مؤمن بن جا نے کےسوا اور کوئی چارہ نہیں !(از:عالم نقوی)

Bhatkallys

Published in - Other

04:06PM Tue 20 Oct, 2015
پہلے مسلما نوں کے لیے بھارت میں رہنے کی شرط وندے ماترم کہنا تھی اب اس میں یوگا اور سوریہ نمسکار کے لزوم کے ساتھ بیف نہ کھانا بھی شامل کر دیا گیا ہے ،کل اس فہرست میں اور کوئی اضافہ نہ ہوگا ،اس کی کوئی ضمانت نہیں۔لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اب اسلام دشمن اور مسلم دشمن پردے میں نہیں ہیں اسرائیل کی سر براہی والا عالمی صہیونی پریوار ہو یا آر ایس ایس کی سر براہی والا بھارتی سنگھ پریواردونوں نے اپنے سارے مکھوٹے اتار پھینکے ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ برطانیہ اور امریکہ کی سر براہی والے پروٹسٹنٹ عیسائی پریوار کے ساتھ مل کر اب وہ اپنے دائمی دشمنوں، اسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ ہی نہیں صفایہ بھی کر سکتے ہیں ۔ لیکن وہ غلط فہمی کے شکار ہیں ۔ ان کا یہ خیال غلط ہے کہ وہ اپنے حامی و مددگار مسلم حکمرانوں اور اپنے زائیدہ و پروردہ خوارج کے ذریعے امت مسلمہ محمدیہ کے استیصال میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔استیصال تو دور وہ پوری امت کو اپنی پر فریب ما بعد جدید اصطلاحوں سے فریب بھی نہیں دے سکتے ۔ یہ اور بات ہے کہ مسلم دنیا اور بھارت میںقتل و غارت کا جو نیا دور شروع ہوا ہے ،اس میں ابھی اور شدت آئے گی ۔ وطن عزیز بھارت میں یہ سلسلہ صرف محمد اخلاق ،محمدنعمان او ر محمد زاہد کے بہیمانہ قتل پر تھمنے والا نہیں ۔پانچ جنیہ میں شایع ونے کرشن چترویدی کے مضمون کہ ویدوں کے مطابق گؤ ہتیا کرنے والے کے پران لے لینا جائز ہے اور ہریانہ کے مکھیہ منتری سیوم سیوک کھٹر کا یہ بیان کہ مسلمانوں کو بھارت میں رہنا ہے تو انہیں بیف کھانا چھوڑنا ہو گا وغیرہ کو اگر ساکشی مہاراج ،سادھوی پراچی جیسوں کے مسلم دشمن بیانات اور اسلام مکت بھارت کے اعلانات سے ملا کر دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ آنے والے دن صرف مسلم ممالک ہی کے لیے نہیں بھارتی مسلمانوں کے لیے بھی ناقابل تصور حد تک خطرناک ہو سکتے ہیں ۔لیکن دنیا مؤمنوں سے خالی نہیں ۔نہ کل تھی ،نہ آج ہے نہ کل ہوگی ۔ رہے یہ ابتلا اور آزمائش والے موجودہ اور مستقبل کے ممکنہ حالات تو یہ ہماری کرنی کا پھل ہیں ۔ اللہ کی رَسًی۔حبل من اللہ۔ کو مضبوطی سے نہ تھامنے اور فرقوں بٹنے اور تفرقے میں پڑنے کا نتیجہ ، ہوا کا اکھڑناتھا ، سُوہماری ہوا اُکھڑی ہوئی ہے ۔غلبے کی بنیادی شرط مؤمن ہوناتھی ۔لیکن قرآن اور ایمان ہمارے حلق میں اٹکا ہواہے ،نیچے نہیں اترا ،سُو مغلوبیت اور محکومیت کا عذاب تو جھیلنا ہی پڑے گا ! ہم سے کہا گیا تھا کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ،اور ، اپنی استطاعت بھر قوت حاصل کرو اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اپنی دسترس میں رکھو تو اللہ کے دشمنوں پر ،تمہارے دشمنوں پر اور تمہارے اُن دُشمنوں پر جنہیں تم نہیںپہچانتے مگر اللہ جانتا ہے کہ وہ تمہارے دشمن ہیں ، تمہاری ہیبت بیٹھ جائے گی اور تمہاری دھاک جم جائے گی ،لیکن ہم نے ان احکامات پر عمل کرنے کو کون کہے ان آیات قرآنی کو سمجھنے کی بھی کوشش نہیں کی ۔ہم نے کتاب عمل اور کتاب ہدایت کو رَٹو طوطے کی طرح بغیر سمجھے پڑھ لینے اور بغیر سمجھے سُن لینے ہی کو پورا اسلام اور کامل ایمان سمجھ لیا ،سُو ہمارے ساتھ تو یہ سب ہو نا ہی تھا !اب بھی اگر ہم نے وَھَن کے شکار بے عمل عالموں سے اپنا پِنڈ نہیں چھُڑایا تو ،تیار رہیے ،ابھی تو یہ شروعات ہے ! آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ! ! تو پھر کیا کریں ؟ کچھ نہیں ۔ بس سیدھے سچے مسلم اور مؤمن بن جائیں ۔خود سچے بنیں اور سچوں کے ساتھ ہو جائیں ۔ موت سے ڈرنا چھوڑدیں ،بلکہ موت کی تمنا کریں کہ سچے ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے !دنیا کی لالچ اور ہوس دل میں رکھنا مؤمن کا شیوہ نہیں ۔ اسراف اور عیش سے بچیں کہ مسرفین اور مترفین دونوں کا آخری ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نہ خود دوسرے پر ظلم کریں نہ کسی دوسرے پر ظلم ہوتے دیکھ کر چپ رہیں ۔ ظلم ،دہشت گردی اور ظالم کے خلاف کھڑے ہونا،ظلم کے خاتمے کے لیے اپنے امکان بھر جد و جہد کرنا ہی تو جہاد ہے !قرآن مسلمانوں کو خیر امت کہتا ہے یعنی مسلمانوں کو پوری امت کے لیے خیر ہی خیر ہو نا چاہیے ۔ قرآن مؤمن کی شناخت اشد ا ء علی ا لکفار و رحما ء بینھم قرار دیتا ہے اور ہم ؟ ہمارے خواص وعوام کی اکثریت تو سراپا شر بنی ہوئی ہے !کیا ہم قرآنی مطالبے کے بر خلاف آپس میں سخت اور اپنے دائمی دشمنوںپر (جنہیں خود قرآن ہمارا سب سے بڑا دشمن قرار دیتا ہے )نرم نہیں ؟ جس سود کو قرآن اللہ اور اس کے رسول ﷺکے خلاف جنگ قرار دیتا ہے کیا ہم اس میں گلے گلے ڈوبے ہوئے نہیں ؟اللہ تبارک و تعالی نے اپنے نبیوں کی بعثت کا مقصد عدل و قسط کا قیام اورہر طرح کے ظلم اور نا انصافی کا خاتمہ قرار دیا ہے اور شرک کو ظلم عظیم بتا یا ہے ۔ہم بہ حیثیت امت اس ظلم عظیم کے استیصال کے لیے کیا کر رہے ہیں ؟ دعوت ہمارا فرض منصبی ہے ۔ہم اسے بھی دیگر فرائض کی طرح بھولے بیٹھے ہیں ۔ سو ہمارا تو جو حشر نہ ہو سو کم ہے ! (بصیرت فیچرس)