سچی باتیں۔۔۔ موت کی یاد۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:20PM Fri 8 Jan, 2021

1926-12-13

آپ کے تعلقات اگر وسیع ہیں، تو، اور اگر نہیں وسیع ہیں، تو بھی، اب تک آپ کے کتنے دوست اور عزیز، آپ کی نظروں کے سامنے اس دُنیا سے کوچ کرچکے ہیں۔ کیسے کیسے توانا، تندرست نوجوان، کیسے کیسے کسرتی وورزشی پہلوان، کیسے کیسے نوعمر ونازک اندام نونہال، کیسے کیسے ہنستے ہنستے بچّے، جن کی موت کبھی آپ کے وہم وگمان میں بھی نہ آتی ہوگی، دیکھتے ہی دیکھتے چل بسے ہیں۔ نامور علماء، جن کے علم وفضل کی شہرت سے ملک کی فضا گونج رہی تھی، ممتاز مصنفین، جن کے قلم کی ایک ایک سطر کے لئے شوق وعقیدت کی آنکھیں کھُلی رہتی تھیں، مشہور سرداران قوم، جن کے ہر نقشِ قدم کو آنکھوں سے لگانے کے لئے لاکھوں کروروں منتظر رہتے تھے، مقدس بزرگانِ دین، جن کے زہد وتقویٰ پر انسانیت کو ناز تھا، پلیّن پہلوان جو رستم وسہرابؔ کا نام روشن کئے ہوئے تھے، محبت کرنے والے شوہر جان نثار کرنے والی بیوی، مامتا کی ماری ماں، سعادت مند فرزند، خدمتگزار بیٹی، جگری دوست، ان سب کے بے شان وگمان یک بیک اُٹھ جانے کی دردناک اور جگر خراش مثالیں کثرت سے آپ کی نظرسے گذر چکی ہیں! پھر یہ کیاہے، کہ یہ سب کچھ جاننے کے بعد، یہ سب کچھ سمجھنے کے بعد، یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد، بھی آپ بدستور اسی طرح غفلت ، بے فکری، اور بے حسی میں پڑے ہوئے ہیں! آپ زبان سے اقرار کرتے ہیں، کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیںہر جگہ، ہر وقت، ہر لمحہ، ہر گھڑی، ہر انسان کو موت کا نہ ٹل سکنے والا پیام پہونچ سکتاہے، لیکن اپنے دل میں اپنی موت کو آپ کبھی اپنے قریب نہیں پاتے!موت جب آن پہونچتی ہے، تو نہ جوان کو چھوڑتی ہے، نہ بوڑھے کو ، نہ بچّے کو، نہ نیک کو نہ بدکو، نہ تندرست کو نہ بیمار کو، دوسروں کی مثالیں دیکھ دیکھ کر مجبورًا آپ کو یہ کلّیہ قائم کرنا پڑتاہے، لیکن اس کلّیہ سے اپنی ذات گرامی، اپنے وجود عزیز، اپنی جانِ شیریں،کو آپ ہمیشہ مستثنیٰ کرلیتے ہیں! فلاں امتحان فلاں سال پاس کریں گے، فلاں سال تک اتنا روپیہ جمع کرلیں گے، فلاں سال لڑکے کی شادی کریں گے، فلاں سال فلاں سفر کریں گے، فلاں سال فلاں عہدہ سے پنشن لیںگے، فلاں سال اس قدر جائداد خرید کریں گے، فلاں سال کاروبار سے اتنا نفع حاصل کریں گے، مَوت، اور پھر ’’بے وقت‘‘ مَوت کی گرم بازاری آپ ہروقت دیکھتے ہیں۔ اور پھر آپ کا ذہن ہروقت اسی قسم کے منصوبے باندھتارہتاہے!۔ قریب آرہاہے وہ وقت، جب آپ دوسروں کے مکان پر نہیں، دوسرے آپ کے مکان پر، تعزیت کے لئے جمع ہوں گے، جب آپ کا بے حس وحرکت برف سا ٹھنڈا جِسم کھُرّے تختہ پر غسل کے لئے پڑا ہوگا، جب آپ اس درجہ بے بس ہوجائیں گے، کہ خود بے کسی اور بے بسی کو بھی آپ پر رحم آجائے گا، جب آپ کے بچّے بِلبلا بِلبلا کرآپ کو پکاریں گے، اور آپ اشارہ تک نہ کرسکیں گے، جب آپ کی پیاری بیوی آ پ کے غم میں روتے روتے دیوانی ہوجائے گی، اور آپ اس کا ایک آنسو بھی نہ خشک کرسکیںگے، جب آپ کے بوڑھے والدین پچھاڑیں کھاکھاکر گریں گے، اور آپ اُنھیں مطلق تسلی نہ دے سکیں گے، جب آپ کا جسم چارپائی پر ڈال کر اُٹھایا جائے گا، جب دوسرے آپ پر نماز جنازہ پڑھیں گے، جب آپ ایک تنگ وتاریک گڑھے میں ڈال دیئے جائیں گے، جب آپ ہزاروں من مٹی کے نیچے دبے ہوں گے……قریب آرہاہے وہ وقت، بہت قریب آگئی ہے وہ گھڑی، آن پہونچی ہے وہ نہ ٹلنے والی ساعت۔ آپ اپنی ’’دلچسپ‘‘ و ’’شگفتہ‘‘ مجلسوں میں ، ’’پُربہار و ’’طرب انگیز‘‘ صحبتوں میں ، ’’رنگین ‘‘ و ’’پُرلطف ‘‘ جلسوں میں ، کبھی بھی اس وقت کو، جب اِن چپچہوں اور قہقہوں پر محض افسوس ہی افسوس ہوگا ، یاد کرلیتے ہیں؟

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/