مزہ اس ملاپ میں ہے جو صلح ہوجائے جنگ ہوکر

Bhatkallys

Published in - Other

03:52PM Fri 20 Jan, 2017
از:حفیظ نعمانی ملائم سنگھ نے دیکھ لیا کہ اب ان کے پاس کچھ نہیں بچا ہے اور لڑنے کا وقت نہیں ہے تو انھوں نے لالو جیسے دوست اور خاندان کے دباؤ میں آکر وہ فیصلہ کیا جس سے دشمنوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور اکھلیش نے پھر ثابت کیا کہ وہ صرف جسمانی طور پر ہی نہیں دماغی طور پر بھی بہت پھرتیلے ہیں۔ انھوں نے ملائم سنگھ کو پوری طرح شیشے میں اتارنے کے صرف ایک گھنٹے کے اندر اندر ان کے سامنے وہ خوبصورت پوسٹر رکھ دیا جس میں ملائم سنگھ کی تصویر پر بڑی تھی اور اکھلیش کی چھوٹی۔ اور دوسرا پوسٹر بھی جس م یں درمیان میں سائیکل تھی اور ملائم سنگھ کی بڑی اور اکھلیش کی چھوٹی تصویریں تھیں۔ اور اب ملک دیکھے گا کہ باپ کی سرپرستی میں بیٹا وہ سب کرگیا جو اس کا منصوبہ ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ ملائم سنگھ نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے سے کیوں انکار کیا؟ یہ بات سب جانتے ہیں کہ کانگریس کی واپسی میں ابھی دیر ہے۔ ہم دوسروں کی کیا بات کریں ہم نے ہی ابھی کانگریس کو معاف نہیں کیا ہے۔ اور جب موقع ملتا ہے دل کا زہر کاغذ پر بکھیرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہم اس اتحاد کے لیے اس وجہ سے آمادہ تھے کہ سماج وادی اگر کہیں مسلمان امیدوار کو ٹکٹ دے گی تو بی ایس پی بھی مسلمانوں کو ہی دے گی اور کانگریس بھی اس لیے مسلمانوں کو دیگی کہ کوئی یہ نہ کہے کہ کانگریس مسلمانوں کے خلاف ہے۔ حالاں کہ اس کا نتیجہ بی جے پی کی لاٹری ہوتا۔ اکھلیش یادو سے ہماری بات نہیں ہوئی ہے۔ لیکن انھوں نے بھی شاید یہی سوچا ہوگا جس کا نمونہ ۲۰۱۴ء کے الیکشن میں سب نے رام پور اور مراد آباد میں دیکھ لیا۔ اور اس سے بچنے کے لیے ہی سنا ہے کہ اکھلیش نے بہت بڑا دسترخوان بچھا دیا ہے۔ انھوں نے لالو یادو، ممتا بنرجی، نتیش کمار اور ڈاکٹر ایوب سب کو دعوت دی ہے کہ دسترخوان کی رونق بڑھائیں۔ انہیں تو اسمبلی کا الیکشن اسی نعرہ پر لڑنا چاہئے تھا کہ جو سمجھتا ہے کہ نوٹ بندی سے ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے وہ ہمارے ساتھ آئے اور جو سمجھتا ہے کہ اس سے فائدہ ہوا ہے وہ بی جے پی کے ساتھ چلا جائے۔ نہ اس میں پارٹی کی قید وہتی نہ نظریات کی اگر کوئی سیکولر ذہن والا اسے مفید سمجھتا ہے تو وہ مودی مودی کرتا ہوا جائے اور آر ایس ایس کا پرچارک بھی اگر اسے غلط سمجھتا ہے تو وہ ہمارے ساتھ آئے۔ اس لیے کہ اس وقت ملک کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ۷۵ دن ہوجانے کے بعد آج بھی ہم اپنے روپے کے مالک نہیں ہیں اور ایک ہفتہ میں۲۴ ہزار روپے ہی نکال سکتے ہیں اور ہم اسے غلامی سمجھتے ہیں۔ کانگریس کے غلام نبی آزاد نے جب ۲۷ سال یوپی بے حال کے نعرہ کے ساتھ اترپردیش میں قدم رکھا تھا تو اس وقت بھی یہی کہا تھا کہ ہم سرکار بنانے کے لیے الیکشن لڑیں گے اور جب راہل گاندھی نے ۲۰۱۲ء کی طرح پورے اترپردیش کو کسان یاترا اور کھاٹ کلچر کے ذریعہ دیکھ لیا تو ا نہیں اندازہ ہوگیا کہ ان کے بڑوں نے جو غلطی کی ہے اسے یوپی والوں نے معاف نہیں کیا ہے تو جس پرشانت کشور کو وہ الیکشن جتانے اور حکومت بنوانے کے لیے لائے تھے اس کے سپرد یہ کام بھی کیا کہ وہ ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو سے ملک کر گٹھ بندھن کی بات کریں۔ قارئیں کرام کو یاد ہوگا کہ ہم نے پہلے دن سے مخالفت کی تھی اورکہا تھا کہ ۲۰۱۴ء میں اگر کوئی کشور نہ ہوتے تب بھی بی جے پی جیت جاتی اس لیے کہ ہر آدمی کانگریس سے ناراض تھا۔ اگر کالے دھن اور ۱۵۔۱۵ لاکھ کا جھوٹ بولنے کا انھوں نے مشورہ دیا تھا تو انھوں نے دشمنی کی تھی اور اگر مودی جی نے مہنگائی ختم کرنے، بے روزگاری دور کرنے اور اچھے دن لانے کے سنہرے خواب اپنی طرف سے دکھائے تھے تو لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ اتنا ذمہ دار آدمی ہے اتنے جھوٹے اعلان کیسے کرسکتا ہے؟ یہی ہم نے بہار کے ا لیکشن کے بارے میں کہا تھا کہ جب لالو اور نتیش ایک ہوگئے اور لالو خود لڑ بھی نہیں رہے تو ایک نہیں مودی بھی آجائیں تو کسی کی دال نہیں گلے گی۔ اب کانگریس کے لیے ضد کی گنجائش نہیں ہے۔ راہل اور سب نے دیکھ لیا کہ اکھلیش پر قدرت مہربان ہے۔ وہ سائیکل جس کے بارے میں سب یہ کہہ رہے تھے کہ اگر کسی کو ملے گی تو ملائم سنگھ کو ملے گی اور اکھلیش موٹر سائیکل یا برگد کے پیڑ پر لڑیں گے یا 1966میں ا ندرا گاندھی کے الگ ہوجانے کے بعد جیسے دو بیلوں کی جوڑی سیز ہوئی تھی ایسے ہی سائیکل بھی تیری نہ میری کی طرح سیز ہوجائے گی لیکن یہ قدرت کا کرم ہے کہ سائیکل اکھلیش کو مل گئی اور وہ ۲۴ ممبر جو بی جے پی کے دروازہ پر اندر جانے کی دستک دے رہے تھے وہ لوٹ آئے اور اکھلیش کو وہ ماحول مل گیا جو ملتا نظر ہی نہیں آرہا تھا۔ ایسی صورت میں کانگریس کو جتنی بھی ملیں ان پر قناعت کرنا چاہیے اور وہی کرنا چاہیے جو بہار میں ہوا تھا کہ ہر سیٹ پر راہل کو او رہر سیٹ پر اکھلیش کو جا کر یہ کوشش کرنا چاہیے کہ جو ۳۰۰ کا نشانہ کہا ہے اسے پورا کیا جائے اور کانگریس کو بھی ۵۱ سے زیادہ سیٹیں مل جائیں۔ ہمارے پاس جو خبریں آرہی ہیں ان میں ڈاکٹر ایوب سے زیادہ اسد الدین اویسی کا ذکر ہے۔ اگر اکھلیش مناسب سمجھیں تو دسترخوان پر ایک پلیٹ ان کے نام کی بھی رکھ دیں۔ یا انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ ساڑھے چار سال حکومت کرنے کے بعد جیسے ملائم سنگھ ۲۰۰۷ء میں میدان میں اترے تھے آج کے حالات اس سے مختلف ہیں۔ آج کماری مایاوتی کی منصوبہ بندی اس پر موقف تھی کہ بات بیٹے آمنے سامنے ہوں گے۔ اور بی جے پی نے بھی جتنے مہرے اس پر لگ سکتے تھے لگائے تھے کہ سماج وادی ٹوٹ جائے۔ اس پر کچھ نہیں معلوم کہ کتنا خرچ کردیا؟لیکن دونوں منہ دیکھتے رہ گئے اور کانگریس نے دوستی کرلی۔ اب میدان صاف ہے۔ اس کے لیے یہ ضرورت ہے کہ راہل پرینکا اور غلام نبی آزاد، اکھلیش، ڈمپل اور اعظم خاں پوری سنجیدگی سے پارٹی کا نہیں محاذ کا الیکشن لڑائیں اور امت شاہ کو ان کی اوقات دکھا دیں۔