بھٹکل فسادات اور جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں دلچسپ معرکہ! (دوسری قسط )۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

02:07PM Thu 19 Jul, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  (...گزشتہ سے پیوستہ)یہ بات بھی ذہن میں ضرور رہے کہ کمیشن کے رو برو سوالات کے جواب میں اور خصوصاً مخالف وکیلوں کے الزامات Suggestions کے جواب میں صرف انکار یا اقرار کرنا ہوتا ہے۔ زیادہ تفصیل سے بات رکھنے کا موقع بھی نہیں ملتا اور تفصیل میں جانے کے چکّر میں آدمی خود ہی اپنے جال میں پھنسنے کاپورا خطرہ رہتاہے۔جبکہ مخالف پارٹی کے وکیلوں کی طرف سے الزامات اور سوالات، گواہوں کو کمزور کرنے، اشتعال دلانے اور ان کی زبان سے اپنے مطلب کے جوابات حاصل کرنے کی غرض سے ہی کئے جاتے ہیں۔ میں یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ذیل میں جو سوال وجواب دئے گئے ہیں ان میں سے بعض سوالات اصل Depositionمیں کمیشن کی طرف سے ریکارڈ نہیں کئے گئے ہیں۔ انگریزی سے اردو ترجمہ کئے گئے یہ سوالات و جوابات 1995 میں اس وقت کے بھٹکل کے مشہور و معروف اخبار الاتحاد (ایڈیٹرمولوی ارشاد خلیفہ) میں قسط وار شائع ہو چکے ہیں۔کچھ پرانے لوگوں کی یادیں تازہ کرنے اور کچھ نوجوانوں کو اس سے آگاہ کرنے کے مقصد سے دوبارہ اس کالم میں پوسٹ کیے جارہے ہیں۔ سرکاری وکیل کی جرح کے بعد سنگھ پریوار کے وکیلوں کی جرح کا آغاز ہوا۔ خیال رہے کہ زیادہ تر سوالا ت کمیشن میں میری طرف سے پہلے سے داخل کردہ حلفیہ بیان کے پس منظرمیں کئے جا رہے ہیں۔ اس لئے بعض دفعہ قارئین کو سوالات کچھ عجیب سے بھی محسوس ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مخالف وکیلوں کی یہ ٹیکنیک بھی رہی ہے کہ کچھ بے ربط اور بے معنی سے سوالات کے ذریعہ ذہن کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی جائے اوراچانک کوئی ایسا سوال کر دیا جائے کہ گواہ سٹپٹا کر رہ جائے یا پھر ایسا جواب دے بیٹھے جو ان کے فائدے کا ہو۔میں ذہنی طور پر بھی اپنے حلف نامے سے متعلقہ جوابات کے لئے ہی تیار تھا۔لیکن جب جرح کاسلسلہ آگے بڑھا تو دیکھئے کہ کیا رخ سامنے آتا ہے: سنگھ پریوار کا وکیل : تم نے اپنے حلف نامہ میں کہا ہے کہ جب بازار میں رات کو حملہ ہوااور لوٹ مار و آتشزنی کا سلسلہ شروع ہوا تو ہجوم ’’ جے رام جی کی اور جے بھارت ماتا کی ‘‘ پکار رہا تھا۔ میرا جواب: جی ہاں! وکیل : یہ سن کر تمہارے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو گی؟ جواب : بھلا میرے جذبات کو کیوں ٹھیس پہنچے گی؟ وکیل : تو کیا تم بھارت ماتا کی پوجا کرتے ہو؟ جواب : ہم مسلمان اللہ کے سوا کسی بھی چیز کی پوجا نہیں کرتے۔ وکیل : تم بھارت ماتا کی پوجا نہیں کرتے، لیکن پاکستان ماتا کی پوجا ضرور کرتے ہو۔ جواب : (میں نے برہمی سے پوچھا) تم مجھ سے پاکستان کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو؟ میں نے کہا ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی چیز کی پوجا نہیں کرتے۔پاکستان سے مجھے کیا لینا دینا وکیل : تم بھڑکتے کیوں ہو؟ جواب : میں ہندوستانی ہوں ، مجھ سے ہندوستان کے بارے میں پوچھو۔ اس موڑ پر سرکاری وکیل مداخلت کرتے ہوئے کہتا ہے: یہ بھڑک رہا ہے، اس کا مطلب دال میں کچھ کالا ہے! جج : (مداخلت کرتے ہوئے، سخت لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوکر) دیکھو جو پوچھا جا رہا ہے اس کا جواب ’’ ہاں‘‘ یا ’’ نہیں ‘‘ میں دو۔ غصّہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں: (جج سے مخاطب ہوکر) اس قسم کے کے بے جا irrelevant سوالات کیوں کئے جا رہے ہیں؟ سنگھ پریوار کا وکیل: ان سوالات کا تعلق ہے۔ اور۔۔۔۔ (اس دوران ہمارے وکیل مداخلت کرتے ہیں، اورمیرے قریب آکر سر گوشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھو یہ لوگ آپ کو اشتعال دلانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اس لئے آپ اپنے آپ پر قابو رکھیں، غصہ میں ہرگز نہ آئیں۔ اس کے بعد کچھ وقفہ تک رک کر میں خود کو سنبھال لیتا ہوں اور پھر سوال و جواب کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ ) وکیل : کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مسلمان بھارت ماتا کو ایک Witch ’’ ڈائن ‘‘ تصور کرتے ہیں؟ جواب : میں نہیں جانتا۔ وکیل : تمہاری کلینک clinic کے اوقات کیا ہیں؟ جواب : صبح ۹ بجے سے۱۲ بجے تک اور شام ۴ بجے سے۸ بجے تک وکیل: لیکن صبح کے وقت اکثر تم دوا خانہ سے غائب رہتے ہو، اور تمہارا دوا خانہ شام ہی کو کھلتا ہے۔(یہاں سنگھ پریوار کے وکیلوں کی تیاری اور فیڈ بیاک کی داد دینی چاہیے) جواب : نہیں یہ غلط ہے۔ وکیل : نہیں یہ سچ ہے۔ تم بمبئی کے انڈر ورلڈ ڈانز under world Dons سے رابطہ رکھتے ہو۔ حوالہ کاروبار میں ملوث ہو۔اور تمہارا یہ دوا خانہ تمہارے حوالہ بزنس پر ڈالی گئی ایک نقاب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جواب: نہیں میں اس سے انکار کرتا ہوں۔ وکیل : تمہارے بھٹکلی دوست کون کونسے ہیں؟ اور کس عمر کے ہیں؟ جواب : بھٹکل میں میرے بہت سارے دوست ہیں، 20 سے50 سال کی عمر تک۔ وکیل : زیادہ تر کس عمر age group کے لوگ ہیں؟ جواب: زیادہ تر میرے ہم عمر ہیں 30سے40 سال تک۔ وکیل : نہیں تم غلط بیانی کر رہے ہو۔ بھٹکل میں تمہارے بہت سے نوجوان ساتھی ہیں۔ 20 سال سے کم عمردوست teenage friends)) ہیں، جن کو تم تشدد پر اُکساتے ہو۔ جواب : نہیں یہ جھوٹ ہے۔ وکیل : تنظیم کے ذمہ دار کی حیثیت سے ہندوؤں پر حملہ کرنے یا ان کو قتل کرنے کے لئے تم تنظیم کی رقم استعمال کرتے رہے ہو۔ جواب : یہ سراسر جھوٹ ہے۔ وکیل : تم نے اپنے حلف نامہ میں 29 - 4 - 93 کی شب میںآتشزنی اور لوٹ مار میں شری اے این پائیA. N. Pai)) کو اس لئے ملوث بتایا ہے کیوں کہ وہ ہندوؤں کا ایک اہم لیڈر ہے۔ لہٰذا تم جھوٹ بول رہے ہو۔ جواب : نہیں میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں۔ وہ واقعی ملوث تھا۔ وکیل : تم نے ہندو جاگرن ویدیکے H.J.V. کا آفس دیکھا ہے؟ اور کیا تم اسکے عہدیداروں کے نام جانتے ہو؟ جواب : نہیں۔ وکیل : پھر کیسے کہتے ہو کہ H.J.V. فساد میں ملوث ہے؟ جواب : جگہ جگہ ان کے بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ مثلاً نستار،ُ منڈلّی، بندر وغیرہ پر ۔ جو H.J.Vکی شاخوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ وکیل : کیا بھٹکل میں تمام ہندو H.J.Vکے ممبر ہیں؟ کوئی ایچ ،جے، وی کا ممبرہے یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟ جواب:تمام ہندو ایچ ، جے، وی، کے ممبر نہیں ہیں۔ رہا سوال ا ن کو پہچاننے کا، تو جب کوئی شخص H.J.V. کے پروگراموں میں جیسے جلسے، جلوس ،بند وغیرہ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتا ہے تواس سے پہچان لیتا ہوں۔ وکیل : بھٹکل کے فسادات میں ہندو کرایہ داروں کو بھگا نے کی نیت سے خود مسلمانوں نے بازار میں دکانوں کو آگ لگائی تھی۔ جواب : نہیں ، میں اسے نہیں مانتا۔ وکیل : ۹/ ستمبر کو نقاب پوش تلوار برداروں کا حملہ کیا تم نے دیکھا تھا؟ جواب : ہاں میں چشم دید گواہeye witness ہوں۔ وکیل : تو پھر تم نے ان نقاب پوشوں کو گوُڈی گار Gudigarکے یہاں گنیش مورتی اور ساگر روڈ پر ناگرا کلّو ( ناگ کا پتّھر) کی توڑ پھوڑ کرتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا۔ جواب : نہیں ، میں یہ نہیں جانتا۔البتہ گنیش مورتی کے سلسلے میں، میں نے اخبار میں پڑھا تھا۔ وکیل : کیا اسی دن سکرپا نارائن نائر Sukrappa Narayan Nair نامی ایک شخص بعض نقاب پوشوں کے حملہ میں شدید زخمی اور ایک انجینئیرنگ طالب علم تریو کرما Triyukarmaہلاک نہیں ہوا تھا؟ جواب :سکرپا کے بارے میں مجھے پتہ نہیں۔ انجینئیرنگ طالب علم کی خبر میں نے اخبار میں پڑھی تھی۔ وکیل : تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ نقاب پو ش حملہ آور ہندو تھے؟ جواب : اس لئے کہ انہوں نے صرف لنگی ،داڑھی اور ٹوپی والوں پر حملہ کیا تھا جو کہ مسلمان تھے۔ میرے علم کے مطابق کسی بھی ہندو پر انہوں نے حملہ نہیں کیا تھا ۔ وکیل : وہ حملہ آور ہندو نہیں تھے، بلکہ شری ایس ایم یحییٰ اور جعفر شریف (کانگریسی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر برائے ریلوے )کے کر ایے کے غنڈے تھے ،جنہیں بھٹکل میں دہشت گردی کے لئے بھیجا گیا تھا۔ جواب : کیا مسلمانوں ہی کے جان و مال کی قیمت پرہی دہشت پھیلانے؟۔۔ نہیں، میں اسے نہیں مانتا۔ وکیل : تم ہندو جاگرن ویدیکے کو اس فساد کا ذمہ دار کیوں کہتے ہو؟ جواب : کیوں کہ انہوں نے فساد بھڑکانے اور ہندوؤں کو جوش دلانے کا کام کیا۔ جس کا ثبوت میں نے ان کے شائع کردہ پمفلیٹ کی شکل میں کمیشن کے حوالہ کیا ہے۔ وکیل : میں اس پمفلیٹ کو پھر سے پڑھ رہا ہوں۔ اس میں کونسی باتیں فساد بھڑکانے والی ہیں؟ ( وکیل وہ پمفلیٹ پڑھتا ہے، ) جواب : مسلمانوں کو غدار اور دہشت گرد قرار دینا۔ مسلمانوں کی طرف سے بھٹکل کو دوسرا کشمیر بنانے کی سازش قرار دینا۔بھٹکل کو اسلامی دہشت گردی کا گڑھ قرار دینا۔ ہندوؤں کی مظلومی اور مسلمانوں کے مبینہ ظلم کے بے بنیاد قصّے بیان کرنا یہ تمام باتیں اشتعال انگیز ہیں۔ (اس دوران پمفلیٹ میں موجود باتوں کے پس منظر میں میری دلائل کا وزن محسوس کرکے ) سنگھ پریوار کا ایک اور وکیل مداخلت کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’یہ پمفلیٹ بھی مسلمانوں ہی نے شائع کیا تھا ۔ ‘‘ پولیس یعنی سرکاری وکیل بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ پھر اس کے بعد جرح کرنے والا وکیل ٹائمز آف انڈیا اخبار میں شائع شدہ ایک خبر پیش کرتا ہے۔ جس میں ایک کشمیری دہشت گرد کی اترپردیش میں گرفتاری کا ذکر ہے ۔اس میں اس نے مبینہ طور پر قبول کیا تھا کہ بھٹکل فسادات کے دوران اس نے بھٹکل کی ایک مسجد میں گنڈی فاروق نامی ایک شخص سے ملا قات کی تھی۔۔۔اخبار کا وہ تراشہ مجھے دکھاتے ہوئے پوچھتا ہے: وکیل : کیا اسکے بعد بھی تم نہیں مانتے کہ بھٹکل کے فسادات میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی، ایس ،آئی ISI کا ہاتھ تھا؟ جواب : نہیں میں اب بھی نہیں مانتا کہ اس فساد میں I.S.I کا ہاتھ تھا۔ وکیل : ( طنز کے ساتھ) اخبار میں چھپا ہے! (کیونکہ اس سے پہلے میں نے اپنی دلیل کے طور پر اخباری حوالے دئے تھے!) جواب : ضروری نہیں کہ اخبار میں چھپی ہوئی خبر صحیح بھی ہو۔ وکیل : اس کا مطلب یہ ہے کہ اخبار میں چھپی ہر خبر صحیح نہیں ہوتی؟! ( اشارہ میرے حلفیہ بیان میں موجود بی جے پی کے البم والی خبر کی طرف ہے!) جواب : ضروری نہیں کہ ہر خبر غلط بھی ہو! وکیل:مسلم دہشت گردوں نے بے شمار ہندوؤں کو کشمیر سے مار بھگایا ہے۔ اس بارے میں کیا کہتے ہو؟ جواب : نہیں ،میں نہیں مانتا۔ وکیل : تم کیسے کہتے ہو کہ آر، ایس،ایس R.S.S مسلم مخالف ہے؟ جواب : اس لئے کہ R.S.S. ہندوؤں کی ذہن سازی Brain Washing مسلمانوں کے خلاف یہ کہہ کر کرتی ہے کہ مسلمان دیش دروہی Anti national ہیں، پاکستانی ایجنٹ ہیں۔ ہندوستان سے ان کو محبت نہیں ہے۔اس طرح ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکاتی ہے۔ وکیل : تمہیں کیسے معلوم ہے ؟ کیا ذاتی طور پر کبھی تم نے ان کے پروگرام میں شرکت کی ہے؟ جواب : مجھے ان کے لٹریچر کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے۔ میں نے ذاتی طور پر ان کے پروگراموں میں شرکت نہیں کی۔ ( یہاں میں نے گرو گولوالکر اور ساورکر کی کتابوں مثلاً We the nation defined, Bunch of Thoughts وغیرہ کا حوالہ دیا ) وکیل : پولیس کو تم نے جانبدار biased کہا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کی کوئی مثال؟ جواب : ضروری نہیں کہ پولیس عملاً فساد میں حصّہ لے کر ہی جانبداری دکھائے۔ وہ خاموش تماشائی بن کر بھی جانبداری کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ مثلاً 20 جون 93 ؁ء کو ایچ،جے، وی کی طرف سے’ کاروار چلو‘کے عنوان سے ڈسٹرکٹ بند منایا گیا تھا۔ پولیس کو حالات کی سنگینی کا پورا پورا علم تھا۔ اس کے باوجود مناسب حفاظتی بندو بست نہیں کیا گیا۔ اورنتیجہ کے طور پورے ڈسٹرکٹ میں مسلمانوں کے خلاف زبردست فساد پھوٹ پڑا۔ وکیل : پولیس ایس پی، آلوک موہن کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا؟ جواب :اس لئے کہ اس کے زمانہ میں فساد اور زیادہ بھڑک رہا تھا ۔ وہ فساد پر قابو پانے میں ناکام رہا اس لئے۔۔۔۔ وکیل : ( میری بات کاٹتے ہوئے) نہیں۔ ایس پی آلوک موہن کو اس لئے ٹرانسفر کیا گیا کہ اس نے ایک دن قبل ہی ایس ایم یحییٰ کے غنڈوں کی خوب خبر لی تھی جو کہ فساد مچانے میں ملوث تھے۔ جواب : مجھے اس کی خبر نہیں ہے۔ وکیل : کیا تم اردو جانتے ہو؟ اور یہ کس طرح لکھی جاتی ہے؟ جواب : ہاں ، میں اردو جانتا ہوں جو کہ فارسی کی طرح دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ وکیل : ہندوؤں کی کوئی ایسی زبان جانتے ہو جو اس طرح لکھی جاتی ہے؟ جواب : نہیں۔ہندوؤں کی زبانوں کا رسم ا لخط بائیں سے دائیں ہے۔ وکیل : مسلمان داڑھی بھی رکھتے ہیں۔ہے نا؟ جواب : ہندو ، کرسچین اور یہودی سبھی داڑھی رکھتے ہیں! وکیل : نہیں۔ مسلمانوں کی داڑھی اور مونچھوں کی تراش خراش با لکل جدا ہو تی ہے۔ او ر جو زیادہ قدامت پسندorthodox ہوتا ہے اس کی داڑھی رہتی ہے اور مونچھیں صاف ہوتی ہیں۔ جواب : لیکن میری تو داڑھی بھی ہے اور مونچھیں بھی ہیں۔ اور میں مسلمان بھی ہوں! ( یہاں جج مداخلت کرتے ہوئے کہتا ہے: ہاں یہ خودہی استثنیٰ exceptionکی بہترین مثال ہے۔) (...... سلسلہ جاری ہے..... اگلی قسط ملاحظہ کریں)   haneefshabab@gmail.com