سچی باتیں۔۔۔ مسدس حالی کے نعتیہ اشعار۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:51PM Thu 22 Oct, 2020

1926-09-06

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماوی یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ مسدس حالیؔ کے یہ نعتیہ اشعار غالبًا آپ کی نظر سے گذر چکے ہوں۔ ان میں سرور کائنات ﷺ کی جو تصویر دکھائی گئی ہے، یہ آپ کے نزدیک محض شاعری ہے، حقیقت بیانی ہے؟ حدیث وسیرت کی معتبر کتابوں میں اس پاک زندگی کے یہی خط وخال درج ہیں، یااس کے برعکس؟ موافقین کو جانے دیجئے، آج جن لوگوں نے مخالفت وعداوت کے جذبات کے ساتھ قلم اُٹھائے ہیں، کیا اُن کو بھی اس کے مخالف کچھ لکھنے کی جرأت ہوسکی ہے! ان کو بھی جانے دیجئے۔ کفار قریش جو شدید ترین دشمن تھے، او رجو ’’شاعر‘‘ و ’’ساحر‘‘ ’’کاہن‘‘ و ’’مجنون‘‘ کہہ کر اپنی ’’خوش دماغی‘‘ کا ثبوت بہم پہونچاتے رہتے تھے، کی اُن کو بھی کبھی رحمت عالمؐ کی شفقت ومرحمت، ہمدردی وغریب نوازی، تواضع وانکسار میں شک وشبہہ ہواہے؟ آپ کہتے ہیں ، کہ آپ تباہ ہوئے جاتے ہیں، ہلاک ہورہے ہیں، برباد ہورہے ہیں، گردشِ فلک آپ کو پیسے ڈالتی ہے، لیکن آپ نے ادھر بھی کبھی خیال کیاہے، کہ آپ کی زندگی کو آپ کے سردار، اور ساری دنیا کے سردار کی زندگی سے کوئی بعید سے بعید مناسبت بھی باقی رہی ہے؟ آپ کے طرز عمل کو آپ کے آقا، اور ساری کے آقا کے طرز عمل سے کوئی ادنیٰ واسطہ بھی رہ گیاہے؟ آپ اگر زمیندار ہیں، تو اپنے کاشتکاروں کے ساتھ، اگر حاکم ہیں تو اپنے زیردستوں کے ساتھ، اگر بڑے ہیں تو اپنے چھوٹوں کے ساتھ، آپ کا کیا برتاؤ ہے؟ اپنی عمر میں کتنے فاقہ زدوں کے حلق میں رزق کے دانے پہونچانے کے لئے آپ نے اپنی دعوتیں اور ضیافتیں ناغہ کی ہیں؟ کتنے بیکسوں کی غمخواری، اور دُکھیاروں کی خبرگیری میں آپ نے اپنے خواب استراحت کی کچھ گھڑیاں بھی قربان کی ہیں؟ عید میں جب اپنے بچوں کو نئے کپڑوں میں دیکھ کر آپ خوش ہوتے ہیں، کبھی ادھر بھی آپ کا ذہن جاتاہے، کہ آپ ہی کی بستی میں، آپ ہی کے محلہ میں، آپ ہی کے پڑوس میں کتنے بن ماں باپ کے بچے ایسے بھی ہیں، جو آپ کے بچوں کے نئے کپڑوں کو نہیں ، اُن کے جسم کی پھٹی پُرانی اُتارن کو ترس رہے ہیں؟ حکام کی پارٹیوں میں ، رئیسوں کے ’’ایٹ ہوم‘‘ میں جس وقت چاروں طرف الوان نعمت کے ڈھیر لگے ہوں، کبھی یہ یاد بھی آپ کے دل میں کھٹک پیدا کرتی ہے، کہ اسی قطعۂ زمین سے چند قدم کے فاصلہ پر آپ ہی کے کچھ بھائی بند ایسے بھی ہیں، جن کے گھروں میں، اگر آپ کی سجی سجائی میز کی پلیٹیں نہیں، بلکہ آپ کے بچے کھچے جھوٹے کے وہ ٹکڑے، جنھیں شاید آپ کے کتّے بھی نہ کھائیں، پہونچ جائیں، تو ان بیچاروں کو رزق نصیب ہوجائے؟ آپ کے رسول برحقؐ کو خدا نے عالم کا مخدوم بناکر بھیجاتھا، مگر وہ سب کی خدمت پر حریص رہے۔ آپ کی حیثیت خادم سے زائد نہیں، لیکن آپ بجائے خدمت کرنے کے دوسروں سے خدمت لینے پر حریص ہیں! رب العزت کے حبیبؐ اپنے ہاتھ سے دوسروں کے کام کاج کردیاکرتے تھے، آپ خود اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں اپنی توہین سمجھتے ہیں! اور محتاجوں اور اپاہجوں کی ہمنشینی ، فاقہ زدون اور بیماروں کی دلدہی فرماتے رہتے تھے، آپ کو صرف امیرون اور رئیسوں ، حاکموں اور افسروں کی دوستی اور ہمنشینی میں لطف آتاہے! وہاں فرطِ خلوص وایثار سے دشمن تک ’’اپنے ‘‘ ہوجاتے تھے، یہاں خودغرضیوں کا یہ عالم ہے ، کہ ’’اپنے ‘‘ تک دشمن بنے جاتے ہیں! اس حال میں ، ہم کو ، کوئی حق حاصل ہے، کہ اپنی پستی وشکستہ حال، ذلت ودرماندگی ، پر فریاد برپا کرسکیں؟ حرف شکوہ زبان پر لاسکیں؟

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/