نوٹ بندی سے ہر سطح پر نقصان۔۔۔۔از:حسام صدیقی

وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ بغیر سوچے سمجھے ایک تغلقی فیصلے سے ہوئی نوٹ بندی کے دو سال ہوچکے ہیں آٹھ نومبر کو کانگریس نے پورے ملک میں نوٹ بندی سے ہوئے نقصانات سے عام لوگوں کو با خبر کرنے کے لئے خصوصی مہم چلائی تو بھارتیہ جنتا پارٹی اس کی مودی سرکار کی جانب سے ایک بار پھر وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے مورچہ سنبھالتے ہوئے دعویٰ کیا کہ نوٹ بندی سے ملک کو کوئی نقصان نہیں بلکہ بہت بڑے پیمانے پر فائدہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ،دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ بینکوں کے پاس بے شمار پیسہ آگیا جس سے قرض دینے کی بینکوں کی صلاحیت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ۔ انہوں نے بتایا کہ سترہ لاکھ بیالیس ہزار فرضی بینک کھاتے سامنے آئے ہیں۔ دوسری طرف سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے باقاعدہ ایک مضمون لکھ کر نوٹ بندی سے ملک کو ہوئے نقصانات کی لمبی چوڑی فہرست ملک کے سامنے پیش کردی۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے کہا کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے ملک کی معیشت کی رفتار کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے ملک کو نقصان ہوا یا فائدہ اس سوال پر پورا ملک کنفیوژن کا شکار ہے۔ ایک طرف من موہن سنگھ، رگھو رام راجن سے ارون شوری اور یشونت سنہا تک وہ تمام لوگ ہیں جو معاشی معاملات کے ماہر اور جانکار ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ نو ٹ بندی سے نقصان ہوا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی جیسے وہ لوگ ہیں جو نہ تو معاشی معاملات کے ماہر ہیں نہ جانکار وہ لوگ اپنے کچھ مشیروں کے مشورے پر دعوے کررہے ہیں کہ نوٹ بندی سے تو ملک کو بہت بڑا فائدہ ہوا ہے۔ عام لوگ طئے نہیں کرپارہے ہیں کہ آخر وہ کس کی بات پر یقین کریں، معاشی ماہرین کی یا ان لوگوں کی جنہیں معاشی معاملات کا کوئی علم نہیں ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی تو خود ہی ایک ٹی وی انٹرویو(راجیو شکلاکے روبرو پروگرام) میں صفائی کے ساتھ تسلیم کرچکے ہیں کہ وہ بچپن سے ہی آر ایس ایس کے سویم سیوک کی حیثیت سے عوامی کام میں لگ گئے تھے۔ اس لئے تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ بمشکل ہائی اسکول تک وہ پڑھائی کرپائے تھے۔ ارون جیٹلی نے ویسے تو دہلی یونیورسٹی سے قانون تک کی تعلیم حاصل کی ہے۔ وزیر بننے سے پہلے تک وہ سپریم کورٹ میں وکالت بھی کرتے تھے لیکن ان کی بھی حقیقت یہی ہے کہ معاشی معاملات میں ان کا ہاتھ تنگ ہے۔ انہی کی پارٹی کے راجیہ سبھا ممبر سبرامنیم سوامی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ معاشی معاملات میں ارون جیٹلی کو کچھ آتا جاتا نہیں ہے۔ اسی لئے وہ اب تک کے سب سے ناکام وزیر خزانہ ثابت ہورہے ہیں۔
اگر وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور ان کی پارٹی کے دوسرے کچھ لوگوں کی یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ سمیت تمام معاشی ماہرین چونکہ ان کے مخالف ہیں اس لئے وہ نوٹ بندی کو ناکام قرار دے رہے ہیں۔ اگر ارون جیٹلی کے دعوؤں پر یقین کرلیا جائے کہ نوٹ بندی کے بعد بڑے پیمانے پر فرضی کھاتوں کا پتہ چلا ہے انکم ٹیکس ریڑن داخل کرنے والوں کی تعداد میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے ، بینکوں کے پاس بہت زیادہ پیسہ آگیا ہے اور ڈیجیٹل لین دین میں اضافہ ہوا ہے تو بھی یہ باتیں نوٹ بندی کے فائدے میں شامل نہیں کی جاسکتیں۔ اوّل تو ان کے دعوے غلط ہیں دوسرے اگر صحیح بھی ہوتے تو بھی اسے نوٹ بندی کا فائدہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ ارون جیٹلی ہوں یا ان کے سیاسی آقا نریندر مودی دونوں ہی تصویر کا ایک ہی رخ عوام کو دکھا رہے ہیں۔ نوٹ بندی کے فائدے گنواتے ہوئے یہ لوگ اس قسم کے فائدہ تو گنواتے ہیں لیکن ایک بار بھی یہ نہیں بتاتے ہیںکہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ملک کی اوسط درجہ کی چھوٹی اور گھریلو صنعتیں کتنی بڑی تعداد میں بند ہو گئیں ملک کی کنسٹرکشن انڈسٹریز کو کتنا بڑا نقصان ہوا ہے اور اس کی وجہ سے کتنے بڑےپیمانے پر بے روزگاری پیدا ہوئی جن لوگوں کی ان انڈسٹریز میںروزی روٹی چل رہی تھی کتنے بڑے پیمانے پر ان کے سامنے دو وقت کی روٹی کے لئے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں؟ ان باتوں کا ذکر تو دور مودی اور ارون جیٹلی کی سرکار نے ملک میں اب بے روزگاری کے اعداد و شمار تیار کرنے کام ہی بند کرا دیا ہے۔ اب ملک میں ہر سال کتنے بے روزگار پیدا ہورہے ہیں اس کی اطلاع سرکار سے نہیں مل سکتی۔ خودنریندر مودی ۲۰۱۳ میںجگہ جگہ پبلک میٹنگوں میں نوجوانوں سے سوال کرتے پھرتے تھے کہ آپ لوگوں کو آپ کی تعلیمی لیاقت کے مطابق کام ملنا چاہئے یا نہیں اب وہی مودی یہ کہنے لگے ہیں کہ انجینئر ہوں یا آئی آئی ٹی پروفیشنل اگر کوئی نوجوان پکوڑے بنانے کا ٹھیلا بھی لگا لے تو دن بھر میںڈھائی تین سو روپئے کی کمائی تو کرہی لے گا۔
نوٹ بندی کے وقت وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کا جو مقصد اور فائدے بتائے تھے وہ تو پوری طرح غلط ثابت ہوئے ہیں خود مودی بار بار اپنے بیان تبدیل کرتے رہے ہیں۔ آٹھ نومبر ۲۰۱۶ کو پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مودی نے کہا تھا کہ اس سے کالا دھن باہر آئے گا، نقلی کرنسی پکڑی جائے گی اور دہشت گردوں اور نکسلیوں کی معاشی طور سے کمر ٹوٹے گی تو ان کے تشدد پر بھی قابو پایا جاسکے گا۔ مودی کی تینوں باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ ریزرو بینک آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق آٹھ نومبر تک جتنی قیمت کے نوٹ چلن میں تھے اس میں سے ننّانوے فیصد نوٹ واپس آ گئے ہیں۔ اب اگر ننّانوے فیصد نوٹ واپس آ گئے تو کالا دھن اور فرضی نوٹ کہاں گئے؟ نکسلیوں اور دہشت گردوں کی حرکتوں اور تشدد میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ کچھ اضافہ ہی ہو گیا۔ اب آر بی آئی نے بھی تسلیم کرلیا کہ دو ہزار کے نوٹ آنے کے بعد سے ملک میں تقریباً ۳۶ فیصد فرضی نوٹ آ گئے ہیں کانگریس لیڈر آنند شرما کہتے ہیں کہ فرضی یا جعلی نوٹوں میں نو فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ چونکہ مودی کا نوٹ بندی کا فیصلہ غلط ثابت ہو گیا تھا ا س لئے مودی نے اپنے بیان تبدیل کرنے شروع کردیئے۔ اپنی ناکامی چھپانے کے لئے انہوںنے سطح سے گری زبان کا استعمال کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ کانگریس کی حیثیت اور طاقت چونّی بھرتھی تو انہوں نے چونّی بند کی تھی ہماری طاقت اور اور حیثیت ہے تو ہم نے پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹ بند کردیئے ۔ گوا میں وہ اتنے جذباتی ہو گئے کہ بولے کہ مجھے آپ لوگ صرف پچاس دنوں کا موقع دیجئے پچاس دنوں تک تکلیف برداشت کرلیجئے اگر ہم کامیاب نہ ہوئے اور حالات ٹھیک نہ کرسکے آپ لوگ جس چوراہے پر چاہیں میں سزا پانے کے لئے وہاں آ جاؤں گا۔ وہ پوری طرح ناکام ہوئے لیکن عوام کے سامنے کسی چوراہے پر سزا بھگتنے کے لئے نہیں پہونچے۔ اس کے بعد انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہم نے نوٹ بندی کی اس سے ہماری کرنسی یعنی روپیہ مضبوط اور طاقتور ہو کر ابھرے گا۔ روپیہ کتنا مضبوط ہواوہ بھی سامنے ہےایک ڈالر کی قیمت تقریباً ۷۴ روپئے ہوگئی۔ بولے تھے کہ نوٹ بندی سے بے ایمانوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا اور ایمانداروں کی دشواریاں کم ہوں گی۔ عملی طور پر الٹا ہورہا ہے۔ پھر انہو ںنے کہا کہ اس سےلین دین کمی اور ڈیجیٹل لین دین میں اضافہ ہوگا۔ حقیقت کیا ہے کہ خود ریزرو بینک کہتا ہے کہ آج ملک میں چار لاکھ کروڑ روپیہ نقدی کی شکل میں چلن میں ہے۔
اب نوٹ بندی کے دو سال مکمل ہوچکے ہیں ملک ابھی بھی اس کی مار سے کراہ رہا ہے۔ اب نریندر مودی کے وکیل اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی بالکل نئی باتیں کرنے لگے ہیں۔انہوں نے نوٹ بندی کے نئے فائدے بتادیئے۔ان کاکہنا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد سے سترہ لاکھ بیالیس ہزار فرضی کھاتوں کا پتہ چلا ہے۔ کہتے ہیں کہ بینکوں کے پاس بہت پیسہ آگیا ہے۔ اس لئے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ قرض ملنے میں آسانی ہوگئی ہے۔ جیٹلی کہتے ہیں کہ ملک کے لوگوں میں کیش لیس ہونے اور ڈیجیٹل لین دین کرنے میںیقین پیدا ہوا ہے۔ جیٹلی جو فائدے گنوا رہے ہیں نوٹ بندی کے وقت مودی نےنہ تویہ فائدے کبھی بتائے تھے اور نہ شائد انہوں نے اس قسم کے فائدے کے بارے میں سوچا ہوگا۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ارون جیٹلی بھی جھوٹ بول رہے تھے۔ نہ تو بینکوں کے پاس اتنا سرپلس پیسہ آگیا ہے کہ بینک کسی کو بھی قرض دے دے۔ اور نہ ہی کیش لیس اور ڈیجیٹل لین دین میں لوگوں کو بہت زیادہ یقین ہو گیا ہے۔ اگر لوگوں کو کیش لیس ہونے اور ڈیجیٹل بھگتان کرنے میں ہی ضرورت سے زیادہ دلچسپی ہوتی تو پھر ملک میں تقریباً سولہہ لاکھ کروڑ کی کل کرنسی میں سے چار لاکھ کروڑ سے زیاد ہ کے نوٹ نقدی کی شکل میں چلن میں کیسے ہوتے؟ رہی بات سترہ لاکھ بیالیس ہزار فرضی بینک کھاتوں کی تو جیٹلی بار باریہ تو بتاتے ہیں کہ اتنے فرضی کھاتوں کا پتہ چلا ہے لیکن جیٹلی آدھا سچ اور آدھا جھوٹ بول رہے ہیں۔ وہ کھاتوں کی گنتی تو بتاتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں بتاتے کہ ان کھاتوں میں پیسہ کتنا تھا اور اس پیسے کا کیا ہوا؟ یہ بھی نہیں بتاتے کہ فرضی کھاتے کھولنے والوں کے خلاف ان کی وزارت نے کیا کاروائی کی ہے۔ مودی اور ارون جیٹلی کبھی یہ بھی نہیں بتاتے ہیں کہ مودی نے غریبوں کے جو کھاتے بینکوں میں کھلوائے تھے ان کھاتوں میں ضروری بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بینکوں نے ایک سال میں کھاتہ کھولنے والوں سے جرمانے کی شکل میںپانچ ہزار کروڑ روپئے کمائے ہیں۔ یہ پانچ ہزار کروڑ غریبوں کا ہی تو تھا انہی کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا گیا یہ بھی تو نوٹ بندی کی ہی دین ہے۔ پرانے نوٹ جو ریزرو بینک کے واپس آئے انہیںڈسپوز کرنے یعنی بربا د کرنے اور نئے نوٹ چھاپنے پر جو ہزاروں کروڑ کا خرچ ہو گیا وہ بھی تو عوام کا ہی پیسہ تھا۔ ان دونوں کاموں پر کتنے ہزار کروڑ خرچ ہوگئے ایک آر ٹی آئی ایکٹوسٹ نے آربی آئی سے معلوم کیا تو آر بی آئی نے وہ بتانے سے انکار کردیا کیونکہ اتنی بڑی رقم خرچ ہونے کی بات عوام کو معلوم ہو جائے تو لوگوں میں سرکار اور نوٹ بندی کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی کے لئے غصہ کی لہر پیدا ہو سکتی تھی۔ آرٹی آئی ایکٹوسٹ چندر شیکھر گوڑ کے سوال جواب میں ریز رو بینک نے صرف اتنا بتایا کہ اکتیس مارچ ۲۰۱۸ تک واپس آئے تمام پرانے نوٹ برباد کردیئے لیکن اس پر خرچ کتنا آیا یہ نہیں بتایا جاسکتا۔ اس طرح نوٹ بندی سے فائدہ ہونے کے بجائے آر بی آئی سے عام آدمی تک سبھی خسارے میں رہے ہیں۔
(ضروری وضاحت: مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)