سچی باتیں۔۔۔ جدید جاہلیت۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:48PM Thu 28 Jan, 2021

1927-02-21

’’عرب عورتیں ایسی قمیصیں پہنتی تھیں، جن میں موتی ٹکے رہتے تھے، اور بغلوں کے دونوں جانب سِلائی نہیں ہوتی تھی، جس سے پیٹھ کا حصہ کھُلا رہتاتھا۔ اُن کا لباس علی العموم ایسے باریک حریر……وریشم کا ہوتاتھا جس سے بدن کا رنگ جھلکتاتھا، جن کی نسبت کَاسیات عَاریات (ڈھکی ہوئی، پھر بھی ننگی) صادق آتاہے۔ امراء کی خواتین اپنے جسم کو مشک سے معطر کرتی تھیں۔ موتیوں کی کنٹھے پہنتی تھیں، مانگوں میں مشک بھرارہتاتھا، جس کی خوشبو مہکتی تھی۔ چوٹیوں اور مینڈھیوں کی زینت پر خاص توجہ کی جاتی تھی‘‘۔ (تقریر علیا حضرت بیگم صاحبہ بھوپال، چانسلر مسلم یونیورسٹی، بجواب ایڈرس مسلم گرلز کالج۔ علی گڑھ) کیا یہ طرز لباس جاہلیتِ عرب کی عورتوں پر ختم ہوگئی؟ آج مشرق کی نہیں، مغرب کی ، ماضی کی نہیں، حال کی، دَور جہل و جاہلیت کی نہیں، دور علم وقابلیت کی، مہذب وشائستہ لیڈیوں کا لباس کیا اس سے کچھ مختلف ہے؟ ہاں بے شک مختلف ہے۔ چہرہ کو حسین بنانے کے لئے جو پوڈر اور غازے آج نکلے ہیں، اعضائے زینت کے چھپانے کے بجائے نمایاں کرنے کے جو طریقے آج مہذب وشائستہ دماغوں نے سوچ کر نکالے ہیں، نمائش وآراستگی ، برہنگی وعریانی کو آج جن سائنٹفک ذریعوں سے ایک مستقل فن بنادیاگیاہے، وہاں تک آج سے ڈیڑھ ہزارسال قبل کے اَن پڑھ صحرا نشینوں کا وہم وخیال بھی نہیں پہونچ سکتاتھا ! آج ہرشے ’’ترقی‘‘ پرہے، کیا دورِ قدیم کی جہالت وجاہلیت، دورِ جدید میں ’’ترقی‘‘ سے محروم رہ جائے گی! ’’زیب وزینت کے لئے ایسے کُرتے بھی استعمال ہوتے تھے، جن سے ستر معدوم ہوجاتاتھا، پاؤں میں اس قسم کے زیور پہنتی تھیں، جن سے جھنکار ہوتی تھی، شانے اور پنڈلیاں کھلی رہتی تھیں، اس زیب وزینت کے ساتھ وہ مَردوں کی سوسائٹی میں شریک ہواکرتی تھیں، بڑے بڑے گھروں کی کنواری لڑکیاں اپنے دوستوں کے ہمراہ آبادی سے دُور مرغزاروںاور چشموں پر جایا کرتی تھیں۔ علی العموم تمام میلوں میں اور خصوصًا مشہور میلوں میں اسی بناؤ سنگھار کے ساتھ سیروتفریح کرتی تھیں، اور مَردوں کے جلسہ میں بے تکلف بیٹھتی تھیں‘‘۔ (ایضًا) کیا بعینہ یہی کیفیت، زیادہ مبالغہ وترقی کے ساتھ آج موجود نہیں؟آج کی مہذب لیڈیوں کا لباس کہاں تک ان کے جسم کو چھپاتا ہے؟ شانہ ، پشت، اور پنڈلیوں کا آج کتنا حصہ مَردوں کی نظر سے مخفی رہتاہے! ہوٹلوں، کلبوں، پارکوں، سمندر کے ساحلوں، تھیٹروں، سنیماؤں، اور دوسرے تماشوں اور تفریحوں کے موقع پر کیاآج بھی پوری آزادی، بے تکلفی اور بے حجابی کے ساتھ، بیاہیاں اور بن بیاہیاں مَردوں کے ساتھ تماشہ دیکھنے، اور اپنا تماشہ دکھانے میں ہرجگہ مصروف نہیںنظر آتیں؟ پھر آخر کوئی وجہ ہے، کہ قدیم عرب کی انھیں رسموں اور دستوروں کو ’’جہالت‘‘ و ’’جاہلیت‘‘ کا لقب دیاجائے، اور جدید فرنگستان کی انھیں رسموں اور دستوروں کو ، جب وہ اور زیادہ بڑھ جائیںتو ’’تہذیب‘‘ و ’’شائستگی‘‘ و ’’تمدن‘‘ کے نام سے یاد کیاجانے لگے۔ اگر آج تہذیب ہے، توکَل کے عرب میں یہی تہذیب وشائستگی تھی، اگر کَل کے عرب میں جہالت وجاہلیت پھیلی ہوئی تھی ، توآج کے فرنگستان میں اس سے کہیں بڑھی ہوئی جہالت وجاہلیت پھیلی ہوئی ہے۔ بہرحال دونوں قوموں کے لئے ایک معیار ہونا چاہئے۔ http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/