شیخ محمد البشیر الابراہیمیؒ کی زبانی حضرت شیخ الاسلام مدنیؒ کا ذکر
آج ہمارے محترم ڈاکٹر ولی اللہ عبد الرحمن ندوی صاحب نے (علم وکتاب ) پر الجزائر کے عظیم رہنما، مجاہد آزادی اور بانی جمعیۃ علماء الجزائرعلامہ محمد البشیر الابراہیمی رحمۃ اللہ کے حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یہ تاثرات نقل فرمائے ہیں:
((ولازمت الثاني في درسه لصحيح مسلم، وأشهد أني لم أَرَ لهذين الشيخين نظيرًا من علماء الإسلام إلى الآن، وقد علا سني، واستحكمت التجربة، وتكاملت الملكة في بعض العلوم، ولقيت من المشايخ ما شاء الله أن ألقى، ولكنني لم أَرَ مثل الشيخين في فصاحة التعبير، ودقة الملاحظة، والغوص عن المعاني واستنارة الفكر، والتوضيح للغوامض، والتقريب للمعاني القصية، ولقد كنت لكثرة مطالعاتي لكتب التراجم والطبقات قد كوّنت صورة للعالم المبرز في العلوم الإسلامية، منتزعة مما يصف به كتاب التراجم بعض مترجميهم، وكنت أعتقد أن تلك الصورة الذهنية لم تتحقق في الوجود الخارجي منذ أزمان، ولكنني وجدتها محقّقة في هذين العالمين الجليلين (مجموع آثار الإبراهيمي ۵/۲۷۵)
البشیر الابراہیمی نے جو خود علم وادب ، خطابت وبیان کے بے تاج بادشاہ تھے، حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ کے علم وفضل اور اظہار بیان پر جس شاندار انداز سے خراج عقیدت پیش کیا ہے،اس پر یہ بات یاد آئی کہ جو مدت مدید سے اس ناقص ذہن میں اٹکی ہوئی ہے کہ حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ کے شاگردوں اورعقیدت مندوں نے آپ کی للہیت اخلاص و قربانی ، اور اشداء علی الکفار رحماء بینھم اور رد عمل کے پہلؤوں کو اجاگر کرنے پر زیادہ توجہ دی ہے، اور آپ کے علمی وتحقیقی پہلؤوں کو زندگی بخشنے کا کما حقہ حق ادا نہیں کیا ہے۔
یہ احساس اس لئے بھی ذہن میں تازہ ہوا کہ ہمارے ایک بزرگ تھے حضرت مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاری رحمۃ اللہ علیہ سابق شیخ التفسیر جامعہ باقیات الصالحات ویلور، جو خود بہت بڑے عالم دین، خطیب اور روحانی شخصیت کے مالک تھے،ان کا مزاج بڑا انصاف پسندانہ تھا، اپنی رائے بڑے بے لاگ انداز سے دیتے تھے ،اپنے شیخ حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ پر وہ فدا تھے، انہوں نے ہمیشہ اپنی رضا کو حضرت شیخ الاسلامؒ کی رائے کے تابع رکھا، ہم نے ایک مرتبہ آپ سے امام العصر حضرت مولانا سید محمد انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے علم وحافظہ کا تذکرہ کیا، تو فرمایا ہمارے شیخ بھی ان چیزوں میں کچھ کم نہیں تھے، لیکن آپکی ان خصوصیات کو کماحقہ اجاگر نہیں کیا گیا۔ شیخ محمد البشیر الابراہیمیؒ نے حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے ۱۹۱۶ء میں مالٹا قید سے پہلے استفادہ کیا ہے، جب کہ آپ کو مسجد نبوی میں حدیث شریف پڑھاتے ہوئے ایک عشرہ بیت رہا تھا، اور اس وقت آپ کی عمر پینتیس ( ۳۵) سال کے لگ بھگ ہوگی، ساڑھے تین سال مالٹا میں قید بند کی زندگی گذار کر ۱۹۲۰ء میں آپ کی واپسی ہوئی تو اس کے بعد سے وفات ۱۹۵۷ء سال تک (۳۷ ) سینتیس سال تک دیوبند میں مسند حدیث کو رونق بخشی، لہذا اتنی طویل مدت میں جس قدر بڑی تعداد میں تلامذہ نے آپ سے فیض اٹھا، وہ موقعہ دیوبند میں کسی دوسری شخصیت کو نہ مل سکا، لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے علمی کاموں کا جتنا تعارف ہوا اتنا حضرت مدنیؒ کے حصے میں نہیں آیا، اور اس میں شک نہیں کہ اول الذکر کی کے علمی کاموں کی ترتیب، ان کی حفاظت اور اشاعت میں ان کے شاگردوں کا حصہ زیادہ رہا، حالانکہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو جیسے عقیدت مند اور والہانہ محنت کرنے والے ملے، ایسے عقیدت مند دوسروں کو شاذ ونادر ہی ملے ہونگے۔
ہم نے حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے ۱۹۷۸ء کے اواخر میں غالبا طفلانہ نوعیت کے سوال کئے تھے، جن میں سے بہت سی باتیں اب بھی کہیں سوئے ہوئے خلیوں میں کسی تحریک پر جاگ جاتی ہیں، اس مجلس میں ڈاکٹر سید انور علی مرحوم سابق پرنسپل انجمن آرٹس اور سائنس کالج بھٹکل بھی موجود تھے اور انہوں نے ہمیں ان سوالات وجوابات کو فورا نوٹ کرکے محفوظ کرنے کی ہدایت بھی کی تھی، لیکن نوٹ رکھنے کا کبھی مزاج نہیں رہا، اس طرح سنی ہوئی بہت سی باتیں ہوا کہیں فضاؤں میں گھل گئیں، ان باتوں میں حضرت مفکر اسلام علیہ الرحمۃ سے ہمارا یہ سوال بھی تھا، کہ آپ کو کن شخصیات نے بہت متاثر کیا؟، تو آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ صحابہؓ ، تابعینؒ، ائمہ کرام کا ذکر تو ہم ذکر نہیں کریں گے، جن شخصیات کو دیکھا ان میں سے صرف حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہیں، جنہیں ہم نے بہت قریب سے دیکھا ہے، ان کے بارے میں عرض ہے کہ انسان کے پاس بیان کرنے کے لئے الفاظ محدود ہوتے ہیں، اور تاثرات کا دائرہ لامحدود ، محدود الفاظ کا ذخیرہ لا محدود کا احاطہ نہیں کرسکتا، حضرت مدنیؒ کی شخصیت کا جو تاثر دل ودماغ پر پڑتا تھا،اسے الفاظ میں بند نہیں کیا جاسکتا، ان کے پیچھے ہم نے نمازیں پڑھی ہیں، اور روح اور جان پر جو کیفیت ان نمازوں میں ہوتی تھی، انہیں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
ایک اور بزرگ جنہوں نے حضرت شیخ الاسلامؒ رحمۃ اللہ علیہ کو قریب سے دیکھا تھا وہ تھے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق سندیلوی رحمۃ اللہ علیہ سابق مہتمم ندوۃ العلماء لکھنو، ان کی زبانی ہم نے سنا تھا کہ جتنے لوگ اپنے نام کے ساتھ ننگ اسلاف لکھتے ہیں، وہ سبھی جھوٹے ہیں،خود کو ایسا نہیں سمجھتے، سوائے حضرت شیخ الاسلام مدنیؒ کے وہ جب ننگ اسلاف لکھتے تھے تو خود کو سمجھتے بھی تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ کہیں چوک ہوئی ہے، آپ کے شاگرد اور متعلقین آپ کی ذات کے سحر میں محو ہوگئے، اور آپ کے علمی وتحقیقی وراثت کی حفاظت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پائے۔ اللہ ہی کی ذات حکیم ودانا ہے۔
ہمارا دابھیل جانا ہوا تو ذہن میں امام الحرمین جوینی کی طرف منسوب ایک جملہ کلبلانے لگا، کہ امام شافعیؒ کا احسان امت پر ہے اور امام بیھقیؒ کا احسان امام شافعیؒ پر، کچھ ایسا ہی دارالعلوم دیوبند کے ساتھ بھی نظر آتا ہے، اس ادارے کا امت پر احسان ہے، لیکن دابھیل میں دیوبند کے علمی ورثہ مدون کر کے دنیائے اسلام میں دیوبند کی شناخت کو مستحکم کرنے کے جو اسباب پید ہوئے، اس کا جواب نہیں۔ علم ودین کے ان میناروں سے روشنی تا قیامت پھیلتی رہے۔ آمین
2023-07-10