تجربات ومشاہدات(۲) ۔۔۔ تحریر ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی۔ الکویت

Bhatkallys

Published in - Other

12:34PM Mon 26 Apr, 2021

سابق شیخ الازھر د عبد الحلیم محمود کی شخصیت اپنے پیش رو اور بعد میں آنے والے بہت سے شیوخ سے مختلف تھی وہ اپنے مزاج اور عمل کے لحاظ سے صوفی تھے، اعلی تعلیم تو انکی بھی فرانس میں ہوئی تھی لیکن فلسفہ کی تعلیم نے انکو مذھب سے دور کرنے یافکر ونظر میں آزا د خیال بنانے کے بجا ئے صوفی حارث المحاسی اور امام غزالی وغیرہ ائمہ تصوف بزرگوں کا گرویدہ اور علم و عمل میں ان کا متبع بنادیا میں نے انکی پہلی جھلک دور سے لکھنو میں دیکھی تھی جب وہ دارالعلوم ندوةالعلماءکے پچاسی سالہ جشن کی صدارت کیلئے اسٹیج پرتشریف فرما تھے جہاں شام کے معمر صاحب علم شیخ حسن حبنکہ المیدانی امارات کے احمد عبد العزیز آلمبارک قطر کے شیخ عبد اللہ ابراھیم الانصاری اور دوسرے مشاھیر موجود تھے، لیکن اس کی صدارت کیلئے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی صاحب نے شیخ عبد الحلیم محمودکو ہی نامزد کیا تھا اور انھیں اسی حیثیت سے دعوت دی گئی تھی،دوبارہ زیادہ قریب سے انکو دیکھنے کا موقع اس وقت ملا جب وہ ایک بڑے وفد کے ہمراہ دارالعلوم دیو بند آگئے وفد میں شیخ عبد الحلیم محمودان سے پہلے کے شیخ الازھر شیخ محمد الفحام اس وقت کے وکیل ازھر عبد الرحمن بیصار اور مشھور عالم اور بعد کے وزیر اوقاف اور ایک نوجوان کے ہاتھوں شھید کئے جانے والے مظلوم عالم۔ ڈاکٹر محمد حسین الذھبی مؤلف" التفسیر والمفسرون " ودیگر افراد شامل تھے دار الحدیث میں مختصر پرو گرام ہوا۔ شیخ الازھر نے طلبہ کے سامنے سورہ کہف میں مذکور حضرت موسی ع وخضرع کےواقعات کو پیش کر کے تحصیل علم کے آداب پر روشنی ڈالی استقبال کرنے والوں میں حضرت مہتمم صاحب کے علاوہ مولانا وحید الزمان کیرانوی صاحب اورمولانا معراج الحق صاحب پیش پیش تھے یہ بھی یاد آتا ہے کہ سابق شیخ الازھر شیخ محمد الفحام سیبویہ کی " الکتاب "کے اس ایڈیشن کے بارے میں دریافت کر رہے تھے جو کبھی کلکتہ سے مستشرقین کے زیر اہتمام شائع ہوا تھا اس سے بڑھا پے میں انکے علمی انھماک کا اندازہ ہوتا ہے در اصل اتنا بڑاوفد صدر محمد انور السادات کی ہدایت پر بمبئ میں بوھروں کے گولڈن مقبرہ کی تعمیر مکمل ہونے پر افتتاحی تقریب میں شرکت کیلئے ہندوستان آیا تھا اسکے بعد چند گھنٹوں کیلئے وہ دیوبند بھی آیا، میں نے شیخ عبد الحلیم محمود کے بارے میں ایک عربی مضمون لکھا تھا اور" الداعی" میں شائع کیا تھاجس کا حاصل کچھ اس طرح تھا: شیخ عبد الحلیم محمود مصر کے علمی افق پر ایک روشن ستارہ کی طرح نمودار ہوئے اور دنیا کو اپنے وسیع وعمیق علم سے سیراب کیا انکے فخر کیلئے یہ بات کافی ہے کہ انہوں نے علم و عمل کے لحاظ سے ایک مثالی زندگی گزاری، شیخ عبد الحلیم محمود کی پیدائش 1915 م میں ہوئی تھی انھوں نے جمعہ ازھر میں تعلیم حاصل کی اور ملازمت و تدریس میں لگ گئے پر اعلی تعلیم کے حصول کیلئے فرانس گئے 1940 میں فراغت حاصل ہوئی جو دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا ، انہوں نےسوربون یونیور سٹی سے فلسفہ میں امتیازی کامیابی حاصل کی تھی، وطن واپس آکر کلیہ اصول الدین اور بعض دوسرے شعبوں سے وابستہ رہے کچھ عر صہ وزیر اوقاف بھی رہے پھر شیخ الازھر منتخب کئے گئے، انکا ذوق تصوف اور فلسفہ کا تھا، انہوں نے حارث المحاسبی امام غزالی قشیری کلاباذی اور طوسی کی کتابوں کی تحقیق کی ہے " التفکیر الفلسفی فی الاسلام "اور العقل والنقل کے نام سے نہایت ہی عالمانہ کتابیں لکھی ہیں اما م غزالی کی "المنقذ من الضلال " کی بہترین تحقیق کی ہے، فرانسیسی نومسلم عبد الواحد یحی کا بھی تعارف کرایا ہے مصر کے بہت سے مصنفین معتزلہ کے افکار سے متاثر رہے ہیں اسی طرح مستشرقین کی تحقیق انکی آراء اورنظریات کا بھی ان پر اثر رہا ہے، اسی لئے شیخ لکھتے ہیں : "ارید ان اعلنہاصریحة واضحة انني اكتب في هذ الموضوع وانا معتز باسلامي واذا لم يجد ارباب النزعة الحديثة مقياسا للحكم فاتخذ اناالاسلام مقياسا للحكم علي الأراء " انہوں نے فلسفہ اور حکمت کی حقیقت پر بڑا بصیرت افروز کلام کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فلسفہ کا مقصد بھی حقیقت تک پہنچنا ہےلیکن خالق تک پہنچنا محض عقلی بحث و مباحثہ کے ذریعہ ممکن نہیں ہے، انہوں نے ارسطو وافلاطون سے لیکر فارابی وابن سینا تک سبھی فلاسفہ کے نظریات پر ناقدانہ نظر ڈالی ہے اور ان کا ضعف واضح کردیا ہے، عصر حاضر کے مسلمان مفکرین اور خاص طور پر شیخ محمد عبدہ کے افکار سے متآثر اہل قلم کے بارے میں لکھتے ہیں : "کل من نھج النھج العقلی فی الدین فی العصر الحاضر انما ھو تابع من اتباع المعتزلة، ولا مناص من الاقرار بآن مدرسة الشيخ محمد عبده انما هي مدرسة اعتزالية في مبادئها واصولها، وهي مدرسة اعتزالية في غاياتها واهدافها ذلك انها ثضع قضايا الدين في ميزان عقلها فتنفي وتثبت حسبما تقتضيه الاهواء والنزعات " (الاسلام والعقل ص ٣٢) انهو ں نے جہاں شیخ محمد عبدہ اورانکے مکتب فکر سے وابستہ افراد کے افکا ر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہیں ڈاکٹر محمد اقبال کے بعض نظریات پر بھی تنقید کی ہے، انکے پیش نظر علامہ اقبال کے وہ خطبات رہے ہیں جو انہوں نے" فکر اسلامی کی تشکیل جدید" کے عنوان سے انگلش میں دئے تھے اور عربی میں انکا ترجمہ مشہور ادیب عباس محمود العقاد نے کیاہے جو "التفکیر الدینی فی الاسلام" کے نام سے شائع شدہ ہے، اور جس طرح شیخ محمد عبدہ نے قرآن میں مذکور آدم علیہ السلام کے واقعہ کو تمثیل قرار دیا ہے اسی طرح ڈاکٹر محمداقبال نے بھی بعض مسلمہ عقائد میں غیر مقبول تاویل کا انداز اختیار کیا ہے شیخ عبد الحلیم محمود کے بععض رجحانات اور خاص طور پر تصوف میں غلو پر بعض لوگوں نے تنقید بھی کی ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ ماديت کے اس دور میں اوریورپ کی تعلیم کے باوجود مبفرد طبیعت کے مالک تھے اور انکا ایمانی جذبہ اسلامی غیرت اور انکی شخصیت کا روحانی رنگ قابل تعریف ولائق احترام ہے وہ فلسفہ علم کلام اور تصوف کے آدمی تھے فقہ اور حدیث ان کا اختصاص نہیں تھا وہ ذکرو دعاء کے آدمی تو تھے ان سے علم جرح و تعدیل اجتہاد و استنباط کی باریکیوں کی امید نہیں رکھنی چاہیے، اللہ تعا لی فردوس بریں میں جگہ دے ہندوستان وپاکستان کے دورے کے بعد وہ یہاں کے اہل علم کامقام پہچاننے لگے تھے اور خاص طور پر علامہ محمد یوسف بنوری اور مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے علم و فضل کے بہت زیادہ قائل تھے رحمه اللہ رحمة واسعة