قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے وجود کے تحفظ کے لےکراردو معاشرہ کو سنجیدگی سے موثر لائحہ عمل مرتّب کرنے کی ضرورت۔۔۔از: ڈاکٹر اطہر فاروقی

(ہفت روزہ”ہماری زبان“ کے 15تا 21اگست 2017 ، جلد نمبر-76،شمارہ نمبر-31 میں ڈاکٹر اطہر فاروقی جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو (ہند)کی ایک اہم تحریر قومی کونسل براے فروغِ اُردو زبان کے سلسلے میں شائع ہوئی ہے جسے یہاں نقل کیا جارہا ہے۔)
قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کا وجود خطرے میں ہے۔اس خطرے کا مقابلہ اور سدِّ باب کرنے کے لےے آج اردو معاشرے کو ماضی سے کہیں زیادہ تدبر سے کام لےنے کی ضرورت ہے۔ جس پالیسی کے تحت کونسل کا وجود معرضِ خطر میں آگیا ہے، وہ موجودہ حکومت کی ایک ایسی پالیسی کا آغاز ہے جس میں وہ ان تمام خود مختار اداروں کا احتساب کرنا چاہتی ہے جو حکومت کی مدد سے چل رہے ہیں۔ اداروں کا احتساب ضروری ہے مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کے معاملے میں احتساب کا صحیح رویہ اختیار کیا گیا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ احتساب کہیںاس منزل پر نہ پہنچ جائے جہاں احتساب کی جگہ اختتام ظہور پذیر ہوسکتا ہے؟
اس وقت ایک اور اہم بات بھی قابلِ ذکر ہے۔ ’انڈین ایکسپریس ‘نئی دہلی کی 17 جولائی کی ایک خبر کے سطحی مطالعے کے بعد موقر روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ نے 25 جولائی کو ”قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کی جاں بخشی“ کے عنوان سے صفحہ11 پر ایک مضمون شائع کرکے اس تاثر کو عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کے وجود کو اب کوئی خطرہ نہیں۔ اب اگر اس خبر پر یقین کرکے اردو والے سکون سے بیٹھ جائیں تووہ بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔سطحی مطالعے کی اصطلاح میں نے اس لےے استعمال کی کہ جب تک ہمیں حکومت کے مجموعی اور حقیقی ارادوں کی فہم نہ ہو، کسی ایک اخباری رپورٹ کی بنیاد پر کوئی نتیجہ مرتب کر لینا اور اس پر مبنی کوئی مضمون لکھ کر شائع کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ ’انڈین ایکسپریس ©‘ کی رپورٹ میں جن اداروں کے نام اس ذیل میں مذکور ہیں کہ حکومت ان کا انضمام کسی دوسرے ادارے میں نہیں چاہتی، ان میں قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کا نام نہیں ہے۔ البتہ اس رپورٹ میں زبانوں سے متعلق ایک ادارے Central Institute of Classical Tamil کا ذکر ضرورہے مگر قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کا کہیں ذکر نہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ قومی اردو کونسل کے جامعہ ملیہ، یا مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں انضمام کا معاملہ ابھی بھی زیرِ غور ہے۔
مشہور صحافی اور سابق ممبر پارلیمنٹ جناب م افضل صاحب نے بھی قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کے سلسلے میں وزیر براے فروغِ انسانی وسائل سے بات کی۔ وزیرِ موصوف نے م افضل صاحب کو یقین دہانی کرائی ہے ”قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کی خود مختاری برقرار رہے گی اور اسے کسی دوسرے ادارے میں ضم نہیں کیا جائے گا“۔ افضل صاحب کا شمار سنجیدہ اور اردو کے ہمدرد سیاست دانوں میں ہوتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں کوئی بھی اہم فیصلہ وزیرِ اعظم کے دفتر کی منظوری کے بغیر نہیں ہوتا۔ نیتی آیوگ تو وزیرِ اعظم کا نہایت ہی پسندیدہ ادارہ ہے، جس کی سفارشات پر کسی نہ کسی شکل میں دیر سویر عمل ضرور ہوتا ہے، اس لےے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے میں اکابرینِ اردو کا ایک وفد وزیرِ اعظم سے بھی ملے کیوںکہ وزیرِ اعظم کی دل چسپی کے بغیر نیتی آیوگ کی سفارشات کے عمل درآمد پر روک لگانا بہ ظاہر ناممکن ہے۔
اصولی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت جمہوری طرےقے سے اقتدار میں آئی ہے لیکن مختلف قومی خود مختار اداروں کے تئیں اس کا اپنا نقطہ ¿ نظر ہے۔ حکومت اگر ان اداروں کے متعلق کوئی ایسا فیصلہ کرتی ہے جس میں کسی قسم کی کجی ہو، اور جس سے کسی خود مختار ادارے (خاص کر قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان) پرگزند پڑتی ہوتو اس کے لےے مناسب اورفوری تدبیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان بجٹ کے اعتبار سے ہندستان کا غالباً سب سے بڑاسرکاری اردو ادارہ ہے۔ اب اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس کے انتظامی ڈھانچے میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے تو اس کے لےے اسے اردو معاشرے کو اعتماد میں لے کر اور عوام میں اعلان کرکے، ان کی راے کی روشنی میں اصلاحات کرنی چاہئیں مگر جامعہ ملیہ اسلامیہ یا پھر مولانا آزاد نیشنل ارد ویونی ورسٹی میں قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کو ضم کرنا تو کسی مسئلے کا حل نہیںہے۔
اردو یا کسی بھی اردو ادارے سے متعلق کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جانا چاہیے جو اس ادارے کی بنیادوں کو ہی مسمار کردے۔ قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کے معاملے میں جو فیصلہ نیتی آیوگ (Nitii Ayog) کے ایما پر کیے جانے کا خدشہ ہے اور جوافسران حکومت کے اس مہلک فیصلے پر عمل درآمد کے لےے متعین ہوسکتے ہیں، اُن میں اردو کی نمائندگی ہی نہیں ہے، اس لےے، یہ بہت ضروری ہے کہ اردو والے متحد ہوکر سنجیدگی اور تدبر کے ساتھ قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کے معاملے میں کوئی موثر لائحہ ¿ عمل مرتّب کریں۔ جو حضرات حکومت کے انتظامی ڈھانچے اور بیوروکریسی کے کام کرنے کے طرےقے سے و اقف ہیں، اُن سے یہ درخواست ہم سب کو کرنی چاہےے کہ وہ اس مسئلے پراطلاعات فراہم کر کے مل بیٹھیں اور آئندہ کے لائحہ ¿ عمل کے لےے موثر تجاویز تیار کریں۔
ہمیں حکومت سے یہ پوچھنے کی بھی ضرورت ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کے پیش رو دو ادارے(یعنی بیورو فار پروموشن آف اردو اور ترقی اردو بورڈ) اردو والوں اور خود حکومت کی توقعات پر پورے نہ اتر سکے اور ان توقعات کو پورا کرنے کے لےے کونسل کا قیام عمل میں آیا؟ ترقی اردو بورڈ اور ترقی اردو بیورو کا تو ڈھانچا ہی اتنا کمزور تھا کہ کچھ کرنا چاہتے ہوئے بھی ان سے کچھ نہ بن پڑا۔ ہمیں موجودہ حکومت کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کا موجودہ ڈھانچا این ڈی اے کے گذشتہ دورِ حکومت میں فیصلہ کن تبدیلیوں سے گذرکر اس شکل میں پہنچا ہے جسے ہم آج قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کوکام کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ترقی اردو بیورو کی تدفین بھلے ہی اسی کانگریس کے دورِ اقتدار میں ہوئی ہو جس نے ترقی اردو بورڈ کی لاش کو بھی دفنایا تھا اور قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان نام کے ادارے کے قیام کی ابتدا تھی مگر قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کی موجودہ تشکیل کا عمل کانگریس کے 1996 میں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ہی شروع ہوا۔ نیتی آیوگ نے اپنے دائرہ ¿ احتساب میں جتنے بھی ادارے شامل کےے ہیں ان میں قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کے علاوہ کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جس کا انتظامی ڈھانچا این ڈی اے کی گذشتہ حکومت کے زمانے میں بنا ہو۔
آزادی کے بعد اردو کے فروغ کے لےے جدوجہد کرنے کی تاریخ اس اعتبار سے اہم ضرور ہے کہ اس جدوجہد کا جو بھی نتیجہ نکلا ہو مگر اردو کے فروغ کے لےے کوشاں ہمارے اکابرین کی دانش ورانہ فہم نے ہمارے لےے جو سبق فراہم کےے ہیں، ان کی روشنی میں قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کی بقا اور استحکام کی جدوجہد کو بھی کامیابی سے ہم کنار کیا جاسکتا ہے۔