کانگریس مکت بھارت بنانے میں مودی لہو لہان

Bhatkallys

Published in - Other

04:33PM Thu 19 May, 2016
حفیظ نعمانی جیسے یہ اچھا نہیں لگا تھا کہ شری ملائم سنگھ بہار کے اس الیکشن میں جس میں اصل مقابلہ نتیش کمار اور لالو یادوکا وزیر اعظم نریندر مودی سے تھا اور بہار میں سماج وادی پارٹی کی کوئی قابل لحاظ حیثیت نہیں تھی انہوں نے کمیونسٹ پارٹی اور پوار کانگریس کو ساتھ لیکر ایک محاظ بنایا جس کا اثر صرف یہ ہوا آپس میں تلخی تو بڑھی لیکن فائدہ ملائم سنگھ کا اور نقصان نتیش کمار میں سے کسی کا نہیں ہوا۔ ایسے ہی یہ اچھا نہیں لگ رہا ہے کہ نتیش کمار اتر پردیش میں ایک عظیم اتحاد بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔جس میں اصل چہرہ تو کانگریس کا ہوگا اور تالی بجانے والوں میں جے ڈی یو اور وہ بائیں بازو کی پارٹی ہونگی جو بہار میں ملائم سنگھ کی قوالی میں تالی بجارہی تھیں ۔جب کہ کہا یہ جارہا ہے کہ ملک میں مقابلہ پارٹیوں کے درمیان نہیں نظریات کے درمیان ہورہا ہے ۔اور جسکا نقصان اپنی ہی طرح سوچنے والی پارٹی کو ہوگا ۔بہار میں نتیش کمار نے شراب بند کرکے بہت بڑا کام کیا ہے ۔ہم نے انکی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ایسی ریاست جسکی چاروں سرحد یں ایسی ریاستوں سے مل رہی ہوں جہاں شراب عام ہے انکے منصوبے کو بہت نقصان پہنچائیں گی ۔1977میں جب جنتا پارٹی کی حکومت بنی تھی اور مرار جی بھائی نے شراب پر پابندی لگائی تھی تو اس میں یہ بھی تھا کہ دہلی میں دوکانوں پر تو شراب بکے گی لیکن ہر جگہ پینے پر پابندی ہوگی ۔اس زمانہ میں ہمارا دہلی جانا ہوا تو ہم نے ایک صحافی دوست سے معلوم کیا کہ اس میں کتنی کامیابی ملی ؟وہ ہنس کر کہنے لگے کہ اسکا جواب الفاظ سے نہیں مظاہرہ سے دونگا ۔نئی دہلی کافی ہاؤس میں باتیں ہورہی تھیں ۔وہاں سے اٹھے تو انھوں نے گاڑی کا رخ صاحب آباد کی طرف موڑدیا ۔ہمیں خیال ہوا کہ انہیں کوئی کام ہوگا ۔مشکل سے آدھا گھنٹہ ہوا ہوگا کہ گاڑی روکتے ہوئے کہا کہ آؤ اور اپنے دو قدم زمین پر رکھ کر کہا کہ دیکھو میرا داہنا پاؤں ہریانہ میں اور بایاں پاؤں دہلی میں ہے ۔اور وہ جو جنگل میں منگل نظر آرہا ہے وہ ہریانہ کے نہیں دہلی کے شوقین ہیں جنہیں ہر قسم کی شراب ہر قسم کا گوشت اور ہر قسم کی مچھلی بہت مناسب قیمت پر مل رہی ہے ۔اگر مرار جی بھائی خود دارو پیتے ہوتے تو یہ فیصلہ کبھی نہ کرتے ۔اور ہم نے نتیش بابو سے یہی کہاتھا کہ جس نیپال میں چائے کے ہوٹل میں شراب بکتی ہے اسکی سرحد کو کون سیل کرے گا۔ اب نتیش بابو کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اتر پردیش سے گذارش کی تھی کہ وہ بہار سے 5کلو میٹر کے اندر شراب کی دکان نہ کھلنے دے ۔کہا تو انہوں نے یہ بھی تھا کہ اتر پردیش میں بھی شراب بند کردی جائے ۔لیکن یہ وہ فیصلے ہیں جو کابینہ اور پارٹی کرتی ہے ۔ہم نے اس وقت ایک بات اور کہی تھی کہ گجرات میں شراب پر پابندی کانگریس نے لگائی تھی بی جے پی کو اس پابندی سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ وہاں پابندی آج بھی ہے لیکن مشہور ہے کہ گجرات میں پانی کی بوتل دیر میں آتی ہے اور شراب کی منٹوں میں۔ ظاہر ہے کہ نتیش کمار اپنی حکومت میں سختی بھی کریں گے اور سزا بھی دیں گے بعد میں دوسروں کی حکومت آگئی تو گجرات جیسی حالت بھی ہو سکتی ہے کہ ریاست کی آمدنی بھی نہیں ہوگی اور شراب گلی گلی بکے گی جیسے اتر پردیش میں پلاسٹک کی تھیلی پر پابندی ہے لیکن گھرکا کوڑا ابھی پلاسٹک کی تھیلی میں پھینکا جاتا ہے ۔ اتر پردیش میں کانگریس اپنے بل پر لڑنے کا پروگرام بنارہی ہے اسے اگر سیکولر ذہن کے لوگوں کو ساتھ لینا ہے تو وہ سماج وادی پارٹی سے ایسا ہی معاہدہ کر سکتی ہے جیسا اس نے بہار میں نتیش کمار سے کیا تھا وہاں وہ 4سے 27پر آگئی تو اتر پردیش میں وہ 75پر بھی آجائے اور اپنے وزیر بھی بنالے تو اس سے تو اچھا ہی ہوگا کہ کمیونل پارٹی تو بی جے پی اکیلی ہو اور سیکولر پارٹیوں کے ووٹ چار جگہ تقسیم ہوں ؟اور اس شہرت میں کوئی دم ہے کہ امت شاہ کے ٹھیلوں کے بل پر ایک عظیم مسلم محاذ بن رہا ہے جس میں وہ تمام چھوٹی بڑی مسلمان پارٹیا ں حصہ دار بتائی جارہی ہیں جو ایک عظیم محاذ بناکر تمام مسلمان ووٹ سمیٹ لیں گی ۔اور بی جے پی کی حکومت بنوا دیں گی ۔یہ خبر ہم تک بہت معتبر ذریعہ سے آئی ہے اور یہاں تک بتایا گیا ہے کہ اس محاذکی خدمت میں ایک ہیلی کاپٹر بھی پیش کردیا گیا ہے ۔کیونکہ اب امت شاہ اترا کھنڈ کی طرح کو ئی میٹنگ بلاکر یہ نہیں کہنا چاہتے کہ چوک کہا ں ہوئی ؟ کہنے والے نے تو یہ تک کہا ہے کہ جب تمام نام تمہارے سامنے آئیں گے تو شاید تم اپنا وہ قلم ہی توڑ کر پھینک دو گے جس سے کسی کا قصیدہ لکھا تھا ۔ 2014میں نریندر مودی جب اٹھے تھے تو انکا نشانہ صرف کانگریس تھی او ر انھوں نے پورے ملک میں سب سے زیادہ زور کانگریس مکت بھارت پر دیا تھا ۔اسکی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ وہ صرف کانگریس ہے جو 1967میں ٹو ٹ کر پھر ایک ہوگئی ۔پھر دس سال کے بعد 77میں ایسی ٹوٹی کہ صرف کریا کرم ہی نہیں ہوا بلکہ تیرہویں بھی ہوگئی ۔یعنی رائے بریلی میں ہارنے اور چک منگلور میں جیتنے کے بعد بھی اندرا گاندھی کو پارلیمنٹ کی کرسی پر بیٹھنا نصیب نہیں ہوا ۔لیکن صرف تین سال کے بعد وہ اس طرح کھڑی ہو گئی جیسے مرض الموت سے نہیں نزلہ سے صحت یاب ہوگئی ہو ۔کانگریس کی اس سخت جانی کے پیش نظر انہوں نے ملک کے ہر صوبہ میں بہت سی باتیں وہاں کے ماحول کے مطابق کہیں ۔لیکن کانگریس مکت بھارت ہر جگہ کہا ۔اور انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جن صوبوں کو الیکشن سے قابو میں کر سکوں گا انہیں ووٹوں سے ختم کردوں گا ۔اور جنہیں ووٹوں سے نہ کرسکا انہیں نوٹوں سے قدموں میں لاؤں گا ۔ اور اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ پانی کی طرح اپنا پیسہ بہانے کے بعد بھی بنگال میں وہ دہائی کو بھی نہ چھوسکے تمل ناڈو انہیں دو کے درمیان ڈو ل رہا ہے جنکا وہ ہمیشہ رہا ۔کیرالا کے وزیر اعلی انکے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی دے رہے ہیں ۔رہا آسام تو شاید وہ بھگوا پرچم لہرانے کی اجازت دیدے ۔لیکن انکے لئے فکر کی بات یہ ہے کہ جس کانگریس کو وہ دفن کرنے کی قسم کھاکر نکلے تھے اسے بہارمیں کچھ فائدہ ہوا اور شاید بنگال میں بھی ہو جائے ۔اور اس نے اتراکھنڈ میں بی جے پی کی تینوں مورتیوں کوصرف ہرایا نہیں ایسا ذلیل کیا ہے کہ انہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا اب انکا نشانہ اتر پردیش اور پنجاب ہے وہ پنجاب جہاں کل ہر زبان پر کیجروال تھا اور ہر ہاتھ میں جھاڑو ۔ ایسی صورت میں اگر اتر پردیش پر قبضہ کے لئے امت شاہ کے ذریعہ دس ہزار کروڑروپے بھی پھونک دئے جائیں تو تعجب نہ ہونا چاہئے ۔ایسی صورت میں نتیش کمار کا سیاسی مذاق اور مسلمان ووٹر وں کی ناسمجھی اتر پردیش کو سیکولر نظریات والوں کا قبرستان بنا دے گی ۔ڈاکٹر ایوب ،اسد الدین اویسی ،عامر رشادی ،افضال انصاری ،مولا نا توقیر رضا خاں وغیر ہ وغیرہ سب اپنی اپنی پارٹی بنائے ہوئے ہیں ۔انہوں نے اگر اپنے معاملات میں امت شاہ کو شامل کیا یا ان کو دخل دینے دیا تو یہ ملت کشی ہوگی ۔انہیں جو بات کرنا ہے وہ سیکولر پارٹیوں سے کریں اس لئے کہ صرف مسلمان امید وار صرف مسلمان ووٹوں کے بل پر 20سے زیادہ سیٹوں پر نہ جیت سکیں گے ۔رہے ہوائی قلعے تو انکی تعمیر پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔لیکن کانگریس کو صرف زندہ رکھنے کی ذمہ داری بھی مسلمانوں کی ہے ۔