اب دیوبند کو بریلی آنا چاہئے

Bhatkallys

Published in - Other

05:25AM Fri 13 May, 2016
از: حفیظ نعمانی پرسوں ہم نے بریلی کے ممتاز عالم مولانا توقیر رضا خاں صاحب کے اچانک دیوبند تشریف لے جانے اور دارالعلوم کے اساتذہ اور حضرت مولانا طیب ؒ صاحب کے جانشین سے ملاقات کرنے پر جو کچھ لکھ دیا وہ ہمارے دل کی آواز تھی ۔ہمارے ہی ایک عزیز ساتھی نے کل ہم سے کہا کہ آپ نے مولانا توقیر رضا خاں صاحب کو بریلوی مسلک کا سب سے بڑاترجمان کیوں لکھدیا ؟وہ سب سے بڑے ترجمان نہیں ہیں ۔ہم نے ان سے معذرت کرلی اور اعتراف کیا کہ یہ ہماری کم علمی ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ جس جگہ اور جب بھی بریلی کے مسلمانوں کو کوئی مسئلہ پیش آتا ہے توحکومت اور سیاسی پارٹیاں صرف مولانا توقیر رضا خاں صاحب سے بات کرتی ہیں ۔اور سب سے مصروف نام بھی انکا ہی ہے ۔ ہمارا تو سارا بچپن بریلی میں گزرا ہے لیکن اب 15سال سے بریلی نہیں جاسکے اور 10سال سے گھرمیں قید جیسی زندگی گذارنے کی وجہ سے نہ جانے کتنی باتیں ایسی ہیں جو معلوم ہونا چاہئے تھیں وہ نہیں معلوم ہیں ۔مولانا توقیر رضا خاں صاحب کو بڑ ا کہکر خدانخواستہ کسی کا مرتبہ کم کرنا نہیں تھا ۔اور ایک بہت بڑے صحافی نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مولانا کے اس اقدام پر پراسرار خاموشی بھی فکر کی بات ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ اس اقدام کی جہاں جہاں بھی بڑھ چڑھ کر تعریف کی گئی ہے وہ دیوبندی حلقے ہی ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ آج کے حالات کی نزاکت کو نہ سمجھنے والے اس میں الجھ گئے ہوں کہ پہل مولانا توقیر رضا خاں نے کیوں کی ؟ کسی دیوبند کے عالم نے کیوں نہیں کی ؟اور بیشک اس طرح بھی سوچنے کا لوگوں کو حق ہے ۔لیکن خدا گواہ ہے کہ ہم نے یہ سمجھا ہے کہ مولانا توقیررضاخاں صاحب نے پہل کرکے ثابت کردیا کہ ملت کے درد کے معاملہ میں وہ علماء دیوبند سے بڑے ہیں ۔ ہمارے سامنے 70سال کی تاریخ ہے ۔ملک کی تقسیم اور پاکستان کے فتنہ سے پہلے دیوبند اور بریلی کے عالم مناظرے بھی کرتے تھے اور دینی جلسوں میں اپنی تقریروں میں ایک دوسرے کے مسلک پر اعتراض بھی کرتے تھے ۔بریلی میں ہی حفیظ جالندھری کا شاہنامۂ اسلام جگہ جگہ ایسے پڑھا جاتا تھا جیسے کوئی عالم تقریر کرتا تھا ۔اور دلچسپ بات یہ تھی کہ بریلوی مسلک کے لوگوں میں بھی پڑھا جاتا تھا اور دیوبندی مسلک کے لوگوں میں بھی ۔اب اس میں بھی تفریق اس طرح کردی گئی کہ آخرمیں سلام۔سلام اے آمنہ کے لال اے محبوب سبحانی ۔جب شروع ہوتا تھا تو بریلوی حضرات احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے اور دیوبندی بیٹھے رہتے تھے ۔پھر یہ بحث کا موضوع بن جانا تھا ۔ ان مناظروں اور جلسوں میں پہلے تو جنگ عظیم سے خلل پڑا اور جب جنگ ختم ہوئی تو انگریزوں نے یہ فیصلہ کیا اب ہندوستان سے بو ریابستر لیکر واپس جانا چاہئے ۔اور انہوں نے مذاکرات شروع کئے ۔اس کی آہٹ ملتے ہی مسٹر جناح نے ملک کی تقسیم کا مطالبہ پیش کردیا ۔وجہ صرف یہ تھی کہ جمہوریت میں قابلیت اور اہلیت میں افراد گنے جاتے ہیں ۔اور اسوقت 30کروڑ سے زیادہ ہندو تھے اور 10کروڑسے کم مسلمان تھے۔ظاہر ہے کہ وزیر اعظم ہندو کو ہی ہونا تھا ۔جناح صاحب کی بات مسلمانوں کے دل میں اتر گئی اور یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہیں گے ۔ جب ملک میں آزادی اور تقسیم کی بحث چھڑ گئی تو شاہ نامہ کی آواز بھی بند ہوگئی ۔مسلمان80فیصدی ادھر تھے کہ پاکستان بننا چاہئے اور 20فیصد اس طرف کہ ملک تقسیم نہ ہو۔ مقصدصرف یہ ہے ملک وملت کے بڑے فیصلے حالات کی وجہ سے ہوئے ہیں ۔آج ہم یا آپ اپنے بچوں کو بتائیں کہ مناظرے ہوتے تھے تو وہ کیا سمجھیں گے ؟یاسلام پرکھڑے ہونا اور نہ ہونابھی ایک مسئلہ رہاہے تو وہ کیا سمجھیں گے ؟ جب یہی صورت حال اسوقت ہے کہ کوئی نہیں دیکھتا کہ بریلوی کون ہے شیعہ کون ہے اور سنی یا دیوبندی یا اہلحدیث کون ہے ؟ نوکری کے دروازے بند ہیں تو سب پربند ہیں دہشت گردی کے الزام میں گرفتاری ہورہی ہے تو کوئی امتیاز نہیں ہے ۔مودی صاحب نے نام کے لئے دو مسلمانوں کو وزیر بنایا ہے ۔ایک کی بیگم آج بھی ہندو دھرم پر قائم ہیں ۔اور دوسری یہ فرما چکی ہیں کہ قربانی کے لئے کسی جانور کی جان لینے کے بجائے اسکی قیمت خیرات کر دینا چاہئے ۔ظاہر ہے کہ انکے ہاتھوں اسلام کی اور مسلمانوں کی کیسی حفاظت ہورہی ہوگی ؟ مسلمان بچوں کو تعلیم میں مددکے لئے روپئے دئے جاتے ہیں انکے فارم بھرنا آئی اے ایس کا امتحان دینے سے زیادہ مشکل ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کروڑوں روپیہ حکومت کو واپس چلا جاتا ہے اور اگر کسی نے فارم بھرنے میں کامیابی حاصل کرلی تو کالج کی ہندو پرنسپل اس پر دستخط نہیں کرتیں اور اگر کسی دباؤ کے تحت کرنا ہی پڑ جائیں تو ایسا منہ بناکر کرتی ہیں جیسے ان کی جیب سے جارہا ہے اور اسوقت سنی شیعہ بریلوی دیوبندی کوئی نہیں دیکھتا ۔ دودن میں ہم نے بھی محسوس کیا ہے کہ بریلوی مسلک کے مدارس سے مولانا توقیررضاخاں صاحب کے اس اقدام کی تائید اس طرح نہیں ہورہی ہے جس طرح دیوبندی مدارس اورعلماکر رہے ہیں ۔کیسے کہیں کہ جلد سے جلد حضرت مولانا طیب صاحب کے جانشین مولانا سالم صاحب اور دیوبند کے استاذحدیث اور جمعیۃ العماء کے صدر کو بریلی آنا چاہئے ۔اور بریلوی مسلک کے بڑے علماء سے ملکر اس گلدستہ میں پھول بھردینا چاہئیں جو مولانا توقیر رضاخاں صاحب نے سب کے سامنے رکھ دیا ہے ۔ علماء دیوبند برسوں کانگریس کے ہندو لیڈر وں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے ہیں لیکن جب نماز کا وقت آیا تو سب کچھ چھوڑ کر مسجد کا رخ کرلیا ۔اور نماز پڑھ کر آئے اور بحث میں شریک ہوگئے ۔بہت سے فیصلے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا وہ حالات کی وجہ سے کرناپڑتے ہیں ۔اس سے پہلے ملک میں جو بھی حکومت تھی اس میں ایسا نہیں تھا کہ سب مسلم نواز تھے ۔ان میں ہمارے بد ترین دشمن بھی تھے لیکن یاتو کم تھے یا چالاک تھے ۔2014میں جو حکومت بنی ہے اس میں اکثریت ان کی ہے جو بدترین دشمن ہیں اور دوسرے اتنے کمزور ہیں کہ وہ زبان نہیں کھول سکتے ۔اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ حکومت کا رموٹ آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے اور وہ ایک مسلمان کو بھی پھلتاپھولتا برداشت نہیں کرسکتا ۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم علمی اعتبار سے بہت چھوٹے ہیں۔اسلئے ہم صرف درخواست ہی کرسکتے ہیں کہ مولانا توقیر رضاخاں صاحب نے جو قدم اٹھایا ہے اسے اتنی طاقت دیدی جائے کہ وہ 20کروڑ مسلمانوں کی آواز بن جائے ۔مولانا توقیرصاحب کی پارٹی انکی اپنی پارٹی ہے ۔انکا اعلیٰ حضرتؒ کے خانوادہ میں کیا مقام ہے ؟ یہ خانوادہ جانے لیکن انہوں نے ایک ایسے مرض کی دوا بتائی ہے جس کی تکلیف ہر مسلمان محسوس کررہا ہے ۔کیا یہ اچھا نہوگا کہ ہم سب اس نسخہ کو دانت سے پکڑلیں؟اوراس وقت تک دانت سے پکڑے رہیں جب تک مرض کی جڑ نہ چلی جائے ۔اور یہ اس لئے مشکل نہیں ہے کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے مودی صاحب نے اپنے سب سے پہلے انتخابی جلسہ میں جو حیدرآباد میں ہوا تھا کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا ۔حیدرآباد والوں کو یاد ہوگا کہ انھوں نے اسکا نام بدلنے کا بھی اعلان کیاتھا ۔اور دو سال کے بعد کانگریس کے بہت چھوٹے ورکر ہریش راوت نے اتراکھنڈ میں پٹخ پٹخ کر مارا ہے ۔حکومت کی ساری طاقت پورا آر ایس ایس پورا ملک کا خزانہ بی جے پی کے پورے شاطر ہر کوئی چولھے میں منہ دیکر رو رہا ہے ۔ہم تو 20کروڑ ہیں اگر صرف اسوقت تک کے لئے ایک ہو جائیں جب تک وزیر اعظم یہ نہ سمجھ لیں کہ مسلم دشمنوں کو نکالے بغیر سکون سے حکومت نہیں ہو سکتی ۔اور وہ دو چار کو ذلیل کرکے نکال نہ دیں ۔ہم پھر چھوٹامنہ اور بڑی بات کا اعتراف کرتے ہوئے گستاخی کی معافی چاہتے ہیں ؂ دل رکھ دیا ہے سامنے لاکر خلوص سے اب اسکے آگے کام تمہاری نظر کا ہے