Sharar Kay Tarikhi Navil
کل علم وکتاب کی اس بزم میں مولانا عبد الحلیم شرر کا کافی چرچا رہا، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبد الماجد دریابدی ، مولانا رئیس احمد جعفری نے جس انداز سے آپ کا تذکرہ کیا ہے، اس کے بعد تو یہ چرچا فطری لگتا ہے،
اردو زبان بنیادی طور پردہلی کے قلعہ معلی سے نکلی ہے، مغلیہ سلطنت کے دور زوال میں فیض آباد اور لکھنو کی سلطنت اودھ نے اسے گود لیا، اور دہلی کے شعراء و ادیبوں کی سرپرستی کی جو یہاں منتقل ہوگئے تھے، یہاں ان کی بڑی پذیرائی ہوئی، چونکہ سلطنت اودھ ایرانی تہذیب وثقافت کی آئینہ دار تھی، تو اس پر ایرانی ادب و ثقافت کے اثرات گہرے پڑے، اور اس کے شعر وادب میں تصنع اور تکلف داخل ہوگیا آیا، اس طرح اردو کے شعر ادب میں دو مکاتب فکر نے جنم لیا۔ اور دونوں میں مسابقت شروع ہوئی۔
جب انگریز ہندوستان آئے تو انہوں نے ابتدا میں فارسی کے بالمقابل اردو کی ترقی میں دلچسپی لی، اس میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کا بڑا کردار رہا ، جس کے سربراہ گلگرسٹ کے زیر نگرانی میر امن دہلوی، سید حیر بخش حیدری، میر شیر علی افسوس، مہر بہادر علی حسینی، مظہر علی ولا، مرزا کاظم علی جوان، خلیل خان اشک، نہال چند لاہوری، بینی رائے جہاں نے نصابی کتابیں تیار کیں، جو داستانوں پر مشتمل تھیں، اور اس میں تکلف اور تصنع سے عاری سلیس زبان کا اہتمام کیا گیا، بعد میں سرسید احمد خان کی تحریک کے زیر اثر یہی اسلوب علمی کتابوں کتابوں کے لئے نمونہ ٹہرا۔
مولانا عبد الحلیم شرر اور رتن ناتھ سرشار اور مرزا رجب علی بیگ بنیادی طور لکھنوی اسلوب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مولانا شرر کے ناولوں میں لکھنو کا یہ اسلوب بہ اتم پایا جاتا ہے، اس میں عبارتوں کے تصنع، لفاظی، مترادفات اور تشبیہات میں افراط کے مظاہر واضح ہیں،شاید یہی اسلوب آئندہ نسلوں کی ان میں عدم دلچسپی کا باعث بنا، ورنہ اپنے دور میں آپ نے ادب اور اس کے ذریعے اسلام کی جو خدمت کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ مولانا کی مصر اور لبنان کی جدید عربی کتابوں تک رسائی تھی، 1281ھ / 1868ء میں بولاق سے شائع شدہ الاغانی کا نسخہ آپ کے سامنے تھا، اور آپ کی نظر سے لبنانی الاصل مصری ادیب جرجی زیدان کے ناول گذرے تھے، جن کا اسلوب تو بہت پیارا تھا لیکن ان میں اسلامی تاریخ کو مسخ کردیا گیا تھا، معلوم نہیں کسی جامعہ میں شرر اور جرجی زیدان کے ناولوں پر موازاناتی مطالعہ ہوا ہے یا نہیں، کیونکہ ان دونوں کے موضوعات میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اگر واضح ہو جائے کہ شرر نے اردو میں جرجی زیدان کے زہر کا تریاق کرنے کی کوشش کی ہے تو اردو ادب پر مولانا کا بڑا احسان شمار ہوگا۔
جرجی زیدان کی وفات ۱۹۱۴ء میں ہوئی تھی اور مولانا شرر کی ۱۹۲۶ء میں، آپ کے معاصر علامہ شبلی (وفات ۱۹۱۴ء ) نے جرجی زیدان کی کتاب التمدن الاسلامی پر الانتقاد کے عنوان سے ایک رد لکھا ہے۔
اردو میں کئی سارے تاریخی ناول نگار ہیں، اور ان کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، بہت ممکن ہے ان میں جذباتی مزاج پیدا کرنے میں ان ناولوں کا بھی ہاتھ ہو جو زیادہ تر تاریخی ہونے کے ساتھ رومانوی نوعیت کے بھی ہیں، ان میں عبد الحلیم شرر، صادق حسین سردھنوی، اور نسیم حجازی اپنے اپنے ادوار میں بہت مقبول رہے ہیں، لیکن ہماری رائے میں ان میں نسیم حجازی سب سے زیادہ معیاری ہیں، ان کا شمار ایک بڑے اسلامی ادیب کی حیثیت سے ہونا چاہئے۔
ناول پڑھنے کی ایک عمر ہوتی ہے، اس کے بعد انہیں پڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے، فردوس بریں اس وقت ہمارے ہاتھ لگی جب ناول ہاتھ سے چھوٹے عرصہ بیت گیا تھا، لیکن شرر کی کتابوں میں یہ ایک زندہ کتاب شمار ہوتی ہے، لہذا دو سال قبل اسے پڑھنے کی کوشش کی، اور اندازہ ہوا کہ اس کے اسلوب اور زبان میں اور آپ کے دوسرے ناولوں میں نمایاں فرق ہے، اس کی زبان زیادہ سادہ ہے، اس میں مقفی اور مسجع عبارتوں کی دوسرے ناولوں کی طرح بھر مار نہیں ہے۔
شرر کی کتابوں میں ہماری پسندیدہ کتاب گذشتہ لکھنو ہے، لکھنو کے مزاج کے مطابق اس میں بھی مبالغہ آرائی کا رنگ پایا جاتا ہے، لیکن یہ ایک زوال پذیر گذشتہ تہذیب کا آئینہ ہے، ہمارے خیال میں ہندوستان کی مختلف اسلامی سلطنتوں کی تہذیب وثقافت کی تاریخ پر اس قسم کے مضامین مشکل سے ملتے ہیں، اس کتاب کو پڑھنے کا شوق ہمیں ڈاکٹر سید عبد الباری مرحوم جو شاعری کی دنیا میں شبنم سبحانی کے نام سے جانے جاتے تھے، ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے "لکھنو کے شعر ادب کا معاشرتی کا معاشرتی وثقافتی پس منظر، عہد شجاع الدولۃ سے واجد علی شاہ تک " سے ہوا تھا، اس کتاب کا پہلا ایڈیش ۱۹۸۷ء میں شائع ہوا تھا، اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ایک اور کتاب کا شوق چرّایا وہ تھی مرزا قتیل کی "ہفت تماشا" اس کتاب کا ڈاکٹر محمد عمر ( استاد تاریخ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) کا کیا ہوا ترجمہ ۱۹۶۸ء میں برہان دہلی نے شائع کیا تھا، ہماری رائے میں ایک طالب علم کو ڈاکٹر سید عبد الباری، عبد الحلیم شرر اور مرزا قتیل کی ان تینوں کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے، اور اس مطالعہ کا آغاز ڈاکٹر صاحب کی کتاب سے کرنا چاہئے۔ ان کے مطالعہ سے ان بہت سی معاشرتی اور ثقافتی گتھیوں کو سلجھنے میں مدد مل سکتی ہے، جو معاشرتوں اور ثقافتی تاریخوں کو پڑھے بغیر سمجھ میں مکمل طور پر نہیں آتیں۔یہاں ایک اور کتاب یاد آئی، شاہ محی الحق بحری آبادی کی کتاب Sir گزشت، شاہ صاحب ڈاکٹر مشیر الحق بحری آبادی کے بڑے بھائی تھے، آپ نے اپنی آب بیتی میں اعظم گڑھ اور پوربی یوپی کی تہذیب ومعاشرت پر بہت خوب روشنی ڈالی ہے۔
عبد الحلیم شرر کو ممکن ہی ہماری نسل بھول گئی ہے، اور ان کے اسلوب نگارش میں وہ جاذبیت نہیں پارہی ہے جو ایک صدی پیشتر کا قاری محسوس کرتا تھا، لیکن آپ نے ناولوں کے ذریعے قوم میں اسلام او اپنے اسلاف سے محبت دل میں پیدا کرنے کی کوشش میں عمر عزیز کا جو حصہ صرف کیا ہے اسے بھلایا نہیں جاسکتا۔