سوچھ بھارت ابھیان : از ڈاکٹر فرزانہ فرح بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Other

04:28PM Tue 22 Sep, 2015
مردوں کے سماج میں عورتوں کو گھر کی رانی قرار دیا جاتا ہے۔ راز کی بات تو یہ ہے کہ دراصل وہ نوکرانی ہوتی ہیں۔ روز ِ ازل سے گھر آنگن کو ستھرا رکھنے کی ذمہ داری انھیں کی تھی ، اب نوکری پیشہ ہونے کے بعدان پر دہری ذمہ داری ہو گئی ہے۔ عام طور پر مرد کماتے اور گھر پر آرام کرتے ہیں ۔قسم لے لیجئے جو گھریلو معاملات میں ذرا معاونت کریں۔ یہ صنفِ نازک ہے جواپنے کندھوں پراندر باہر دونوں کا بوجھ اٹھاتی ہے ۔بیچاری ! بقول مردوں کے۔۔ ناقص العقل جو ٹہری۔ان کا بس چلے تو بیگم کو بھنگن بنا ڈالیں اور یوں عرض ِ تمنا کریں تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن تو اس آنچل سے اک پونچھا لگالیتی تو اچھا تھا ہمارے کلیجے میں اس وقت ٹھنڈک پڑی جب وزیر ِ اعظم نے گاندھی جینتی کے روز تمام سرکاری افسران کو اپنے علاقوں کی صفائی کا حکم دیا اور جتایا کہ وہ خود بھی اس مہم کا حصہ بنیں گے۔ آہا ! یہ سننا تھا کہ ہمارے چشم ِ تصور میں سلاطین و حاکمین کی تصاویر یکے بعد دیگرے رقص کرنے لگیں۔ مصر کے رعمسیس بھالا لئے کھڑے تھے۔ اکبر بادشاہ گلاب لئے سونگھ رہے تھے۔ ٹیپو سلطان تلوار نے تھامی تھی اور اپنے مودی جی کے ہاتھ میں جھاڑو ! سبحان اللہ ! ایں سعادت کہ بزور ِ بازو است۔ یوں ہمارے ملک کی تاریخ میں ایک خاتو ن وزیر ِ اعظم بھی بر سر ِ اقتدار آ چکی ہیں جنکی پرور ش شائداس نہج پر نہ ہوئی تھی کہ وہ جھاڑو تھامتیں ۔ورنہ "غریبی ہٹاؤ.کے بجائے گندگی ہٹاو " کا نعرہ معر ض ِ وجود میں آتا۔ آفرین ہے ان کی فراست پر ، باوجود نا تجربہ کاری کے، ایمرجنسی کا دامن تھام کراس صفائی سے ملک پہ جھاڑوپھیری تھی کہ بعد ازاں ملک کے سپوتوں نے ان کے وجود سے دنیا کو صاف کر دیا۔ خیر! غنیمت ہے ، اب مدت ِ دراز بعدیہ مرد آیا ، جو مردِ مومن نہیں۔لیکن جوخواتین کے تئیں نرم گوشہ رکھتا ہے۔جس نے عام مرد کی طرح اپنی گھر کی مرغی کو دال برابر گردانا باوجود اس کے دیگرخواتین کے مسئلے کو اپنا مسئلہ جانا اور صفائی کی مہم کو ملک گیر پیمانے پر پنچ سالہ منصوبوں میں جگہ دے دی۔ اول اول تو ہمیں شک سا گذرا کہیں ہمارے کان بج تو نہیں رہے، مردوں کے ہاتھوں میں جھاڑو؟ یقین جانئے یہ ایسا ان دیکھا نظارہ تھا جس کے تصور سے ہی دل میں پھلجھڑیاں سی چھوٹنے لگیں۔ ایسے مسرور ہوئے گویا " دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے"۔ تاریخ کے اوراق پلٹے تو پایا کہ عالمی سطح پرچند" عظیم افراد"کے خون میں صفائی خبط بن کرتیراکرتی تھی۔ اسی کی تکمیل میں ہٹلر نے یہودیوں کا صفایا کیا۔ جنرل ڈائر نے ہندوستانیوں کا قتل ِ عام کیا۔ صدر بش نے اسلامی حکومتوں کو صفحہء ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔ اس کے بر عکس غورکیاتو پایا کہ ماحولیاتی آلودگی کے نشان نہ صرف ہماری زندگی میں بلکہ ہماری اردو شاعری میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ مثلاََایک شاعر نے اپنے زمانے کا حال یوں قلمبند کیا ہے ۔۔"گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی " (شاید دورِ قدیم میں محدود چیزیں پھینکی جاتی تھی )۔ پھر شاعر ِ مشرق علامہ اقبال آئے ۔انھوں نے ہدایت کی ، "اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے "۔(ہو نہ ہو ،انہی کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اردو اکیڈمیاں نو آموز شعرا ء و ادباء کے مسودات کو ہر پانچ سال بعد ردی کے حوالے کیاکرتی ہیں)۔ بعد کی پیڑھی کوساحرنے حکم دیا "جلا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا " (غالباََ اس سے درس لیتے ہوئے کوئلے کی کانوں کی تقسیم اور اراضی کے عطیات کی سرکاری دستاویزات کو وقت رہتے جلا دیا جاتاہے۔ورنہ یہ کارتوس پورے ملک کو پھونک سکتا ہے) ۔ سدرشن فاخرکیوں پیچھے رہتے ؟ انھوں نے استدعا کی "دفن کر دو ہمیں کہ سانس ملے نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے "(یقیناََ تھانے اور عدالت اسی کی تعمیل میں قتل ، عصمت دری اور اغوا وغیرہ کی فائیلوں کو تاخیر و تاریخ کے سرد بکسے میں دفن کر دیتے ہیں) ۔محترم جون ایلیا نے اپنی اگال تک کو مخفی نہ رکھا اور بصد ناز خبر دی میں ہنر مند ِ رنگ ہوں میں نے خون تھوکا ہے داد پائی ہے ( خدا جانے ٹی بی کے خلاف جہاد کرنے والوں سے ان کی کونسی دشمنی تھی ) ۔حد یہ کہ دور ِ حاضر میں راحت اندوری تک چیلنج کر بیٹھے "سمندر ! ہم سے آنکھ ملا دیکھیں کتنا پانی ہے "(ممکن ہے اسی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ملک کے کارخانے ہر روز کئی گیلن گندگی دریا میں بہا کر سمندر سے آنکھیں چار کرنے کی قوت مجتمع کرتے ہیں)۔ آپ سے کیا پردہ ؟ اسلام میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے تاہم مسلمانوں کی اکثریت مکمل طور پر صفائی کو دور سے سلام کرتی ہے۔ گویاگند پھیلانا ہمارا بنیادی حق اور اولین فرض ہے۔ یہی نہیں ، اس ضمن میں ہم وہی دعویٰ کر سکتے ہیں جو انیس نے مرثیہ کے تعلق سے کیا تھایعنی۔۔۔"سات پشتوں سے یہی پیشہ ء آ بائی ہے"۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ہم میں سے کچھ احترامِ جمعہ میں غسل کرتے ہیں۔ بعضعے یہ عزت عید کو بخشنا پسند فرماتے ہیں۔ ممکن ہے ان کے پیش ِ نظر یہ نکتہ ہوتا ہوکہ آج سماج میں اتنے آندولن ہوتے ہیں، پانی بچاؤآندولن اور سہی ۔ مسلم محلوں کی شان کا تو ذکر ہی کیا؟۔ ایک زمانہ تھا جب ہماری بستیوں کی شناخت مسجدوں کے گنبد ہوا کرتے تھے۔ اب ماشاء اللہ یہ اپنے ابلتے کوڑے دانوں کیلئے معروف ہیں۔"دان " کے لاحقے سے جتنے الفاظ وجود میں آتے ہیں ، ان میں خواہ وہ سیاست دان ہو، سائنس دان ہو، یاگل دان ہو۔ کوڑے دان کے مقابل کس کی جرات کہ ٹک پائے۔ سبب یہ کہ اسی کو سب سے بڑھ کر سماج "دان "دیاکرتا ہے۔جیسے دائی سے پیٹ نہیں چھپایا جا سکتا ، اسی طرح کسی کے گھر تقریب کا اندازہ ان مخصوص محلوں کے کوڑے دانوں سے ہو سکتا ہے۔شادی ہو، منگنی ہو، سالگرہ ہو یا فاتحہ خوانی۔ لوگوں کے صاحب ِ استطاعت ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ پھینکے ہوئے کھانے کی مقدار اور استعمال شدہ پلاسٹک کے برتنوں کی کوالٹی سے کیا جا سکتا ہے۔ نیز پرانے کپڑے، مردہ چوہے، چاکلیٹ کی پنیاں، ردی کاغذ ،بچوں کیے پیمپر ، بڑوں کی آلائیشیں، نو زائیدہ بچیاں، اغواء شدہ لوگوں کی لاشیں، وغیرہ ایسے اس میں دائمی پڑے رہتے ہیں جیسے عاشق محبوب کے کوچے میں۔ ایک وقت تھا کہ شامِ اودھ اور صبح ِ بنارس حسن کی آماجگاہ مانی جاتی تھی۔ ڈل جھیل کو جنت سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ مگر اب چمن میں بوئے گل جوں پھیلتی ہے ویسے ان علاقوں میں روزوشب لوٹا بدستوں کی بدولت تعفن کا راج رہتا ہے۔ سنا ہے درد ِ دل کی شدت سے شعراء گلہ کرتے تھے۔۔۔ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا ۔ ادھر کا یہ عالم ہے کہ یاں سے گذرنے والے کا ہاتھ ناک سے جدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں بینک کے "فکس ڈپازٹ" کی طرح کچرے کی سالہا سال پرورش ہوتی ہے۔ اس کھاتے میں اصل جتنا بڑھتا جاتاہے ، سود بھی مچھر، پسو اور جراثیم کی شکل میں بڑھتا جاتا ہے۔ انہی کے اعجاز سے علاقے کے نجی ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کے گھرمیں ہن برستا ہے۔ سیا ست دان اسی کوڑے دانوں کی صفائی کا وعدہ کر کے ووٹ طلب کرتے ہیں۔ووٹ مل جاتے ہیں مگر وہ وعدہ ہی کیاجووفا ہو؟ اورظا ہر ہے ، ترقی کے راستے ہمیشہ زیر ِ تعمیر رہتے ہیں۔ بس ہمیں یہ اطمینان ہے کہ دوسرے ممالک نے جیسے دنیا کو ٹوین ٹاور، ایفل ٹاور، برج العرب اور برج الخلیفہ کا تحفہ عطا کیا ہے ۔ امید ِ قوی ہے کہ مستقبل قریب میں ہم بھی اپنے ہی چار مینار اور قطب مینار سے بلند "کوڑا مینار " ایستادہ کر دینگے۔ کون جانے تب ایک اور عجوبہء روزگار ہندوستان کی شان میں اضافے کا سبب بنے۔ ہندوستان کثیرالمذاہب ملک ہے جہاں مختلف تہوار منائے جاتے ہیں۔ان تہواروں کے ساتھ صوتی، آبی ، ہوائی آلودگی کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ دیوالی کا پٹاخوں کے شور ، بارود کی بدبو، بم اور اس کے باقیات کے بنا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہولی میں ، بالٹی بھر بھر پانی دوسروں پر پھینکنے، رنگ بھرے غبارے اچھالنے اور دوستوں کو کیچڑ میں دھکیلنے سے زیادہ کیا بات مزے کی ہو سکتی ہے؟ گووندا کا تہوارہو تو بلندی پر لٹکتی دودھ، مکھن دہی کی مٹکی پھوڑ کر ہر طرف گند پھیلانے میں ہم وطنوں کو کتنا لطف آتا ہے۔ گنپتی باپا کی مورتی کا ہر سال دریا میں وسرجن نہ کیا جائے تو بمبئی کے ساحل ویران نہ ہو جائیں۔ عیدالفطر میں جانوروں کی آلائشیں نہ ہو کیا یہ ممکن ہے؟ ۔ اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ۔اب یہ ہماری زندگی کاجزوِ لا ینکف ہیں۔ جو خبردار کرتی ہیں کہ زندگی میں آگے رہنا اتنا ضروری نہیں جتنا گندگی میں آگے رہناضروری ہے۔ ہماری ایک دوست کا کہنا ہے ، بیڑہ غرق ہو ان وزیروں کا۔کرسی ملی نہیں کہ اختیارات یاد آ جاتے ہیں۔ ذہنی تحفظات کی کوئی اہمیت ہے کہ نہیں۔ کسی سے جنت کے متعلق دریافت کرو، وہ باغ ِ عدن ، کوثر و تسنیم کی بات کرے گا۔ عربستان کی پوچھو تو اونٹ ، عبا اور کھجور اس کا جواب ہوگا اور ہندوستان کے حوالے سے گنجان آبادی ،سمٹتے جنگل، کٹتے پہاڑ اور گندی بستیاں یاد آئیں گی ۔ ہم نے انھیں زمینی حقائق کو محسوس کرتے ہوئے اک عمر گذری ہے اور ہائے ! جس معاشرے کو اتنی غلاظت کی عادت ہواس پر وزیرِ ِ اعظم کی یک لخت صفائی کی شرط بھی ظلم ہے ۔ ہمارا معاملہ اس حد تک بگڑ گیا ہے کہ اس گندگی سے "اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے ۔ ہمیں متذبذب پا کر مزید فرمانے لگیں۔۔۔ زرا سوچو ، لب ِ سڑک ڈھابوں میں گندا صافہ باندھے، داغدار لنگی پہنے، میل بھرے ناخن والے باورچی نہ ہوں تو کھانوں میں خاک مزہ آئے گا؟ہائی وے کے سگنل پر میلے کچیلے لولے لنگڑے نونہا لانِ وطن بھیک نہ مانگیں ، تو یوں نہ لگے گا کہ وطن میں غربت کے ستم جھیل رہے ہیں، بتاوء محرومی کا احساس ہوگا کہ نہیں؟ بزرگوں کاحکم بھی تو ہے کہ اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھا جائے ۔ اب یہ امارت اور غربت کا فرق نہ رہے گا تو شکر کا موقعہ کیسے ملے گا؟۔ اپنے پیارے ملک میں گداگری بھی ایک ترقی یافتہ منفعت بخش منڈی ہے، ان ہی کے ساتھ سیاح تصویریں کھنچوا کر عالمی سطح پر ہندوستان کو بھوکا ننگا پیش کرتے ہیں۔ سماج سیوک ان کے انٹرویو لے کر اخباروں میں جگہ پاتے ہیں،۔ نیوز چینل ان پر بحث کروا کے، سیریل والے اپنے سیریل کو اس تحریک سے جوڑ کر ٹی آر پی بٹورتے ہیں۔ جب کہ مغربی فلم ڈائریکٹر گندی بستیوں کے باشندووں پر پوری فلم بنا کرآسکر ایوارڈ کے حق دار بنتے ہیں۔ تیسری دنیا کیا مجال کہ وہ گندگی کے چکر ویو سے نکلے؟ یہ سب سن کر دل ہی دل میں ہم نے اعتراف کیا کہ ہم نے آج تک اپنے اطراف و اکناف کو اسی طرح پایا ہے اوراس سے سمجھوتہ بھی کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ بلا جھجھک اپنا پتہ ہم لوگوں کو یوں بتاتے آئے ہیں۔فلاں بس اسٹینڈ کے سامنے بھینس کا طبیلہ ہے۔ گوبرکے اپلوں سے سجی دیوار کی سیدھ میں آتے جائیے۔ ایک سرکاری اسکول ملے گا۔ جس کے پہلو میں بہتے نالے میں MID DAY MEAL کا تازہ یا باسی کھانا پڑا ہوگا۔اس پرپتلی دال بچھی ہوگی جس پر مکھیوں کی سجاوٹ ہوگی ۔ اس کے سامنے جو پہلا گھر نظر آئے گا وہ ہمارا ہوگا۔اوریقین مانئے اس رہنمائی سے آج تک کوئی گم کردہ راہ نہ ہوا۔ سوچھتا ابھیان کے احکامات صادر ہونے کے بعد گاندھی جینتی منانے ہم گھر سے کالج کی جانب روانہ ہوے۔ رات گئے ہم سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے پڑوسیوں کی گیٹ کے سامنے پھینک آئے تھے جو اب ہماری گیٹ کے سامنے پڑے ہمارا منہ چڑا رہے تھے۔ ہو نہ ہو پڑوسی بھی احمد فراز سے استفادہ کر چکے تھے اسی باعث تیری بخشش تیری دہلیز پہ دھر جائے گا والے نکتے سے آگاہ تھے۔ اب وہی چھلکے ہماری راہ میں یوں بچھے تھے گویا کسی نے آنکھیں فرش ِ راہ کی ہوں۔ آناََ فاناََسامنے سے گزرتی کئی بکریوں نے آو دیکھا نہ تاؤ ،ہماری جانب لپکیں۔ ایک بکری نے ہماری فائل پر منہ مارنے کی کوشش کی۔ ہم نے جلے دل کے پھپھلے پھوڑتے ہوئے اسے سمجھایا۔۔۔عزیزِ من ! تم پڑھنے لکھنے کی مشقت نہ اٹھاو۔ الحمد اللہ ! ہمارا تعلیمی معیار اس قدر بلند ہو چکا ہے کہ گدھوں تک کو بن پڑھے ڈگریاں عطا کی جاتی ہیں۔ تم توماشاء اللہ بکری ہو یعنی کم از کم ڈاکٹریٹ کی مستحق ۔ سانچ کو آنچ کیا ؟ آج کل پی ایچ ڈی محض اعزازی ڈگری ہی تو ہو کر رہ گئی ہے۔ شاہراہ پر پہنچ کے میونسپلٹی کی کچرا ڈھونے والی گاڑی کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔یہ تو محض تہواروں کے آس پاس نظر آتی ہیں تا کہ بخشش طلب کی جا سکے۔ دیکھا ، وزیر ِ اعظم کے خکم سے بے نیاز دو خاکروب میونسپلٹی کی گاڑی سے ٹیکا لگائے کھڑے سگریٹ پھونک رہے تھے اور ڈانٹ ڈپٹ کردوجمعدارنیوں کو ڈھنگ سے جھاڑو دینے کا حکم دے رہے تھے۔ اختیار بہ دست ِ مختار ! ملک کے آئین میں 33 فیصد RESERVATIONخواتین کو مل جانے کا مطلب یہ کب ہے کہ 67 فیصد مردوں کی برسوں کی عادت کو لمحوں میں بدل جائے گی۔ کالج جا کر ہم نے طالبات کے ساتھ چھت کے جالے اتارے۔ باغ سے سوکھے پتوں کو الگ کیا۔ بقیہ عملے کے ساتھ مل کر جھاڑ پونچھ تک کی۔ ٹائلس یوں چمچمانے لگیں کہ بچیوں نے اسی کو آئینہ جان کر میک اپ کرنا شروع کر دیا۔ درو دیوار ہنس پڑے۔ بیچاروں کی لیپاپوتی NAAC COMMITEEکا دورہ متوقع ہوتو پانچ سال میں ایک بار ہوا کرتی ہے۔ اسی دھن میں گھر واپس آ کر غسل خانے کی صفائی کررہے تھے کہ ایک دوست کا فون آ گیا۔پوچھا کیا ہو رہا ہے؟ ہم نے کہا گاندھی جی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے باتھ روم صاف کر رہے ہیں۔ جواب ملا۔ شاباش ! اپنے گھر سے فارغ ہو جاؤ، تو ہمارے گھر آ کر بھی خراج ِ عقیدت پیش کر لینا۔ تھکن اتارنے ٹی وی کھول دیا۔َ خبریں دیکھ کر اندازہ ہواکہCLEAN INDIA کے نام پر کتنے ہی وزراء، سماج سیوک ، فلم اسٹار، کھلاڑیوں کو نت نئے لباس میں تصویریں کھینچنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔سوچا ، اس سے قبل کئی جماعتیں اقتدار میں آئیں، یہی صفائی مہم انھوں نے بغیر کسی اشتہار بازی کے چھیڑی تھی۔ خود کو تسلی دی ، یہ سمارٹ فون والے سمارٹ لوگوں کا عہد ہے۔ یہاں نیکیاں چھپا کے نہیں با قاعدہ علیٰ الاعلان کی جاتی ہیں اور ان کو دریا میں نہیں ٹی وی میں ڈالا جاتا ہے۔ یہاں کا ایک ہی اصول ہے۔۔جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر سیاسی پارٹی ترقی کی دوڑ میں یوں آگے نکلنا چاہتی ہے گویا ایک پی ٹی اوشاہے تو دوسرا ملکا سنگھ۔ نیوز چینلز میں دکھایا گیا اڈوانی جی نے صحتمند معاشرے کی بنیاد رکھنے اور ہر انسان کو تندرست رکھنے کی پہل کرتے ہوئے احمد آباد میں کوڑے دان تقسیم کئے۔واہ ! صحیح معنوں میں کسی کے " اچھے دن "آئیں نہ آئیں ، جھاڑو، پونچھا، ڈسٹ بین ، اور ویکیوم کلینرکے آ ہی گئے ہیں۔ ہم نے بھی طے کیا ہے کہ عنقریب جب کالج کا سالانہ جلسہ ہوگا تو مہمان ِ خصوصی کو ویکیوم کلینر، اعزازی مہمان کو ڈسٹ بین اور صدر صاحبہ کو جھاڑوتحفے میں دے دیں گے۔ فیشن کا فیشن اور ابھییان کا ابھییان۔ایک پنتھ دو کاج۔ حد تب ہوئی جب ایک ایک میوزک چینل پر ایک گلو کارکو سوچھتا ابھییان پر گانا گاتے سنا۔ اسے کہتے ہیں مآل اندیشی۔ حالات کے قفل بھلے بدل جائیں، دانا کامیابی کی کلید تلاش ہی لیتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے جب سے صفائی کی تحریک چلائی گئی ہے سنا ہے پاکٹ ماروں کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں وہ جیبوں کی ، اے ٹی ایم مشینوں کی صفائی کر رہے ہیں۔ بہووں نے بوڑھے ساس سسر سے گھر کو صاف کر نے کا پروگرام بنا لیا ہے۔وزراء سرکاری خزانے پر نظر ِ کرم کئے جا رہے ہیں۔ خیر سے اب اس کے ڈانڈے مسلمانوں کے " شدھی کرن " تک جا ملے ہیں ۔کیا آپ اسے " سب کی ترقی سب کا وکاس "کرنے والی حکومت کی سوچھتا ابھیان کا ایک کارنامہ قرار نہیں دیں گے؟ سوال یہ اٹھتاہے کہ کیا ظاہری طور پر کچرا ہٹانے سے ماحول پاک ہو جائے گا؟ ہم پوچھتے ہیں راشن کے اناج سے ملاوٹ کب ختم ہوگی؟ تعلیم کے میدان میں ملک جہالت سے کب آزاد ہوگا؟ سیاست کو جرائم پیشہ افراد سے کب گلوخلاصی خاص ہو گی؟ ووٹنگ سسٹم کی دھاندلی کب رکے گی؟ قائدینِ قوم کے ذہنوں سے تعصب کے پردے کب ہٹیں گے؟ آج غلاظت ہمارے دل و دماغ پر قابض ہے۔ ہمارے یہاں کچرہ گھر کم ہے اور کچرے کا بڑھتا حجم ہے۔ اسی کے سامنے سر ِ تسلیم خم ہے۔ گو کہ یہ زہر و سم ہے باوجود اس کے یہ جام ِ جم کیونکہ اسی میں ہندوستان کی تصویر نظر آتی ہے۔ صاف نہ سہی دھندلی سہی۔ چہرہ گرد آلود ہو تو آئینے سے کیا گلہ؟ جو بھی ہو، مستقبل سے ہماری خوشگوار توقعات وابستہ ہیں۔کہ WASTE MANAGEMENT والے جب ہمارے وسیع و عریض کوڑے کرکٹ کا معائنہ کریں گے تو اس سے کئی کار آمد اشیاء بنا لیں گے۔ مستقبل میں اس موضوع پر بحث کے دروازے کھل جائیں گے۔ اس علم کو بنیاد بنا پر یونیورسٹیاں کھل جائیں گی۔ مختلف کمیٹیاں بن جائیں گی۔ اس مد میں تحقیقات ہونگی۔ کمیشن بٹھائے جائیں گے اور اس میدان میں جس نے بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہو اس کو ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔ بلا شبہ جہاں کوڑا سمٹتا ہے وہیں ابھیان ہوتا ہے۔