان صرف اپنی بداعمالی کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اپنے دعوتی فرائض میں کوتاہی کی وجہ سے بھی جائے گا۔ اس طرح کی عملی باتیں اور بھی سوچی جاسکتی ہیں، مگرہم سوچنے ہی میں نہ رہ جائیں،وقت بہت کم ہے اور زندگی کاکوئی بھروسہ نہیں، کچھ نہ کچھ دعوتی کام جو ہم سے بن پڑے فوراًشروع کریں ، اگرہمارے ذریعے اللہ کے فضل سے ایک آدمی بھی ہدایت پاجائے تو پھرسمجھئے ہماری محنت کام آگئی اور اس سے بڑھ کر اللہ کی رضا کا کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ مری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی میں اسی لیے مسلماں، میں اسی لیے نمازی