بوتلوں کے جن مودی کے قابو سے باہر

از:حفیظ نعمانی
موجودہ پارلیمنٹ میں جتنے بھی ایسے یا ایسی ہیں جنھیں مودی جی نے صرف اس لیے ٹکٹ دئے یا دلائے تھے کہ وہ اپنے مذہبی کردار کی وجہ سے جیت سکتے ہیں وہ اور تو کچھ کر نہیں سکتے ملک میں فتنہ کھڑا کرتے رہتے ہیں اور بی جے پی کی اتنی ہمت نہیں کہ انہیں پارٹی سے نکال دے۔ وہ صرف یہ کہتی ہے کہ یہ ان کا ذاتی بیان ہے۔ بی جے پی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ صرف بی جے پی یا کانگریس جانتی ہوں گی کہ ذاتی اور غیر ذاتی تعلق میں کیا فرق ہے؟ بیان تو نریندر بھائی مودی دیں یا ساکشی مہاراج، مرلی منوہر جوشی دیں یا شاہ نواز حسین وہ جب تک بی جے پی میں ہیں ان کا بیان بی جے پی کا ہی مانا جائے گا۔
ساکشی جسے مہاراج کہا جاتا ہے وہ کیوں سنیاسی بنے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن ہم نے جن سنیاسیوں سے کبھی اس مسئلہ پر بات کی ہے تو ان کا جواب یہ تھا کہ وہ دنیا کے جھمیلے سے اپنے کو اس لیے الگ رکھنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں رہ کر آدمی پاک صاف نہیں رہ سکتا۔ ہم سے تو یہاں تک کہا کہ آپ نے قرآن میں پڑھا ہوگا کہ تمہارے مال یعنی کاروبار اور اولاد فتنہ ہیں اور ظاہر ہے کہ کاروبار اور اولاد کے جھمیلے میں پھنس کر انسان دنیا کی گندگی اور چھل فریب سے پاک نہیں رہ سکتا۔
مودی جی کو وزیر اعظم بننا تھا اور اس کے لیے ضروری تھا کہ لوک سبھا میں اکثریت بی جے پی کی ہو اور بی جے پی میں ۵۰۰ سے زیادہ سیاسی آدمی ایسے نہیں تھے جو جیت سکیں اس لیے انھوں نے سادھو سنت اور سادھویوں کو اس گندگی میں اتار لیا جس سے بھاگنے کی خاطر انھوں نے سنیاس لیا تھا اور جب وہ چھل فریب کی دنیا میں آگئے تو وہ دو کردار ادا کررہے ہیں۔ ایک وہ جس کے لیے گیروا لباس پہنا ہے اور دوسرا وہ جس کے لیے ووٹ مانگے تھے۔
ہندوؤں کا یہ طبقہ مسلمانوں کے عالموں جیسا نہیں ہوتا وہ صرف اتنا جانتے ہیں جتنا ان کے گرو نے بتادیا اور اتنا بولتے ہیں جو انھوں نے سن رکھا ہے۔ ساکشی مہاراج نے یہ سن لیا ہے کہ مسلمانوں کو چار شادی کرنے کی اجازت ہے۔ انھوں نے آدھی بات سنی یا پڑھی ہے۔ مسلمان تو ۴۰ بچے نہیں ۴۰ شادی بھی کرسکتا ہے۔ اس پر یہ پابندی ہے کہ ایک وقت میں ا س کے گھر میں اس کی نکاحی چار سے زیادہ بیویاں نہ ہوں اور اگر ان میں سے تین مرجائیں تو پھر تین اور کرنے کی اجازت ہے یا وہ طلاق دے دے یا بیوی طلاق لے لے تو اس کی جگہ دوسری بیوی لاسکتا ہے۔ اس طرح مسلمان ۴۰ شادی کرسکتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ کرسکتا ہے اور اس پر بچے پیدا کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے وہ چار سو بچے بھی پیدا کرسکتا ہے۔ یہاں اس کا خیال ہے کہ بچے کوئی مسلمان یا ہندو پیدا نہیں کرتا بلکہ پیدا کرنے والا پاک پروردگار ہے یہ اس کے اختیار میں ہے کہ چاروں بیویوں سے ایک بچہ بھی پیدا نہ ہو اور چار سے ۵۰ پیدا ہوجائیں۔
ساکشی جیسے لوگ جب یہ بات کہتے ہیں تو ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ مسلمان کو ملک کی فکر نہیں۔ یہ ان کی کم علمی ہے۔ مسلمان سے زیادہ کسے اس ملک کی فکر ہوگی جس کے چپہ چپہ پر ا ن کے باپ دادا نے جو عمارتیں بنا کر کھڑی کردی ہیں انھیں دیکھنے کے لیے لاکھوں سیاح ہندوستان آتے ہیں اور اپنی جیبیں خالی کرکے جاتے ہیں۔ اگر صرف تاج محل کی ہی بات کریں تو شاید اتنی آمدنی ہوتی ہے جس سے پارلیمنٹ کے ممبروں کی اور وزیروں کی تنخواہ دینے کے بعد بھی بچ جاتا ہوگا۔
ساکشی ہوں یا کوئی اور سادھو وہ یہ کہہ کر احسان جتاتے ہیں کہ ہم نے شادی نہیں کی۔ وہ ذرا یہ دیکھیں کہ ان کے جیسے جن لوگوں نے شادی کی ہے کیا وہ دھرتی کا بوجھ ہیں ۔ اگر ان کے باپ نے شادی نہ کی ہوتی تو وہ کہاں سے آتے؟ اور وہ نہ آتے تو پارلیمنٹ میں ہاتھ اٹھانے والا ایسا کہاں سے آتا جو ۴ بیویاں اور ۴۰ بچے کی مالا چپتا ہے’؟ مسلمانوں میں بھی ایسے ہیں جنھوں نے شادی نہیں کی لیکن اس کا تعلق مذہب سے نہیں ہے نہ ملک سے۔ مسلمان اللہ کے حکم کا پابند ہے۔ اسے بتادیا گیا ہے کہ اگر ایک کیڑا بھی پیدا ہوتا ہے تو اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ یہ ا للہ ہی جانتا ہے کہ وہ کس کو زیادہ یا کس کو کم کیوں دیتا ہے؟ رہی شادی کی بات تو سب سے زیادہ اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح میری سنت ہے اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ جو میری سنت (طریقہ) کو نہیں اپنائے گا وہ میرا نہیں ہے۔ حضرت محمد ؐ نے اللہ کے حکم سے خود بھی نکاح کئے اور اپنی ہر اولاد کا نکاح کیا جس کی عمر نکاح کے قابل ہوئی۔ اور نکاح کا شکر ادا کرنے کے لیے مردکو ولیمہ کا مشورہ دیا۔ فرمایاکہ ولیمہ ضرور کرو چاہے ایک بکری ہی ذبح کرکے کھلاؤ۔
ہوسکتا ہے کہ ساکشی مہاراج کے چاروں بھائیوں نے شادی نہ کرکے ملک پر احسان کیا ہو۔ اگر دنیا میں شادی بند کردی جائے تو سو سال کے بعد کہیں سے خبر آئے گی کہ اس ملک میں دو انسان دیکھے گئے اور ایک دن کوئی نہیں رہے گا تو فائدہ کسے پہنچایا جائے گا؟ یہ ہماری کم علمی ہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ ہندو دھرم میں شادی نہ کرنے کا حکم ہے؟ اور اگر ہے تو پھر شادی کیوں ہوتی ہے۔ اور اگر شادی نہ کرنے والے ہی مذہبی ہوتے ہیں تو پھر شری رام چندر جی اور سیتا جی اور رام جنم بھومی یہ سب کیا ہے؟
ایک سنیاسی بابا رام دیو یا دو بھی ہیں جو سنیاسی بھی ہیں یوگا ماسٹر بھی ہیں اور اب دولت کمانے میں لگے ہیں تو ہر تین دن کے بعد ایک کارخانہ اور ایک فیکٹری لگ رہی ہے۔ اور گیہوں سے لے کر عورتوں کو پری جمال بنانے کے نہ جانے کتنے نسخے ان کو مل گئے ہیں۔ وہ جو چیز بناتے ہیں اسے دیش کے لیے بناتے ہیں لیکن اپنے ہاتھ سے کیا کیا بنائیں گے سب دوسرے بناتے ہیں اس میں کتنا کوڑا کباڑ ملایا جاتا ہے اس پر کوئی اس لیے انگلی نہیں اٹھا سکتا کہ وزیر اعظم مودی ہیں اور مودی کو وزیر اعظم بابا نے بنایا ہے۔ اور کتنے بابا اور مہاراج ہیں جن کوپولیس کے چھاپوں میں ٹی وی کی بدولت کس کس رنگ میں دکھایا گیا ہے اس کا ذکر کرتے شرم آتی ہے۔ اسلام نے اس لیے شادی کا مشورہ دیا ہے کہ یہ انسان کی فطرت ہے۔
مودی جی نے انجام سوچے بغیر ایسے لوگوں کو پھر دنیا کی منڈی میں لاکر کھڑا کردیا جو اپنی مرضی سے دنیا چھوڑ چکے تھے اور وہ جس دنیا میں لا کر کھڑے کئے گئے ہیں اس کا انھوں نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ اب اگر ان کی زبان قابو میں نہیں رہی تو ان کی حیثیت اس جن کی ہے جو بوتل سے باہر آگیااب اسے ڈھائی سال تو مودی کو جھیلنا ہے۔ اس کے بعد اگر انہیں ٹکٹ نہیں دیا تو وہ کسی اور پارٹی سے لے لیں گے اور اگر کسی نے نہیں دیا تو سادھوں سنتوں کی ایک پارٹی بنالیں گے مگر اب جو خون منہ کو لگ گیا ہے اس کا نشہ اور ۲ ہزارکے نوٹو ں کا نشہ انہیں بوتل میں نہیں جانے دے گا۔