سچی باتیں۔۔۔ اپنے قائدین کی ناقدری۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

12:15PM Sun 23 Oct, 2022

جس سرزمین پر آپ ، اورآپ کے محمد علیؔ وابوالکلامؔ، آپ کے حسرتؔ و انصاریؔ، آپ کے شوکت علیؔ وکفایت اللہؔ رہتے ہیں، اُسی پر ایک اور قوم بھی آباد ہے۔ اور اُس کے ایک فرد کا نام تلکؔ تھا۔ نام آپ یقینا سُن چکے ہوں گے، اور کام کا شہرہ بھی ممکن ہے آپ کے کان تک پہونچ چکاہو۔ بارہ پندرہ سال کی بات ہے، کہ تلکؔ نے ایک مشہور انگریز اہل قلم پر ، لند ن میں ، ازالۂ حیثیتِ عرفی کا دعویٰ دائر کیا۔ دعویٰ خارج ہوا، اور تلکؔ پر، مصارفِ مقدمہ کی زیرباری، ہزاروں سے گزر کر لاکھوں تک کی پڑگئی۔ قوم کو خبر ہوئی، اور بات ہی بات میں، تلک کی قوم نے ، تلکؔ کے لئے ہزاردوہزار نہیں، دس بیس ہزار بھی نہیں، تقریبًا ۳لاکھ کی رقم جمع کر کے پیش کردی! تلکؔ کی قوم کے لئے یہ تجربہ نیا نہ تھا، چند سال قبل، تلکؔ کی ساٹھ سالہ سالگرہ کے موقع پر بھی قوم، اپنے اسی لیڈر کی خدمت میں ایک لاکھ کی رقم، ہنسی خوشی جمع کرکے پیش کرچکی تھی!۔

’’قوم‘‘ کی داد دینے میںابھی جلدی نہ کیجئے۔ خود تلکؔ بھی آخر اسی قوم کا فرد تھا۔ اُس نے یہ رقمیں لے کر کیاکیں؟ کوئی جائداد خرید کرلی؟ کوئی کاروبار کھول دیا؟ کسی بیوپار میں یہ روپیہ لگادیا؟ کوٹھی بناڈالی؟ موٹریں خرید لیں؟ ناچ رنگ میں روپیہ پھونکنا شروع کردیا؟ ’’اُڑانے ‘‘ اور ’’لُٹانے‘‘ کا سوال بعد کاہے، اُس اللہ کے بندہ نے روپیہ کو ہاتھ تک نہیں لگایا، بلکہ ……کوئی مسلمان لیڈر اسے کیونکر باور کرے گا؟……قوم کی دولت اُلٹی قوم ہی کی طرف لَوٹادی، یعنی قوم نے جو کچھ جوڑ جوڑ کراُس کی خدمت میں نذرکیاتھا، اُسے اُس نے بغیر ہاتھ لگائے، قوم ہی کے کام کے لئے وقف کردیا، اور متولیوں کی ایک باضابطہ جماعت مقررکرکے ، اُس خزانہ کو، قومی کاموں میں صرف کرنے کے لئے ، اُن امینوں کے حوالے کردیا!۔

یہ ’’فسانۂ عجائب ‘‘ نہیں ہے، آپ کی آنکھوں کے سامنے کے واقعات ہیں۔ البتہ آپ کا یہ سُن کر دنگ رہا جانا بالکل قدرتی ہے۔ تِلک کوئی فرشتہ نہ تھا، کوئی تارک الدنیا درویش بھی نہ تھا، اِسی مادی دنیا کا، مادی ضرورتیں رکھنے والا، جسم اور جسم کی ساری خواہشیں رکھنے والا، انسان تھا۔ آج آپ کے لیڈروں میں کسی میں، تلکؔ کا ظرف وایثار، تلکؔکی دیانت وقناعت ہے؟……لیکن سوال سن کر مطمئن ہوجانے میں جلدی نہ کیجئے، یہ ارشادہو، کہ آپ کی قوم بھی، تلکؔ کی قوم کی سی ہے؟ آپ نے بھی اپنے کسی لیڈر کی خدمتگزاری میں اپنی اطاعت، اپنے اخلاص، کا یہ ثبوت دیاہے؟ کیا تلکؔ میں کوئی کمزوری نہ تھی، یا تلکؔ کی قوم، تلک کی کمزوریوں سے واقف نہ تھی! آپ کے لیڈر اگر اپنے ہاں کی کتابوں کے ابواب امانت ودیانت ، حسن معاملت وحُسن معاشرت کو بھول چکے ہیں، تو خود آپ نے اپنے بڑوں کی بشری کمزوریوں کے نظر انداز کرنے کا سبق کب سیکھاہے؟……ادبار وتنزل کا ایک عجیب پُرلطف اور دردناک چکّر ہے، کہ لیڈر قوم کو کوس رہے ہیں، اور قوم ہے کہ لیڈروں کی جان کو رورہی ہے!۔