تبصرہ کتب : تذکرہ انبیاء و رسل علیہ السلام - جلد اول ۔۔۔۔ تبصرہ نگار : ملک نواز احمد اعوان

Bhatkallys

Published in - Other

03:03PM Sat 23 Sep, 2017

نام کتاب: تذکرۂ انبیاء و رسل علیہم السلام۔ ۔ ۔ جلد اوّل صفحات: 504۔ ۔ ۔ قیمت 900 روپے تذکرۂ انبیاء و رسل علیہم السلام۔ ۔ ۔ جلد دوم صفحات: 488۔ ۔ ۔ قیمت 900 روپے مصنف: حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرتب و محقق و مدون: مولانا عبدالوکیل علویؒ (ایم اے عربی، اسلامیات، تاریخِ اسلام، فاضل عربی) ناشر: سید خالد فاروق مودودی۔ ادارہ ترجمان القرآن۔ غزنی اسٹریٹ اردو بازار، لاہور فون نمبر +92-42-37236665, 37234014 ای میل : idaratarjuman@yahoo.com ویب گاہ: www.tarjumanulquran.com حضرت مولانا عبدالوکیل علویؒ اہلِ اللہ میں سے تھے، علم و عمل کے جامع تھے، انہوں نے بڑی محنت سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے علوم کو مرتب کیا جن میں سیرتِ سرورِ عالم، تفہیم الحدیث اور زیر نظر کتاب وغیرہ شامل ہیں۔ مولانا عبدالوکیل علویؒ تحریر فرماتے ہیں: قرآن مجید اللہ وحدہٗ لاشریک کا نازل کردہ زندۂ جاوید معجزہ ہے۔ اس جیسا کلام آج تک پیش کرنے سے عرب و عجم کے سارے اہلِ زبان اور اصحابِ علم ودانش عاجز اور درماندہ ہیں، اور قیامت تک اس جیسا کلام پیش بھی نہ کرسکیں گے۔ قرآن کریم میں انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے مختلف معجزانہ اسلوب اختیار کیے گئے ہیں۔ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اممِ ماضیہ اور گزشتہ اقوامِ عالم کے واقعات اور قصص کے ذریعے سے ان کے عمدہ کردار اور نیک و بداعمال کے نتائج و ثمرات کو بیان کرکے عبرت و بصیرت کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔ اس کے لیے قرآن نے تاریخی اسلوب کے بجائے ابلاغِ حق اور دعوتِ الی اللہ کے اہم مقصد کو پیش نظر رکھ کر صرف انہی واقعات کا تذکرہ کیا ہے جن سے اس مقصد پر روشنی پڑتی ہے۔ قرآن میں ان قصص کی تکرار کی وجہ بھی یہی ہے کہ انسان کے فطری اور طبعی و جبلی رجحانات کو ان حقائق کی جانب متوجہ کیا جائے۔ قرآنِ عزیز کے سارے مضامین پر غور و خوص کے بعد انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک حصے میں وہ احکام اور ہدایات ہیں جو نوعِِ انسانی کو اصلاح و فلاح کا راستہ دکھاتے ہیں، اور دوسرا حصہ تاریخِ عالم کے عبرت آموز واقعات اور بصیرت افروز حالات پر مشتمل ہے۔ اعمالِ صالحہ انجام دینے والوں کے لیے دل نواز بشارتیں اور اعمالِ بد کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ اگرچہ قرآن مجید کا وہ حصہ جس میں نوعِ بشر کے لیے فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی کا جاں فزا مژدہ سنایا گیا ہے، بہت اہم ہے، تاہم دوسرا حصہ بھی جو اقوام عالم اور امم ماضیہ کے عبرت انگیز اور بصیرت آموز واقعات و قصص کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہیں، کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ مفسرین علماء نے جس طرح احکام و ہدایات کی تشریح و توضیح میں کاوشیں کی ہیں، اسی طرح انبیاء و مرسلین کے قصوں کو بھی بے لاگ طریقے سے بیان کیا ہے۔ یوں قصص الانبیاء ہمارے اسلامی ادب کا معروف باب بن گیا ہے۔ قصص القرآن (قرآنی قصے) قرآن کریم کا ایک نہایت اہم مضمون ہے جسے کلامِ الٰہی (قرآن مجید) میں کسی جگہ تفصیل سے اور کسی جگہ اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ان قصص میں زیادہ تر انبیاء و مرسلین اور ان کی قوموں اور امتوں کے حالات و واقعات اور نتائج و ثمرات کو لوگوں کے سامنے سبق حاصل کرنے کے لیے بیان کیا گیاہے۔ یہ اہم موضوع ذہن نشین کرانے کی خاطر ایک ایک بات کے اظہار کے لیے مختلف اسالیب اور متنوع پیرایۂ بیان اختیار کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حوصلہ اور تسلی دی گئی ہے کہ آپؐ سے پہلے بے شمار انبیاء و مرسلین بگڑے ہوئے لوگوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے اس دنیا میں مبعوث کیے گئے ہیں۔ ان امتوں نے واشگاف الفاظ میں دینِ حق کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا، انبیائے کرام کے درپے آزار ہوگئے اور مخالفت میں پورا زور صرف کر دیا۔ اس کے باوجود داعیانِ حق کو نیچا دکھانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ان تاریخی واقعات کے بیان سے قرآن حکیم کا مقصد اور مطمحِ نظر کفارِ مکہ، مشرکینِ عرب اور دیگر اعدائے اسلام کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے، اطمینانِ قلب اور تسکینِ روح کا سامان مہیا کرنا ہے۔ یہ جملہ اہلِ ایمان کے لیے تاقیامت تذکیر و نصیحت ہے، ارشادِ ربانی ہے (ترجمہ)’’پیغمبروں کے قصوں میں سے یہ سب قصے ہم آپؐ سے بیان کرتے ہیں جن کے ذریعے سے آپؐ کے دل کو تقویت دیتے ہیں اور ان قصوں کے اندر آپؐ کے پاس حق پہنچتا ہے اور ان میں اہلِ ایمان کے لیے نصیحت اور یاددہانی ہے۔‘‘ (ہود 120:11) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی شہرۂ آفاق تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ میں انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی سیرت پر بہت کچھ تحریر کیا ہے۔ علاوہ ازیں اپنی دیگر تصانیف میں اس موضوع سے متعلق جتنا کچھ لکھا ہے، ہم نے جمع کرکے تذکرۂ انبیاء و رسل کے نام سے یک جا تصنیفی صورت میں مرتب کردیاہے۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اعدائے انبیائے کرام، عیسائیوں اور یہودیوں اور مستشرقین وغیرہ نے ان کی پاک سیرتوں کو جس طرح داغ دار کیا ہے، ان پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کی ہیں، بے بنیاد و من گھڑت قصے ان سے منسوب کیے ہیں اور ان کی ذات پر رکیک حملے کیے ہیں، ان سب کے عقلی و نقلی اور مسکت جوابات سے قرآن حکیم نے ان عظیم المرتبت شخصیتوں کی پاکیزہ سیرتوں پر ڈالے ہوئے دھبوں کو دھوکر صاف کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے راقم الحروف کو سیرتِ انبیاء و مرسلین کے عظیم کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں اپنی خاص رحمت اور بے پایاں فضل سے نوازا۔ یہ منصوبہ بھی، جیساکہ اس سے پہلے اشارہ کیا گیا ہے، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی جملہ تصانیف بشمول تفہیم القرآن میں موجود لوازمے سے مکمل کیا گیا ہے۔ دیانت داری سے اگر مولانا کی دینی خدمات پر نظر ڈالی جائے تو بغیر کسی بے جا حمایت و طرف داری کے یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ انکشافات اور سائنسی ترقی کے اس دور میں سائنٹفک طریقے سے جس زورِ استدلال کے ساتھ نئے اسلوبِ بیان اور جدید زبان میں اور جس بڑے پیمانے پر مولانا مودودیؒ نے اسلام کی بنیادی و اساسی صداقتوں اور اس کے مکمل نظامِ تہذیب و تمدن کے مختلف گوشوں اور پہلوؤں کو واضح کیا ہے اس کی مثال فی زمانہ دور دور تک نظر نہیں آتی۔ آپ کی دینی و علمی بصیرت اور تاریخی قابلیت و اہلیت کا تقریباً ہر شخص، خواہ وہ موافق ہو یا مخالف، معترف ہے اور احکامِ اسلامی کی صحیح شکل و صورت میں جدید دور میں نئے نئے پیدا شدہ حالات پر منطبق کرنے کی جو خداداد صلاحیت آپ کو حاصل تھی، اتنی کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ اسلام کی روشنی میں زندگی کے نئے اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام و مرتبہ عنایت فرمایا ہے وہ غیر متعصب اہلِ علم و نظر سے مخفی اور پوشیدہ نہیں، خواہ اس کا اعتراف خوش دلی سے کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ اس حقیقت سے شاید ہی کسی کو انکار کی جرأت ہو کہ دورِ حاضر میں مغرب کی خدا ناآشنا ملحدانہ اور مادّہ پرستانہ فکر کے امنڈتے ہوئے طوفان کا مقابلہ کرنے میں مولانا مودودیؒ دیگر مصلحینِ امت سے پیچھے نہیں رہے بلکہ آگے ہی ہیں۔ اس مجموعے میں دیگر خصوصیات کے ساتھ چند اہم باتوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ٭ہر قصے کی پہلی فصل میں مختلف سورتوں میں متعلقہ نبی کا مذکور قصہ یک جا بیان کردیا ہے اور ساتھ اس کا اردو ترجمہ بھی دے دیا ہے۔ ٭ کتاب میں مذکور واقعات قرآن مجید سے لیے گئے ہیں اور موقع و محل کی مناسبت سے حسبِ ضرورت مستند صحیح احادیث سے تاریخی واقعات کی وضاحت کردی گئی ہے۔ ٭ اسرائیلی خرافات اور معاندین کے اعتراضات اور اشکال کا عقلی و نقلی دلائل سے جواب دیا گیا ہے۔ ٭ خاص خاص مقامات پر تفسیری مباحث کو ذکر کیا گیا ہے۔ ٭ حدیثی اور تاریخی اشکالات اور ابہامات کو کھول دیا گیا ہے۔ ٭ ہر قصے کے بیان کا مقصد اور غرض و غایت بھی بتادی گئی ہے۔ اب یہ خدمت جیسی کچھ ہے، پیش خدمت ہے۔ اس موقع پر میں یہ اظہار کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سال ہا سال قبل میں نے بڑی محنت کے ساتھ یہ مسودہ تیار کیا تھا مگر وہ بوجوہ گم ہوگیا۔ اب اللہ کی توفیق سے مجھے یہ سعادت حاصل ہورہی ہے کہ دو سال کی دوبارہ محنتِ شاقہ کے ساتھ میں نئے سرے سے اس عظیم الشان کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوا ہوں۔ رب کائنات کے حضور نہایت عجز و انکسار کے ساتھ دست بدعا ہوں کہ وہ اسے اپنے حضور شرفِ قبولیت سے نوازے اور قارئین کے لیے باعثِ رشد و ہدایت بنائے اور مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے لیے بلندیٔ درجات و مراتب کا موجب بنے۔ مرتب ناچیز کو خصوصی دعاؤں میں شامل رکھیں کہ اس کتاب کو میرے لیے توشۂ آخرت بنائے اور اپنے صالح بندوں میں شامل فرمائے، آمین۔ راقم الحروف اس سلسلے میں جناب حافظ محمد ادریس صاحب ڈائریکٹر معارف اسلامی کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ انہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیتوں کے باوجود اس مجموعے پر نظرثانی کی، اور اسی طرح جناب مولانا محمد احمد واصل واسطی صاحب کا بھی ممنونِ احسان ہوں کہ انہوں نے بھی سارا مجموعہ بغور دیکھا اور مفید مشوروں سے تعاون فرمایا۔ اللہ تعالیٰ دونوں بزرگوںکو اپنے خصوصی انعام سے نوازے، آمین۔‘‘ جلد اوّل دس ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اوّل میں حضرت آدم علیہ السلام کا تذکرہ ہے۔ باب دوم میں قصہ ہابیل و قابیل کا تذکرہ ہے۔ باب سوم میں حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ ہے۔ باب چہارم میں حضرت ہود علیہ السلام کے حالات ہیں۔ باب پنجم میں حضرت صالح علیہ السلام کا بیان ہے۔ باب ششم میں حضرت ابراہیم اور فرزندانِ ابراہیم علیہم السلام کے حالات ہیں۔ باب ہفتم حضرت اسماعیل علیہ السلام کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ باب ہشتم میں حضرت لوط علیہ السلام کی زندگی کا بیان ہے۔ باب نہم حضرت یعقوب علیہ السلام اور باب دہم حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات کے بیان میں ہے۔ جلد دوم: تذکرۂ انبیاء و رسل علیہم السلام جلد دوم بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ گیارہواں باب حضرت یونس علیہ السلام، بارہواں باب حضرت داؤد علیہ السلام، تیرہواں باب حضرت سلیمان علیہ السلام، چودھواں باب حضرت ایوب علیہ السلام، پندرھواں باب حضرت ذوالکفل علیہ السلام، سولہواں باب حضرت زکریا و حضرت یحییٰ علیہما السلام، سترہواں حضرت الیاس علیہ السلام، اٹھارہواں باب حضرت الیسع علیہ السلام، انیسواں باب حضرت شعیب علیہ السلام، بیسواں باب حضرت عزیر علیہ السلام، اکیسواں باب حضرت موسیٰ علیہ السلام، بائیسواں باب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات پر مشتمل ہے۔ کتاب ہمارے دینی ادب میں مؤقر اضافہ ہے اور اس کا ہر لائبریری میں ہونا علم و دین کے لیے مفید ہوگا۔ ان شاء اللہ کتاب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولانا عبدالوکیل علویؒ کے لیے صدقۂ جاریہ ثابت ہوگی۔ کتاب کی دونوں جلدیں مجلّد ہیں، رنگین سرورق سے مزین ہیں، سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے۔

بشکریہ : فرائیڈے اسپیشل