تبصرات ماجدی۔۔۔(۱۱۸۔۱۱۹)۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:05PM Tue 2 Mar, 2021

*(118) دیوان نظیر آبادی*

مرتبہ مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب

انجمن ترقی اردو،  دہلی۔

میاں نظیر اکبر آبادی اردو کے دو رسوم کے شعراء میں شہرت رکھتے تھے، اپنے دور کے عوام میں تو جیسی مقبولیت ان کو نصیب ہوئی شاید ہی کسی کو ہوئی ہو، ان کی کلیات جو اب تک موجود و معروف تھی، بیشتر نظموں ہی پر مشتمل تھی، غزلیات اس میں گنتی کی چند تھیں۔ حال میں ملک کے نامور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب دہلوی کی ہمت نے تلاش کر کے ان کے ایک چھوڑو دو دو دیوان پردۂ خفا سے ڈھونڈھ نکلے، تلاش سے بھی بڑھ کر قابل داد ان کی وہ محنت ہے جو انہوں نے اس کی تصحیح و تدوین پر صرف فرمائی ہے، مزید بر آں ادھر ادھر سے نظیر کا جو کلام انہیں دستیاب ہوا، اس کو بھی ایک ضمیمہ کی شکل میں دیوان کے ساتھ ملحق کر دیا۔ اس طرح نظیر اکبر آبادی کی غزلوں، رباعیوں اور مثنویوں کا نایاب ذخیرہ اردو ادب کے قدردانوں کے سامنے آگیا۔ قابل دید خود مرزا صاحب کا مبصرانہ مقدمہ ہے۔

جس کا بڑا وصف زبان کی چاشنی کے ساتھ ساتھ اس کا توازن اور رائے کی متانت ہے، نہ مدح میں افراط نہ تنقید میں غلو۔ افراط و تفریط دونوں سے احتیاط نظیر کے متعلق جتنی کتابیں شایع ہوئیں یا جن تذکروں میں ان کا حال بیان ہوا وہ مصنفانہ اور بے لاگ ہی نہیں ‘بے نظیر’ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہر دیوان کے شروع میں مفصل فہرست غزلیات بہ ترتیب حروف تہجی درج ہیں۔

صدق نمبر  29، جلد  نمبر 9 ،  مورخہ 22؍ نومبر 1943

---------------------------------

*(119) گلبانگ حرم*

از حمید صدیقی

دانش محل، لکھنؤ۔

زائر حرم شاہد حمید لکھنوی کے نام کا جزو بن چکا ہے، یہ ان کے ہاتھ کا گلدستہ نعت ہے، خوش رنگ، خوشنما، خوشبو دار، شروع میں تقریظ امجد حیدر آبادی کے قلم سے ہے، وہ کتاب پر ایک جامع تبصرہ کی حیثیت رکھتی ہے، ایک تقریظ جگر کے قلم سے بھی ہے، پیش لفظ مدیر صدق کے قلم سے ہے اور وہ حسب ذیل ہے:

‘‘حمید لکھنوی زائر حرم کے نام سے مشہور ہیں، یہ لقب ان کے لیے اسم با مسمی ہے، زیارت حرم ان کے رگ رگ میں بس گئی ہے ‘‘قال’’ سے گذر کر ‘‘حال’’ بن چکی ہے۔ کلام اکثر شائع ہوتا رہتا ہے، کبھی کبھی ان سطور کے راقم آثم کی نظر سے گزرا، ممکن نہ ہوا کہ جب کبھی نظر پڑی کلام کو بے پڑھا چھوڑ دیا ہو، کشش ہی کچھ ایسی ہے۔’’

بحریں عموماً رواں و شگفتہ، زبان صاف و سادہ، مضمون اغراق و غلو سے پاک، کلام جاندار ایسا گویا صفحہ کاغذ پر چھپا ہوا نہیں زندہ شاعر کی زباں سے ترنم کے ساتھ ادا ہو رہا ہے اور دل کا شوق ہے کہ امڈا پڑ رہا ہے۔ نعت گو اردو میں بہت سے ہوئے ہیں اور ہیں، کم ایسے ہوں گے جو ایسا ذوق سلیم رکھتے ہوں اور اتنے ادب شناس دربار نبوت کے ہوں، جہاں نہ دوسرے انبیاء کرام سے تقابل نہ ان حضرات کے لیے شائبہ توہین کہیں سے نکلے گا، نہ دنیا کے اس سبب سے بڑے مزّکی ہادی متقی کے حق میں کوئی مدحیہ کلمہ رکیک یا بازاری انداز کا ملے گا اور نہ نعوذ باللہ استخفاف یا سوء ادب کا کوئی نشان کعبۃ اللہ و شعائر دین کے حق میں پایا جائے گا۔ یہ وصف عام نہیں خاص، معمولی نہیں غیر معمولی ہے۔

مسودہ کی صورت میں جو مجموعہ اور ان کا جا بجا نظر سے گزرا اس میں دو چار مقامات شاعر کی نظر ثانی کے محتاج نظر آئے، ان پر نشان لگا کر شاعر کو توجہ دلائی گئی، ان کی سلامت ذوق سے توقع ہے کہ اشاعت کے وقت تک یہ کانٹے بھی پھول بن چکیں گے۔ حب نبی و عشق رسول کے دعویداروں کے لیے خدا کرے یہ کلام نمونہ معیار اور دلیل راہ کا کام دے۔ محبت نام بے قیدی کا نہیں پیغمبر ﷺ کے ساتھ عشق مترادف ہے اصلاً ان کے پیام کے ساتھ عشق کا۔

صدق نمبر  1، جلد  10 ،  مورخہ یکم مئی 1944

ناقل: اسامہ احمد بروماور ندوی

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/