آن لائن دینی تعلیم، چند گزارشات۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

01:53PM Tue 26 May, 2020

نصاب تعلیم کے محدود دائرے میں آن لائن تدریس کے سلسلے میں مثبت اور منفی آراء سامنے آرہی ہیں، اس سلسلے میں ہمارے ذہن میں بھی چند باتیں آرہی ہیں۔

۔ ہمارے دینی نظام تعلیم کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ جو طلبہ یہاں تعلیم پاتے ہیں، وہ زیادہ تر اپنی معاشی صورت حال یا والدین کی خواہش کے تحت آتے ہیں، اور جب وہ سن شعور کو پہنچتے ہیں، تو پھر ان کے سامنے  اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے علاوہ دوسرا آپشن نہیں ہوتا۔ چونکہ یہ تعلیم ان کی اختییاری نہیں ہوتی لہذا انہیں اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی ، اور کوئی بھی معمولی لذت انہیں تعلیم سے مصروف کردیتی ہے، لہذا ایسا کوئی نظام ہونا چاہئے کہ سن شعور میں پہنچنے کے بعد جو بچے دینی تعلیم میں مزید دلچسپی نہیں رکھتے انہیں دین داری اور مدرسے سے تعلق کو باقی رکھ کر کوئی دوسرا تعلیمی میدان اختیار کرنا آسان ہو۔ کیوں کہ اپنے اختیار کے بغیر جبر سے جو پڑھایا جائے گا،وہ پانی پر لکھی لکیر کی طرح ہوگا، یہی وجہ ہے کہ دارالعلوموں سے جو سالانہ فارغین نکلتے ہیں ان کی زیادہ تر تعداد کا معیار بہت پست ہوکر وہ معاشرے کے لئے مفید ثابت نہیں ہوتے، اسی وجہ سے جو طلبہ برج کورس وغیرہ میں شامل ہوتے ہیں وہ اپنی مدرسے کی تعلیم کو کھلم کھلا عمر کے ضیاع سے تعبیر کرتے ہیں، اسی جانب ایک مرتبہ سید حامد مرحوم نے حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ کو بڑے دردمندانہ انداز سے مخاطب کرکے کہا تھا کہ کیا عجیب بات ہے کہ ہمارے دینی مدارس سے جو بچے علی گڑھ آتے ہیں، تو چند ماہ میں یہاں کے ماحول سے اتنے مرعوب ہوجاتے ہیں کہ اپنا حلیہ ہی بدل دیتے ہیں، ان کے رویوں سے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی تعلیم وتربیت کا بڑا زمانہ دینی مدارس میں اکابر علماء کے زیر سایہ گذرا ہے۔

یہ بات اس لئے ذہن میں آئی کہ جب آن لائن تعلیم کی بات آئی تو یہ کہا گیا کہ طلبہ موبائل کی دوسری واہیات میں لگ جائیں گے، اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہم طلبہ کو یہ بتانے میں ناکام ہوئے کہ وقت کی کیا قدر ہے، کیا طلبہ مدرسے کی پابندیوں سے سدھر جاتے ہیں؟ کیا مدرسے کی پابندیاں انہیں ان چیزوں سے روکنے میں کامیاب ہوئی ہیں؟ یہ ہمارے نظام تعلیم کی کمزوری ہے کہ ہم نے طلبہ کو قوانین وضوابط کے ذریعہ روکا، انہیں اس کا شعور ہم نہ دے سکے کہ وہ خود احتسابی کے ساتھ ان چیزوں سے رکیں۔

۔ عام طور پر پندرہ منٹ سے زیادہ آڈیو یا ویڈیو یکسو ہوکر سننا مشکل ہے، الا یہ کہ اس میں تجسس کا مادہ موجود نہ ہو، نیند آہی جاتی ہے،لہذا یوٹیوب چینل وغیرہ کی افادیت کے باوجود تنہائی میں مستقل طور پر یوٹیوب پر درس سننا ممکن نہیں، ہاں اجتماعی طور پر کئی ایک افراد ساتھ مل کر سننے کا نظم کریں اور ہاتھ میں پنسل اور کاپی ہوتو متوجہ ہوکر ان سے مستفید ہونا کوئی مشکل کام نہیں۔

۔ آن لائن کے لئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ٹوٹوک ، فیس بک میسینجر، زوم ، ہینگ آوٹ جیسا کوئی سوفٹ ویر استعمال کریں، جس میں استاد اور طالب علم آمنے سامنے ہوں۔

۔ اس سے ہٹ کر ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اس وقت عصری اداروں میں تعلیم پانے والے بہت سے نوجوانوں کو دین سیکھنے کا جذبہ ہیں، ڈاکٹر فرحت ہاشمی اور ڈاکٹر ذاکر نائک، اور جماعت اسلامی، اور اہل حدیث سے وابستگان نے اپنے اطراف ان گنت ایسے نوجوانوں کو جمع کیا ہے، ان کا دینی جذبہ بہت سے ہمارے دینی مدارس کے فارغین سے بڑھا ہوا ہے، ہمیں اس وقت ان کے معتقدات سے بحث کرنا نہیں ہے، روایتی دینی حلقوں کا رویہ ان کے بارے میں مناظرانہ رہا ہے، جس سےان سے وابستہ متوسط  مذہبی طبقہ تو ان کی علماء کی بات مانتا ہے، لیکن جن کوان کو دور کرنے کے لئے یہ سب باتیں کی جاتی ہیں، انہیں یہ باتیں متاثر نہیں کرتیں، یہ ان کے وابستگان میں کمی کا باعث نہیں بنتیں، مشکل یہ ہیں کہ ہمارے مدارس دینیہ کے طلبہ میں تقاریرسننے کا ایک نشہ سا ہے، علمی مجالس، اور مجالس مذاکرہ اور دروس سے انہیں دلچسپی کم ہی ہوتی ہے، لیکن ان حلقوں میں موضوعاتی لکچرز کا نظام ہے، جن میں افہام و تفہیم اور منطقی اسلوب غالب رہتا ہے۔

سنہ ۱۹۸۰ کی دہائی میں سعودی علماء نے اس جانب توجہ دی، تقاریر کے بجائے مساجد میں درسی اور علمی کتابوں کے دروس کا سلسلہ شروع ہوا،جن سے کالج کے طلبہ نے بہت استفادہ کیا، انجینرنگ وغیرہ کے ہزاروں طلبہ ان میں شامل ہوکر عالم بنے، قرآن پاک حفظ کیا، یہ بات ہمارے معاشرے میں نظر نہیں آتی۔

علمائے شوافع کا تاریخ میں یہ امتیاز رہا ہے کہ انہوں نے سیاست اور حکومتی مناصب میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی، لہذا تفسیر حدیث تاریخ فقہ وغیرہ جملہ علوم کی تصانیف میں وہ فائق ہوگئے، گذشتہ دنوں اس کا ایک مظہر ہمیں سوریا میں نظر آیا، ۱۹۸۱ء میں حماۃ وحلب میں خون خرابے کے بعد بڑے بڑے علماء سے یہ ملک خالی ہوگیا تھا، لیکن اس خلا میں علمائے شوافع شیخ محمد سعید رمضان البوطی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے یہاں پر علم دین کو باقی رکھنے کے لئے بڑی محنت کی، اور گزشتہ عشرے میں جب کہ یہاں خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی ان علماء کی ایک بڑی تعداد نے ملک میں رہ کر علم دین کی تدریس وتعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، اور شیخ حسن حبنکہ میدانی رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد منجک پاشا جیسی مسجدیں ایک دارالعلوم بن گئیں ، یہاں سے شیخ رشدی القلم وغیرہ نے ہمارے دارالعلوموں میں پڑھائی جانے والی درسیات حدیث فقہ نحو صرف بلاغہ منطق وغیرہ کی کتابوں کے دروس آن لائن کرنے شروع کئے، ان میں انہوں نے کلاس روم میں درس کا انداز جس میں سمجھے کیا ؟ جیسے مکررات آتے ہیں، ان کا استعمال ترک کرکے فصیح زباں میں کتابوں کی تدرس کے نظم کو اپنایا، اس کے طفیل سیوطی کی الاشباہ والنظائر جیسی بیسیوں کتابیں جن کی شروحات دستیاب نہیں ہیں، ان کو سمجھنا اور سمجھانا آسان ہوگیا۔

انٹرنٹ اور یوٹیوب پر ان دروس کو انفرادی طور پر سننا آسان نہیں، اس کے لئے ہمارے گاؤں اور قصبوں میں مدارس دینیہ کے طلبہ کے اسٹدی سرکل بنانے پر توجہ دینی چاہئے، جہاں اجتماعی طور پر ان دروس کو قلم کاپی کے ساتھ سننے کا انتظام ہو، اور اہل خیرسے تعمیر مسجد اور دوسرے کاموں کے لئے چندہ لیا جاتا ہے، ایسے اسٹدی سرکلوں کے قیام پر بھی  انہیں متوجہ کیا جائے، جہاں مقررہ اوقات میں مقررہ کسی ہال یا کمرے میں لیپ ٹوپ اور پروجکٹر کی سہولت میسر ہو۔ ہمارے دینی مدارس میں بھی  ہفتے میں ایک دو بار آن لائن درس سنانے کا باقاعدہ نظام قائم کیا جائے،  ہماری ناقص رائے میں باشعور طالب علموں کے معیار کو بلند کرنے ان میں تجدید علم کا شوق کرنے میں اس طریقہ کار سے  بڑی مدد ملے گی۔

2020-05-26

        https://telegram.me/ilmokitab/