اچھا وہ ہے جو مسلمان کو برا لگے

Bhatkallys

Published in - Other

11:28AM Thu 7 Apr, 2016
حفیظ نعمانی آر ایس ایس کی قومی عاملہ کا اجلاس یا سنگھ کے مختلف لیڈروں کے موقع بہ موقع بیانات ایسا نہیں ہے کہ پہلے نہ ہوتے ہوں۔ لیکن 2014 ء کے بعد سے اس کا انداز اب تبدیل ہوکر وہ ہو گیا ہے جو حکومت کے سرپرستوں کا ہوتا ہے۔ ایک سال پہلے وزیروں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنی کارکردگی کی رپورٹ بناکر لائیں کہ انہوں نے سنگھ کے نظریہ کی کہاں کہاں ترجمانی کی؟ اور وزیر اعظم کو بھی اسی طرح پیش ہوتے ہوئے قوم نے دیکھا جیسے وہ پرچارک کی حیثیت سے پیش ہوا کرتے تھے۔ لیکن اس سال کلرکوں کی طرح وزیر تو فائلیں لے کر جاتے نظر نہیں آئے۔ البتہ حکومت کو احکامات دیئے گئے کہ اسے کیا کیا کرنا ہے؟ جس میں سب سے زیادہ وہ شرم ناک ہم جنسی کی حمایت تھی۔ ظاہر ہے کہ ان لیڈروں نے جو کچھ بھی کہا اس کی مخاطب حکومت تھی۔ اب یہ حکومت جانے کہ اسے کتنا عمل کرنا ہے؟ البتہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے واضح طور پر یہ کہہ کر ’بھارت ماتا کی جے‘ اختیاری نعرہ ہے جو چاہے لگائے جو چاہے نہ لگائے تنازعہ ختم کردیا تھا۔ دو دن پہلے ایک نیتا بھیاجی جوشی نے نئی بحث چھیڑ دی کہ ترنگا اور بھگوا دونوں قابل احترام ہیں اور وندے ماترم جن من گن سے زیادہ اچھی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ بھگوا جھنڈے کی بات تو یہ ہے کہ ناگ پور میںآر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر پر 1998 ء تک بھگوا جھنڈا ہی لگا رہتا تھا۔ وہ تو جب اٹل بہاری باجپئی وزیر اعظم ہوئے اور ان کے گھر پر، دفتر پر، ان کی میز پر، ان کی گاڑی پر صرف اور صرف ترنگا لگایا گیا تو انہوں نے آر ایس ایس کو بھی حکم دیا کہ وہ اپنے دفتر پر ترنگا بھی لگائے۔ اتنی ہمت اٹل جی کی بھی نہیں ہوئی کہ وہ یہ حکم دیتے کہ اور بھگوا جھنڈا ہٹا دیا جائے۔ اور یہ ان کی اسی کمزوری کا نتیجہ ہے کہ بھگوا جھنڈا بھی وہاں لگا ہے اور جوشی بھیا کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ ترنگے کے مقابلہ میں بھگوا جھنڈا انہیں زیادہ پیارا ہے۔ یا قومی ترانہ کے طور پر وندے ماترم ہونا چاہئے۔ وندے ماترم کو قومی گیت کا درجہ اس لئے بھی نہیں دیا جاسکتا کہ وہ صرف اسی طرح کا ایک گیت ہے جیسے ملک کے انقلابی جیالے گایا کرتے تھے کہ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ 15 اگست 1947 ء کو جب پنڈت جواہر لال نہرو نے قومی پرچم لہرایا تھا تو اس وقت سوچیتا کرپلانی نام کی ایک بنگالی لڑکی نے وندے ماترم گایا تھا۔ لیکن وہ دستوری گیت نہیں تھا۔ اور اس وقت ہندوستان کی آزادی کے لئے مسلمان اتنے جذباتی ہوگئے تھے کہ دوسری کسی بات پر غور کرنے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ لیکن اب یہ معلوم ہونے کے بعد کہ اسلام کے نظریہ وحدانیت کے یہ خلاف ہے۔ مسلمان نہ اسے گاتے ہیں اور نہ اس کا احترام کرتے ہیں۔ اور اگر آر ایس ایس کو یہ زیادہ اچھا لگتا ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان اسے اچھا نہیں سمجھتے اور یہ بات سب کے علم میں ہے کہ سنبھل کے ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق اس وقت پارلیمنٹ کی اپنی سیٹ سے خاموشی سے اٹھ کر چلے جاتے تھے جب اس گیت کے احترام میں دوسرے ممبر کھڑے ہونے لگتے تھے۔ اور جب ان پر اعتراض کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہاں میں کھڑا نہیں ہوتا اور آئندہ بھی کھڑا نہیں ہوں گا۔ اس لئے کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ہمارے ہندو بھائی وہ کریں جو اُن کے دھرم نے بتایا ہے لیکن اسلام کے ماننے والے تو ہزاروں برس سے یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب موسیٰؑ کے زمانہ میں توریت تھی۔ لیکن پروردگار نے اسے واپس لے لیا اور عیسیٰؑ پر انجیل نازل فرمائی تو اس کے بعد توریت کا ماننا گناہ ہوگیا۔ اور جب قرآن عظیم نازل ہوا تو انجیل پر عمل اب گناہ ہے اور یہ اللہ تعلیٰ ہی نے کیا ہے کہ اب اصلی انجیل کہیں نہیں ہے۔ اس نام کی درجنوں کتابیں ہیں جن میں ہر کسی نے اپنے اپنے مطلب کی باتیں ان میں شامل کرلی ہیں۔ رہا جھنڈا؟ اوّل تو کبھی بھگوا جھنڈا قومی جھنڈا رہا نہیں۔ اور اگر وہ ہندوؤں کا جھنڈا تھا تو اس کا موازنہ ترنگے سے کرنا جرم ہونا چاہئے۔ رہی بات قومی ترانے کی تو جن من گن بنایا ہی اس لئے گیا ہے کہ قومی ترانہ وہ ہونا چاہئے جسے ہر ہندوستانی اپنا سمجھے اب اگر بھیا جوشی کے اندر قومی ترانے سے وطن کی محبت کے جذبات پیدا نہیں ہوتے تو قصور ترانے کا نہیں بھیا جوشی کا ہے۔ ایسی بہت سی طاقتور دوائیں ہوتی ہیں جس سے کسی کی صحت اچھی ہوتی ہے اور وہ دوسرے پر اثر نہیں کرتیں۔ اس میں قصوروار دوا کا نہیں مریض کا ہوتا ہے۔ اسے بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ وندے ماترم ایک چٹوپادھیائے کے جذبات ہیں جو بنگالی ہندو ہے لیکن آر ایس ایس کا نہیں ہے۔ اور قومی ترانہ عظیم مفکر رابندر ناتھ ٹیگور نے قوم کو دیا ہے۔ اب رہی بات بھارت ماتا کی جے کی، تو دارالعلوم کے مفتی صاحب کا فتویٰ کہ ناجائز ہے۔ اور محترم استاذ حدیث مولانا ارشد مدنی کے بقول کوئی مضائقہ نہیں سے ہم تو یہ سمجھ سکے ہیں کہ دونوں برحق ہیں۔ مفتی صاحب کے سامنے وہ تصویر ہوگی جس میں بھارت ماں ایک دیوی کے روپ میں ہیں شیر پر سوار ہیں اور ترشول ہاتھ میں ہے۔ بلاشبہ مسلمان اس دیوی کی جے نہیں بول سکتا۔ لیکن اگر وہ ملک کا نقشہ ہے اور پس منظر سے آواز آرہی ہے کہ ’’میں ہندوستان ہوں‘‘ تو اس کی جے بولنے میں کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ نعرہ لگانے والے کی نیت کیا ہے؟ اور فیصلہ نیت پر ہی ہوگا۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ 70 سال کے بعد وہ باتیں جو دفن ہوچکی تھیں وہ اس لئے نکالی جارہی ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی ہیں اور اب ہر وہ بات بھگوا بریگیڈ کو اچھی لگنے لگی ہے جس سے مسلمان کو تکلیف ہو؟ جبکہ مودی صاحب نواز شریف کو دوڑکر لپٹاتے ہیں اور ابوظہبی کے شاہزادے کا استقبال اس طرح کرتے ہیں جیسے صرف براک اوبامہ کا کیا تھا کہ ایئرپورٹ جاکر گلے لگایا اور اب اس سعودی عرب کے شاہ کے دربار میں حاضری دے رہے ہیں جن کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ انہوں نے مکہ مدینہ میں ہندو کا داخلہ کیوں بند کیا؟ سعودی عرب ہو، پاکستان ہو یا عالم اسلام کا کوئی بھی ملک وہ ہندوستانی مسلمان کو سگا بھائی سمجھتا ہے۔ اور یہ ہر کوئی مانتا ہے کہ دو کشتیوں کی سواری سے وہی ڈوبتا ہے جو یہ حماقت کرتا ہے۔ بھیا جوشی ہوں یا موہن بھاگوت انہیں پہلے یہ طے کرلینا چاہئے کہ وہ اس ہندوستان کو جو آزادی کے بعد اس طرح تقسیم ہوگیا ہے کہ اب نریندر مودی، اوما بھارتی، بابا رام دیو، یوگی آدتیہ ناتھ اور ایک درجن سادھو سنت انڈیا کے مالک بن گئے ہیں۔ اور باقی ہندو بھارت کے بھکاری، اسے اسی طرح رہنے دینا ہے یا انڈیا اور بھارت کو ایک کردینا ہے؟ اور کیا انڈیا والے بھارتی ہندو بننا پسند کریں گے؟ اس کے بعد مسلمان فیصلہ کریں گے کہ ہندوستان دارالامن رہے یا دارالحرب؟ اور وندے ماترم اور بھارت ماتا کا فیصلہ بھی اس کے بعد ہی ہوگا۔